تانیہ ایدریس ہر ماہ 450 برس بچائیں گی


محنت اور محنت کے ٹولز بدل رہے ہیں۔ کوئی چاہے تو ڈیجیٹل پاکستان پروگرام کو تبدیلی کی علامت قرار دے سکتا ہے۔ تانیہ ایدریس کسی سیاستدان یا معروف پاور بروکر کی بیٹی نہیں، ایک عام پاکستانی خاتون ہے جس نے ٹیکنالوجی کے ذریعے ذرائع پیداوار تبدیل کرنے کی سائنس سیکھی۔ تانیہ ایدریس اور ان کی ٹیم گوگل میں اہم ذمہ داریاں ادا کرتی رہی ہے۔ گوگل کو جو لوگ نہیں جانتے وہ جان لیں کہ اس ڈیجیٹل کمپنی کا سالانہ بجٹ 110 ارب ڈالر سے زائد ہے۔

اس کا سربراہ کروڑوں ڈالر تنخواہ پاتا ہے۔ ٹھیک ٹھیک اعدادو شمار تو دستیاب نہیں تاہم ہمارے ہاں بجلی اور گیس کے دو کروڑ سے زائد میٹروں پر بل جمع کرانے والوں کی 80 فیصد تعداد اب بھی بنکوں کے سامنے لائنوں میں لگ کر بل جمع کراتی ہے۔ اوسطاً ان ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد کو کم از کم ایک گھنٹہ ہر ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ مدت 21918 دن بنتی ہے۔ 1826 مہینے۔ 152 سال یعنی ہم ہر مہینے 152 سال کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ پولیس سٹیشن میں کسی کام سے جانا چاہتے ہیں لیکن پہلے سے علم ہے کہ معمولی سی درخواست، کسی سرٹیفکیٹ، کسی تصدیق کے لئے دو گھنٹے بھی کم پڑ جائیں گے۔

گاڑی کی رجسٹریشن، جائیداد کی فرد لینے، بچوں کی فیس جمع کرانے، پنشن کے کاغذات کی تکمیل، پاسپورٹ کے حصول، تعلیمی اسناد کی تصدیق و حصول، ٹرین و ہوائی جہاز ٹکٹوں کی بکنگ، اسلحہ و ڈرائیونگ لائسنس بنوانے، ٹیکس دستاویزات اور بنک سے متعلقہ معاملات کو موجودہ نظام اور طریقہ کار کے مطابق انجام دینے میں شاید قوم ہرماہ 300 سال ضائع کر رہی ہے۔ آج کے دور میں وقت سرمایہ ہے۔ گویا پاکستانی قوم ماہانہ 450 سال کی شکل میں اپنا سرمایہ برباد کر رہی ہے۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پاکستان کے نوجوانوں کو ملازمت کے موجودہ مواقع کی نسبت 10 گنا زیادہ ملازمتیں دے سکتی ہے۔ یعنی 10 لاکھ ملازمتوں کی جگہ ایک کروڑ نوکریاں۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ اپنے شعبے میں رونما تبدیلیوں کے زیراثر ہوتی ہے۔ آج جو شخص نیا کاروبار کرتا ہے وہ اس کی تشہیر اور رابطوں کے لئے سوشل میڈیا کو ضرورت سمجھتا ہے۔

انٹرنیٹ سے منسلک ہو کر کمپنیاں اور کاروبار زیادہ تیزی سے ترقی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل بی بی سی پر اسلام آباد کی ایک لڑکی کے بارے رپورٹ شائع ہوئی۔ اس لڑکی نے اپنی والدہ کی مدد سے دیسی جڑی بوٹیوں سے ایسا صابن تیار کیا جو کسی طرح کے کیمیائی اجزا سے پاک ہے۔ صابن کی تشہیر انٹرنیٹ کے ذریعے کی گئی۔ اب گھر کے کچن میں تیار صابن کی جگہ اس نے ایک چھوٹا سا پروڈکشن یونٹ لگا لیا ہے۔ ایسی ہی ایک معروف مسلم آن لائن میرج سائٹ تیار کی گئی ہے۔ ایک نوجوان نے ڈیٹنگ سائٹس کی جگہ نکاح کی ترغیب کے لئے ویب سائٹ شروع کی۔ ایک دو برس وہ اکیلا دن رات اس ویب سائٹ پر کام کرتا رہا، ساتھ میں بنک کی ملازمت کرتا۔ پھر لوگ رشتوں کے لئے ویب سائٹ سے رابطہ کرنے لگے اور اب وہ ماہانہ لاکھوں ڈالر آمدن کی صورت میں وصول کر رہا ہے۔

یہ جو ہر دوسرا نوجوان آپ کو اپنا یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کی درخواست کرتا ہے دراصل یہ سب اپنی آمدن میں اضافہ کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ کئی شیف ہر ماہ لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ کئی اینکر پرسن اضافی آمدن حاصل کر رہے ہیں۔ بعض اداکار اور اداکارائیں اپنی ویڈیوز سے منافع لے رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کا مشہور زمانہ رن مرید تو بڑا خوش ہے۔ عام سے اس شخص نے اپنی صلاحیت کو استعمال کیا اور لاکھوں سبسکرائبر حاصل کر لئے۔ ہمارے ایک دوست محمود نے سیرسپاٹے کے نام سے سیاحتی ویڈیوز ریکارڈ کرکے نشر کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ماشاء اللہ خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔ کوئی کاروبار کیا جاتا ہے تو ڈیجیٹل مارکیٹنگ اسے مزید نکھارتی ہے۔

اگر آپ Fiver ‘people per hour اور Up work جیسی ویب سائٹس کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سینکڑوں برانڈز کو اپنی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے لئے لوگوں کی ضرورت ہے۔ آپ ابھی تک کچھ نہیں کر رہے تو ان سائٹس کا وزٹ کریں۔ اگر آپ نے پانچ سے 10 اچھے گاہک تلاش کر لئے تو یہ اچھا آغاز ہو سکتا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تعلیمی اداروں اور نصاب کو آن لائن کر سکتی ہے۔ جن بچوں کے پاس فیس ادائیگی کی سکت نہیں وہ بلامعاوضہ کلاسز لے سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کتابوں کی جگہ آن لائن مطالعہ کو رواج دے گی۔

جو والدین کتابیں نہیں خرید سکتے ان کے بچے مفت کتابوں سے مدد لے سکیں گے۔ ڈیجیٹل پاکستان پروگرام دفاتر میں کاغذ کے استعمال کو کم سے کم سطح پر لانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ تانیہ ایدریس 20 سال بعد وطن واپس آئی ہے۔ اسے نیا پاکستان بنانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ وہ گوگل میں سینئر ایگزیکٹو کے طور پر کام کر رہی تھی۔ اس نے آدھی زندگی پاکستان سے باہر گزاری۔ دنیا کے بہترین سکولوں میں تعلیم حاصل کی اور پھر سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ وہ خود کہتی ہے ’’میں پاکستان کو ٹیکنالوجی اور اختراع کے عالمی نقشے پر نمایاں ہوتا دیکھنا چاہتی ہوں‘‘ ۔

مجھے ذاتی طور پر پاکستان کے ماحول اور تانیہ سے تعاون کے حوالے سے اطمینان نہیں تاہم مجھے یہ اطمینان ضرور ہے کہ سیاستدانوں کی نالائق اولادوں کی جگہ اب عام پاکستانیوں کے پڑھے لکھے اور زیادہ باصلاحیت لوگ ڈرائیونگ سیٹ پر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم کی ٹیم کے کسی رکن نے انہیں تانیہ کے بارے میں بتایا، عمران خان نے اپنی اصلاحاتی ٹیم کو ان سے رابطہ کا کہا۔ جہانگیر ترین نے تانیہ سے تفصیلی ملاقات میں کچھ آئیڈیاز پر بات کی، بعد ازاں اراکین کابینہ نے ان سے ملاقاتیں کیں۔یہ تعیناتی ممکن ہے متنازع بنانے کی سازش کی جائے جیسے پہلے کی گئیں مگر اس با ر عوام کو بیدار اور ہوشیار رہنا ہو گا۔ ہم پہلے ہی طارق ملک کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اور کچھ ہو نہ ہو ہم ہر ماہ 152 برس اور ہر سال 1824 برس ضائع ہونے سے بچا سکے تو یہی بہت ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).