عفیفہ تبدیلی سے مرحومہ تبدیلی تک


عفیفہ ”تبدیلی“ کا بائیس قبل جب جنم ہوا تو اس کے گھر والے اس قدر فرحاں و شاداں تھے کہ خدشہ ہوا کہ کہیں وہ اسے چوم چوم کر مار نہ ڈالیں۔ تبدیلی ہر نومولود کی طرح گناہوں، آلائشوں اور آلودگیوں سے پاک تھی۔ وہ اپنی ننھی آنکھوں کو گھما کر اپنی بلائیں لینے والوں کو دیکھتی جو اس کی چاہت میں پھولے نہ سماتے تھے۔ تبدیلی نے چند سال کی منزلیں پھلانگ کر جب سن شعور میں قدم رکھا تو اسے معلوم ہوا کہ اس پر جان نچھاور کرنے والے قلیل تعداد میں ہیں جب کہ سیاست نگر میں کچھ دوسرے بچوں کے وارے نیارے ہوئے ہوئے تھے۔

کسی کے منہ بھی اقتدار کا فیڈر تھا تو کسی کے منہ میں وزارتِ کی چوسنی دے کر اس کا منہ بند کرایا ہوا تھا۔ ایک آدھ بچہ تو ایسا بھی تھا جو ہمہ وقت اختیار کا انگوٹھا ہی چوستا رہتا تھا۔ یہ بچہ بہت بھدی آواز کا حامل تھا لیکن پھر بھی اس کے ناز نخرے کچھ یوں اٹھائے جاتے تھے کہ گویا سب کی جان اس میں تھی۔ تبدیلی کو پتا چلا کہ دو بچے ایسے بھی ہیں جو ناخلف ہو کر سیاست نگر سے باہر نکال دیے گئے۔ ماہ و سال بدلے تو تبدیلی بھی بڑی ہو کر سمجھ داری کی باتیں کرنے لگی۔

پھر اچانک اس نے دیکھا کہ ان دو ناخلف بچوں کو سیاست نگر میں آنے کی اجازت مل گئی اور دونوں اقتدار اور وزارتوں کے کھلونے تھما دیے گئے۔ سیاست نگر میں تبدیلی نے محسوس کیا کہ ایک ایسے شخص کا حکم چلتا ہے کہ جس کا صرف سایہ دکھائی دیتا ہے لیکن وہ سامنے نہیں آتا۔ تبدیلی نے محسوس کیا یہ سایہ بہت عجیب ہے کہ جب مہربان ہوتا ہے تو انعام و اکرام کی بارش برسا دیتا اور جب ناراض ہوتا تو قہر بن کر ٹوٹ پڑتا۔ تبدیلی اقتدار و وزارت کے مزے لوٹنے والے دونوں بچوں کی حرکتوں سے نالاں تھیں۔

اس نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ یہ یہ دونوں بچے سیاست نگر کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ تبدیلی نے ان دونوں بچوں پر یہ الزام دھرا کہ یہ گھر کی تجوری سے پیسے چرا کر باہر مزے مزے کی کھٹی مٹی چیزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تبدیلی ہر وقت کڑھتی رہتی اور چاہتی تھی کہ سیاست نگر میں اسے بھی اہمیت ملے۔ تبدیلی کی قسمت نے پلٹا کھایا ایک دن اس سایے کی پرچھائیاں اس پر چھاؤں بن کر چھانے لگیں اور اس سایے نے اس کی بلائیں لینا شروع کر دیں۔

تبدیلی اب اپنے عنفوان شباب کو پہنچ چکی تھی۔ اس کی الہڑ جوانی کے دیوانے سیاست نگر کے قریے قریے اور کوچے کوچے میں پائے جاتے تھے۔ عشاق اس کی بل کھاتی زلفوں کے اسیر ہوئے اور اس پر اس طرح دیوانہ وار مر مٹنے لگے جیسے پروانے شمع پر فدا ہو کر بے حاصل اپنی جان سے گزر جاتے ہیں۔ تبدیلی کے عشوہ و غمزہ کے شکار دیوانگی کی اس حد کو جا پہنچے کہ تبدیلی کی مخالفت میں ایک ہلکا سا فقرہ بھی جانثاران تبدیلی کی طبیعتوں پر گراں گزرتا۔

تبدیلی کے جہاں عشاق گلی گلی اور محلے محلے میں اس کے عشق کے بخار میں تپ رہے تھے اور تبدیلی سے جلنے والوں کو بھی کچھ کمی نہ تھی۔ مخالفین نے تبدیلی کے کردار پر جملے کسنے شروع کر دیے، تبدیلی کے چال چلن پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں۔ تبدیلی پر سایے کی مہربانیوں نے رقیبوں کو زبان درازی کا موقع دے دیا۔ لیکن تبدیلی کے دیوانے طنز و تشنیع کے تمام ہتھکنڈوں کو بالائے طاق رکھ کر فقط اس کی رعنائی و دل فریبی کے مالا جپتے رہتے تھے۔

تبدیلی کے رقیب اگرچہ سیاست نگر کی گلی کوچوں کی خاک چھانتے ہوئے تجربہ کار ہو چکے تھے لیکن تبدیلی کی اداؤں ہے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ تبدیلی نے اپنی اداؤں اور مہربان سایے کی بدولت رقیبوں کو ایک ایک کر کے ڈھیر کرنا شروع کر دیا۔ عشاق تبدیلی نے ہر سو ہاہاکار مچا رکھی تھی اور ہر ایک زبان پر اس کی کی جے جے کار تھی۔ تبدیلی اپنے عشاق کو اداؤں سے رام کر کے بدلے میں ان پر فریفتہ ہونے کے کئی وعدے کر چکی تھی۔

تبدیلی نے وعدے کیے کہ سیاست نگر میں ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں گے کہ جہاں چار سو خوشحالی کا سونا اچھلتا ہوگا۔ ترقی کی اشرفیاں ہر ایک کی جیب میں کھنکیں گی۔ روزگار کے لال و جواہر کونے کونے میں بکھرے ہوں گے۔ دودھ و شہد کی نہروں میں سیاست نگر کے باسی ڈبکی لگا کر اپنے شکم کی آگ کو ٹھنڈا کریں گے اور اطلس و کمخواب کے پیراہن ان کے جسم کی زینت بنیں گے۔ تبدیلی نے وچن دیا تھا کہ عنبر و مشک سے معطر انصاف کی ایسی ہوائیں چلیں گی جو امیر و غریب اور کمزور و طاقت ور کو یکساں معطر کریں گی۔

رقیبوں کو ڈھیر کر کے تبدیلی نے سیاست نگر کے سب سے اونچے اور حسین محل میں قدم جما لیے تو اب اس کے عشاق نے مہر و الفت کے لیے طلب بھری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنا شروع کر دیا۔ لیکن اب تبدیلی کے لچھن ہی بدل چکے تھے۔ وہ سارے وعدے گویا ہوا میں تحلیل ہو گئے کہ جن کی آس پر اس کے دیوانے اس پر فدا ہوئے تھے۔ وہ عہد و پیمان برف میں پڑی دھوپ کی طرح پگھل گئے جن کے باعث تبدیلی نے سیاست نگر کے باسیوں کو اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر کیا تھا۔

تبدیلی کے چہرے پر لیپا پوتی کر کے جو رعنائی و خوبصورتی چڑھائی گئی تھی اس کی تہیں تہیں ایک ایک کر کے اترنا شروع ہوئیں۔ رخساروں کی لالی رخصت ہوئی تو نشیلی آنکھوں پر لگا کاجل کا رنگ بھی اتر گیا۔ اب تبدیلی کا اصل چہرہ عیاں ہوا تو اس کے عاشقوں کو زور کا جھٹکا لگا۔ انہیں بھی تبدیلی سیاست نگر کی چلتی پھرتی دوسری مورتیوں کی طرح ایک مورتی ہی لگی۔ چند سالوں میں اڑان بھرنے والی تبدیلی اب اوندھے منہ زمین پر پڑی تھی۔

اس کے ماضی کے عاشق اس کی حالت زار پر افسوس اور اپنے عشق پر ندامت محسوس کرتے اور رقیب اس پر پھبتیاں کستے۔ تبدیلی جان کنی کی حالت میں جاپہنچی لیکن پھر بھی اس پر مصر کہ وہی آج بھی سب کی راج دلاری ہے۔ تبدیلی قریب المرگ ہو کر بھی اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ اس کا جوبن اور جوانی آج بھی اپنے عروج پر ہے۔ ایک لاچار و مجبور تبدیلی آج بھی اپنے الہڑ جوان ہونے کے خبط میں مبتلا ہے۔ تبدیلی کے اگرچہ کچھ عاشق اج بھی اس کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں لیکن وہ دور لد گیا جب اس کی ایک ایک ادا پر جتھوں کے جتھوں فدا ہو جاتے تھے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ تبدیلی کا قصہ تمام ہو چکا ہے اور اسے لحد میں۔ اتار کر فقط اس کے منہ پر مٹی ڈالنا باقی رہ گیا ہے۔ تبدیلی کا اصرار ہے کہ وہ آج بھی کسی نازنین کی طرح چنچل و شوخ ہے۔ اب آپ کیا کہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).