ریاض ملک کا سرکاری وکیل اور عمران خان کی سعودی دربار میں حاضری


یہ سطور شائع ہونے تک عمران خان سعودی شاہی دربار میں حاضری کے بعد واپس اسلام آباد پہنچ چکے ہوں گے جہاں ان کے چہیتے شہزاد اکبر پوری دل جمعی سے ملک ریاض کی وکالت کا حق ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

گو کہ سینیٹرشہزاد اکبر کا بنیادی کام ملک میں احتساب کا ڈھنڈورا پیٹنا، قانون کو ہر کس و ناکس کے لئے یکساں قرار دینا اور لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لے کر آنا ہے لیکن ملک ریاض نے دو ہفتے قبل برطانیہ کی کرائم ایجنسی کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے شہزاد اکبر کی ذمہ داریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اب انہیں انصاف پسند حکومت کے میرٹ پر کئے گئے فیصلوں پر ملک کے کوڑھ مغز میڈیا کے اٹھائے گئے طوفان کا بھی سامنا کرنا پڑ تاہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ شہزاد اکبر نے ایف آئی اے اور نیب کی طرف سے وصول کی گئی ناجائز دولت کی تفصیلات بتانے کے لئے پریس کانفرنس منعقد کی لیکن صحافی دو ہفتے پرانی خبر کی لکیر پیٹنے سے باز نہیں آئے۔ شاید صحافیوں کےاسی رویہ کی وجہ سے گزشتہ روز اطلاعات کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ اب وزیر اعظم بنفس نفیس خودسر اور ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینے والے صحافیوں کی تشفی کریں گے۔

سرکاری اطلاعات کے مطابق ایک میڈیا کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہوں گے اور اس میں صحافیوں کے روزگار اور میڈیا مالکان کی مالی پریشانیوں پر بھی غور ہوگا۔ لیکن یہ مسائل اسی وقت حل ہوسکتے ہیں جب ملک کے نام نہاد آزادی پسند صحافی اپنے مفاد کے علاوہ بھی کچھ سوچیں اور ایک سازش کے تحت بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کرنے سے گریز کریں۔ حکومت بہت بار بتا چکی ہے کہ یہ ایک نیا پاکستان ہے جہاں عمران خان کے منہ سے نکلا ہؤا لفظ ہی قانون اور قومی ایجنڈا ہے۔ اس کے باوجود اگر آزادی اظہار کے نام پر سوال اٹھانے اور حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا جائے تو اسے غیر ملکی سازش نہ سمجھا جائے تو کیا کہا جائے۔

اسی سازشی ذہن کی وجہ سے شہزاد اکبر سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار کی تفصیل بتاتے ہوئے یہ واضح کررہے تھے کہ نئے پاکستان کی ایف آئی اے اور نیب کس طرح ملک دشمن عناصر سے ناجائز دولت واپس وصول کرکے قومی خزانہ لبالب بھر رہی ہے۔ ایسے میں ان سے ملک ریاض کے بارے میں نازیبا اور سیاق و سباق سے ہٹ کر سوال کئے جانے لگے۔ عمران خان نے بھی نیا پاکستان بنانے کے لئے جیالوں کی ایسی ٹیم تیار کی ہے جو کسی مشکل سے گھبراتے نہیں ہیں اور نہ ہی صحافیوں کے سوالوں کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ا س کے باوجود رپورٹر اور صحافی چہیتے ریاض ملک کا معاملہ بار بار اٹھا کر کچھ نہ کچھ عذر پیش کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی شہزاد اکبر کے ساتھ اس بار بھی ہؤا ہے۔

میڈیا کو تو اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ ریاض ملک کا معاملہ کس قدر حساس اور قومی اہمیت کا حامل ’راز‘ ہے کہ یہی وہ واحد معاملہ ہے جس پر تحریک انصاف کی حکومت سے لے کر مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کی قیادت تک سب ایک ہی پیج پر ہیں۔ یوں تو میڈیا قومی یک جہتی قائم کرنے اور مسائل پر اتفاق رائے سے فیصلے کرنے کا مطالبہ سامنے لاتا رہتا ہے بلکہ اصرار کیا جاتا ہے کہ اس وقت ملک کے مسائل کی اصل وجہ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر پیدا ہونے والا بحران ہے۔ کیوں کہ اپوزیشن اور حکمران پارٹیاں اتفاق رائے کرنے پر تیار نہیں ہوتیں۔ حکومت سب اپوزیشن لیڈروں کو چور اچکے اور ڈاکو لٹیرے قرار دیتے ہوئے جیل میں ڈالنا چاہتی ہے اور اہم معاملات پر اپوزیشن سے مواصلت و تعاون سے انکار کیا جاتا ہے۔ آخر قومی دولت لوٹنے والوں سے کیسے اور کس بنیاد پر بات کی جائے۔ اور دوسری طرف اپوزیشن ہے جس کی قیادت لندن میں بیٹھ کر حکومت کا تختہ الٹنے اور مائنس ون یعنی وزیر اعظم عمران خان کی ذات گرامی کو ہی سیاست سے خارج کرنے کی گھناؤنی سازشیں کرتی ہے۔

اس دردناک ماحول میں ملک ریاض ہی وہ واحد عظیم ہستی ہیں جن کے دم قدم سے اپوزیشن اور حکومت یک جان دو قالب کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ برطانوی کرائم ایجنسی نے ملک صاحب کی خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کو ناجائز تصور کرتے ہوئے ان سے ہرجانہ ادا کرنے کی ڈیل کی۔ اور ملک ریاض سے 19 کروڑ اسٹرلنگ پاؤنڈ جرمانہ وصول کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے فیصلہ کیا کہ یہ دولت چونکہ ملک ریاض پاکستان میں اپنے کاروبار سے نکال کر برطانیہ لے کر آئے تھے۔ اس لئے گمان غالب ہے کہ یہ دولت پاکستانی عوام اور پاکستان کے سرکاری خزانہ سے ’چرائی‘ گئی ہو گی۔ اسی گمان پر برطانیہ نے یہ ساری دولت پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کی انصاف پسند حکومت کو اندازہ تھا کہ برطانوی اداروں کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ شہزاد اکبر نے انہیں حسن و حسین نواز کی دولت ڈھونڈنے کا ’ٹاسک‘ دیا تھا لیکن وہ ملک ریاض کی جائیداد اور اکاؤنٹ ٹٹولنے لگے۔ ظاہر ہے برطانیہ ایک خود مختار ملک ہے۔ شہزاد اکبر اور عمران خان کی حکومت اپنی تمام تر انصاف پسندی کے باوجود اس کا ہاتھ پکڑنے اور غلط جگہ ہاتھ ڈالنے سے تو نہیں روک سکتی تھی۔ اسی لئے محض انصاف اور حقدار کو اس کا حق ادا کرنے کے نام پر حکومت نے چپ ہی بھلی کے اصول پر عمل کرتے ہوئے، اس رقم کو پاکستان آنے دیا تاکہ ملک ریاض کو ان کی دولت واپس پہنچا کر عدل و انصاف کا بول بالا کیا جا سکے۔ اپوزیشن نے بھی ایسا اعلیٰ انصاف ہوتے دیکھا تو اس نے مسکرا خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ آخر کون ہے جس کے سر پر ملک ریاض کا دست شفقت دراز نہیں ہوتا۔ اب ان کے ساتھ انصاف کیا جائے تو اس پر اعتراض کی کیا بات ہے؟

اس آسان سے معاملہ کو گنجلک اور پراسرار سازش بنا کر رپورٹر اور صحافی موقع بے موقع شہزاد اکبر کی بات کاٹتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ بھئی وہ ملک ریاض جو 19 کروڑ پاؤنڈ ملک سے باہر لے گیا تھا، اس کی چھان بین کیوں نہیں کی گئی۔ اب شہزاد اکبر اس غلط سوال کا کیا جواب دیں۔ غلط جواب دینا ان کی شان اور نئے پاکستان کے چارٹر کے خلاف ہے۔ لہذا انہوں نے واضح کیا ہے کہ ملک ریاض نے کوئی قانون شکنی نہیں کی۔ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ کسی غلط فہمی میں برطانوی حکام نے ان کے آٹھ نو اکاؤنٹ منجمد کردیے۔ اب ایک معاہدہ کے تحت ملک ریاض نے ان اکاؤنٹس میں موجود 12 کروڑ پاؤنڈ برطانوی حکام کے ہی حوالے کردیے۔ کہ میرے پاس اللہ کا دیا پاکستان میں بہت ہے۔ اور اس دولت نے بھی کہاں جانا ہے۔ شہزاد اکبر کی موجودگی میں انہیں یقین ہو گا کہ پاکستان میں ان کے ساتھ بے انصافی نہیں ہوگی۔ بس اتنی سی بات پر شہزاد اکبر کو ملک ریاض کا سرکاری وکیل تو نہیں کہا جاسکتا۔ اور کہا بھی جائے تو وہ اسے اپنے لئے اعزاز ہی سمجھیں گے۔ آخر تحریک انصاف کی حکومت انصاف نہیں کرے گی تو اور کون کرے گا۔ شہزاد اکبر تو یوں بھی انصاف کے موید اور قومی دولت کے محافظ ہیں۔

اس دوران ملک کے غیرت مند وزیر اعظم کو شاہی دربار میں حاضری کے لئے ریاض جانا پڑا لیکن انہوں نے اس سے پہلے دربار رسالت میں حاضری کے لئے مدینہ منورہ جانے کا پروگرام بنا لیا۔ سعودی بادشاہ اور ایم بی ایس تو انتظار کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کی دینی حمیت انہیں اجازت نہیں دیتی کہ وہ سعودی شاہ کی منت سماجت سے پہلے دربار نبوت میں حاضر ہوکر اپنی مجبوری بیان نہ کریں۔ شاید اسی طرح ان کی مشکل حل ہوجائے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ عمران خان کے آئیڈیل رہنما مہاتیر محمد مسلمان ملکوں کے سربراہان کی کانفرنس بلائیں اور عمران خان اس میں شریک نہ ہوں۔ وہ کوئی انڈونیشیا کے صدر جوکو وودودو تو نہیں کہ ہر جائز ناجائز بات کو کسی حجت کے بغیر ہی مان لیں۔

ملائشیا کے وزیر اعظم کی دعوت پر اگر ترکی و ایران کے صدور اور قطر کے امیر کوالالامپور جارہے ہیں تو پاکستانی وزیر اعظم اس میں کیوں نہ جائے؟ بس سعودی شہزادوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ جس کے لئے پہلے شاہ محمود قریشی کو ریاض بھیجنا پڑا اور اب عمران خان بنفس نفیس شاہ سلمان اور شہزادہ محمد کو یہ بتا کرآئے ہیں کہ کوئی بھی اجتماع او آئی سی یعنی سعودی نواز اسلامی تعاون تنظیم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ او آئی سی تو اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لیتی۔ اسی لئے ہر وقت بے دم چپ سادھے پڑی رہتی ہے۔

عمران خان نے اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لی۔ سعودی عرب کی منت سماجت بھی ضروری ہے۔ یوں تو پاکستان ایٹمی قوت ہے اور اپنے سے پانچ گنا دشمن ملک کی راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے لیکن سعودی عرب سے ہمارے دیرینہ برادرانہ مراسم ہیں۔ پھر مدینہ منورہ بھی سعودی عرب کی مملکت میں شامل ہے۔ نئے پاکستان میں ریاست مدینہ کا نظام نافذ کرنے کے لئے دن رات کام ہو رہا ہے۔ یہ نہ ہو، سعودی شاہی خاندان نام کے پیٹنٹ کا مطالبہ کر دے۔ شاہی مزاج ذرا نازک ہوتا ہے۔ اچھا کیا کہ عمران خان نے ایک حاضری سے کام چلا لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali