فلسفے میں بہت کچھ نہیں ہوتا


\"shahzeb-khan\"اردو بلاگو سفیئر کے\”بگ بینگ\”پر علم کی طلب رکھنے والے بہت خوش ہیں۔ پرنٹ میڈیا پرسطحی سیاسی تحریروں کے اجارے سے نالاں افراد کے لئے یہ ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ اسی کی بدولت \”ہم سب\”پر عمدہ تحریرات اور مکالموں سے واسطہ پڑا۔ اسی حوالے سے ایک مضمون \”ٹیکسٹ بک کا استبداد\” خصوصی دلچسپی کا باعث بنا۔
مضمون نگار نے عمدہ تحریر میں ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ ان کو ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں فلسفہ پر ابتدائی کورس پڑھانے کے لئے مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر ڈین صاحب نے ان سے ٹیکسٹ بک کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا جواب تھا \”فلسفے میں ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی۔ \” میں جملہ پڑھ کر چونکا۔
اس جملے کی قطعیت میرے لئے سنسنی خیز تھی۔ مطالعے پر مضمون کے زیر متن میں فلسسفیانہ بڑائی pre-eminence philosophical کی تھیم سے سامنا ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ اسلوب میں فلسفیانہ نفاست کے اصولوں پر کچھ سمجھوتے نظر آئیے۔ چونکہ گفتگو سائبر سپیس میں یا بقول مرزا اطہر بیگ کے سائبر ڈرائنگ روم میں تازہ تھی، سوچا کہ مکالمے میں سیکھنے کے پہلو سامنے آئیں گے۔ اسی حوالے سے اپنی طالبِ علمانہ جسارت کو مناسب سمجھا۔
\” فلسفے میں ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی۔ \” مضمون نگارسے واقعے کے بیان میں ہی میں پنہاں استاد اور طالب علم کی طاقت کی سیاست نا دانستہ طور پر عیاں ہو گئی۔ جس علم کا اطلاق طلباء پر ہونا ہے ،وہ ہی اس فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ۔ لہذا وہ کیا پڑھیں گے کیا نہیں، ان کا طریقہ تعلم کیا ہونا چاہئے اس کا فیصلہ صرف استاد کر سکتا ہے، طلبا نہیں۔ اگر استاد کا فلسفی ہونا یا فلسفیانہ استدلال سے واقفیت رکھنا بھی اس واقعےمیں طلباء کی ماتحتی کی کیفیت کو بھانپ نہ پایا تو سچائی کے سب سوتوں کا ادراک بذریعہ فلسفیانہ طریق کے دعوے کو کس نظر سے دیکھا جائے ؟
پائولو فری ایری نے اپنی مشہور تصنیف پیڈاگوجی آف دی اپریسڈ Pedagogy of the Oppressed میں استاد اور شاگرد کے اسی تعلق کو\”بینکنگ ماڈل آف ایجوکیشن\” کا نام دیا ہے۔ وہ اس تصور کو ایک استعماری تصور اور سرمایہ دارانہ معاشرے کی نشانی قرار دیتا ہے جوکہ استحصالی تعلقات کو مہمیز بخشتا ہے۔ اسی کو ڈاکٹر اقبال احمد کی زبان میں “unequal exchange” بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی بجائے فری ایری ٹرانزیکشنل ماڈل کی بات کرتا ہے جس میں وہ طلبا کو پڑھانے کے عمل میں ان کی اپنی انوالومینٹ اور شناخت کی شراکت داری کو لازمی قرار دیتا ہے۔ فری ایری کی equal exchange کے ماڈل کا خاکہ اس کے اس جملے میں بیان ہوا ہے: “Whoever teaches, learns in the act of teaching, and whoever learns, teaches in the act of learning.” (Pedagogy of Freedom)
مضمون میں اس نا دانستہ، غیر ارادی، غیر متوازی ایکسچینج کی مثال ایک طرز فکر کی بھی عکاسی کرتی ہے ۔ اکثر اوقات فلسفہ کے جمالِ ابیض سے خیرہ ہو کر احباب اپنے زاویہ نظر اور موضوعیت کی شعوری شناخت کے بغیر اپنے تصورات کو عقلی اور شفاف قرار د دینے لگتے ہیں۔ زیر نظرمضمون اس حوالے سے ایک کیس سٹدی ہے ۔
ٹیکسٹ بک کے تصور کو مضمون نگار نے \”مذہبی\” اور اس کی \”کسی قدر تفصیل\” کو ضروری قرار دیا ہے۔ اس میں درج ذیل نکات غور طلب ہیں اور فلسفیانہ طرز فکر کے تحت ان پر ان گنت سوال اٹھائے جا سکتے ہیں مگر اختصار کی ناگزیریت اور راقم کی فلسفہ سے گہری شناسائی کی عدم موجودگی میں مبتدیانہ سوالات ہی اٹھائے جا سکیں گے۔ مضمون نگار کے بقول : \”مذہبی عقائد مسلمات پر مبنی ہوتے ہیں جن میں کسی چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر معاملے پر ایک قطعی اور دو ٹوک رائے ہوتی ہے جس کو تسلیم کرنا ہر ایک پر لازم ہوتا ہے۔ تمام امور طے شدہ ہوتے ہیں اور ان پر نہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ان کے جواز پر کوئی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔ \”
اتنی بڑی تعمیم کی گنجائش ،میرے نزدیک، ایک ایسے بیانئے میں، جس کا اپنے طرز تحریر کے اعتبار سے دعوی فلسفیانہ ہو بعید از قیاس ہے۔ پہلا سوال یہ کہ مذاہب کی ہزاروں سالہ تاریخ کا عرق ایک پیراگراف میں نچوڑنے کی جستجو ہی کو ہی ایک غیر فلسفیانہ کاوش قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوال کرنا چاہیے کہ کیا فلسفہ حقائق کو ان کی ممکنہ ترین تفصیل میں دیکھنے یا اس کی جستجو کا نام نہیں؟
پھر مذاہب کے تنوع ، زماں و مکاں کے فرق، زرعی اور انڈسٹریل ادوار کے امتیازات میں مذہب کے کردار کے فرق کے بغیر مذہب کو ایک مونولتھmonolith بناتے ہوئے اس کا رد کرنا کس لاجیکل طریق میں ہونا ثابت ہے؟ آج دنیا میں موجود دانشور طبقہ اس heresy of paraphrase سے بچتے ہوئے معاملات پر غور فکر کرنے کو فلسفہ کہتا ہے نہ کہ سٹیریو ٹائپنگ کو۔ در حقیقت یہ اسلوب سچائی تک پہنچنے میں کبھی معاونت نہیں کرتا۔
علم کے وہ مفروضے جو یورپی روشن خیالی کے تقاضے تھے ان کو نوآبادیاتی دور میں اپنی تہذیبی شناخت کے تحت انسٹی ٹیوشنلائز کیا گیااور تدریسی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ \”تنقیدی فکر\” کے نام پر مغربی تصورات راسخ ہو ئے اور اپنے بنیادی مقصد، یعنی یورپی تفکر و تہذیب کی دھاک بٹھانے میں کامیاب ہوئے۔ بہت سی جامعات کےانسانیات اور سماجی علوم کے شعبے آج تک ان تصورات کو اَن لَرن نہیں کر پائے۔ علم کو دیسی نہیں کر پائے، بلکہ اس کا ادراک ہی نہیں رکھتے کہ علم کی سیاست کا تعلق اپنے معروض سے کیسے ایک اٹوٹ رشتے میں جڑا ہوتا ہے اور علم اپنے خمیر میں سیاق و تناظر کو ساتھ لے کر چلتا ہےاور سماجوں کے باہمی جدل میں ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آج بھی انگریزی ادب کے کسی طالب علم سے پوچھیں تو وہ نشط ثانیہ کو ریوائول آف لرننگ، ترقیات اور دریافت سے تعبیر کرے گا۔ لیکن اسی دور کے تعارف میں اس کے اپنے علاقے اور غالب دنیا کے ساتھ کیا بیتی اس کے بارے میں پوچھا جائے تو کچھ کہنے کے قابل نہ ہوگا۔ اب یورپ کی نشط ثانیہ کا بیانیہ مقدم اور دنیا کی غلامی اور تباہی کا بیانیہ غائب۔
بقول والٹر مِگنَلو نشاۃ ثانیہ کے سیاہ پہلو (The Darker Side of the Renaissance)کو یورپی استعمار نے دنیا سے چھپا کر رکھا۔ اصل میں تو \”ریوائول آف لرننگ\”، \”ترقیات\” اور \”دریافتیں\” تو تھیں ہی باقی دنیا کو جاہل بنانے، ترقی چھیننے اور غاصبانہ قبضہ کرنے کے بنیاد پر۔ مگر طاقت اور علم کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ضروری حقائق ہی سامنے لائے گئے کیونکہ ان کا مقصد انگریز کے کالونیز میں حقیقی جرائم کو اپنی تہذیب کے علمی و ادبی کارناموں میں چھپا کر استحصالی کردار کو تاریخی بیانیئے سے غائب کرنا تھا۔
اب ان چنیدہ حقائق اور استحصالی زاویہ نگاہ سےکس درجہ کا\”مکمل سچ\” ، \”قطعی\” اور \”شفاف\” علم بر آمد ہو سکتا ہے ؟ پاکستان میں فلسفہ کے اکثر شعبہ جات انہی نو آبادیاتی تفکرات پر قائم ہیں۔ ٹیکسٹ بک بذات خود تو کوئی حیثیت نہیں رکھتی وہ تو کسی بھی دور کےتصورات اور مصنف کے علمی رجحانات کی عکاس ہوتی ہے اور جب چاہیں، جس حد تک ان کی سبجیکٹوٹی اس کی اجازت دے، اس کا تجزیہ کر کے کتاب کے رجحانات کو استاد یا فلسفی سامنے لا سکتا ہے۔ یقیناً اس تجزیہ میں بھی قطعیت، شفافیت اور مکمل سچ نہیں ہو سکتا بلکہ تجزیہ کرنے والے کے اپنے رجحانات اور دستیاب مطالعہ کی روشنی میں مزید حقائق کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
مضمون نگار اپنی تحریر میں درج اصطلاحات کو اپنی مخصوص تعبیر میں استعمال کرتے ہیں جو در حقیقت یورپی اینلائٹنمنٹ طرز فکر کیہی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ایک اہم ہدف \”مذہبی فکر\” ہے۔ مگر جس فکر کو انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ نو آبادیاتی دور کےہندوستان کے مذہبی تصورات ہیں ۔ مگر اس کا اطلاق زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہو کرکیا ہے اور دنیا میں آنے والے تمام مذاہب کو ایک ہی حقیقت قرار دیتے ہوئے ان پر تنقید کی ہے ۔ یہ عمل خود لاجک کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر معلومات کو بغیر انلائٹنمنٹ تصورات کی جکڑ بندیوں اپنے ذہن کے نہاں خانوں تک پہنچنے دیا جائے تو ادراکات میں مسلسل اضافہ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر ذہن پر کسی فریم ورک کا اجارہ قائم ہو جائے ، چاہے وہ لبرلزم کے نام پر ہی کیوں نہ ہو تو شواہد سامنے ہونے کے باوجود ان کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے 2012 میں رابرٹ ینگ نامی ایک فلسفی نے اپنے ایک مضمون The Postcolonial Remains میں ایک سوال اٹھایا جو اس تناظر میں رکھنا مناسب ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مغرب میں سب سے پہلے ملٹی کلچرل معاشرے کا تصور 1970 کی دہائی میں کینیڈا میں آیا مگر اس سے آٹھ سو سال پہلےایسے ملٹی کلچرل معاشرے اندلس میں موجود تھے جہاں مسلمان، عیسائی اور یہودی اکٹھے زندگیاں بسر کرتے رہے تو ایسا کن تصورات کی بدولت ہوا ہوگا؟ ان کا اشارہ یقیناً اسلام کی طرف ہے۔ اب کیا اندلس میں قائم ملٹی کلچرل معاشرے کی بنیاد کن\”مذہبی\” تصورات نے رکھی اس پر غور و فکر کا فلسفہ تقاضا کرتا ہے۔
اسی طرح اگر ہم چنیدہ معلومات کو مکمل سچ قرار دے کر آئیڈیالوجی بنا لیں تو بہت سے شواہد جو ہمارے اذہان میں داخل ہو کر کئی تخلیقی ممکنات کو جنم دے سکتے ہیں ان سے ہم محروم رہ جاتے ہیں اور فلسفہ نے جو نتائج انہی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر دنیا کے بہت سے خطوں میں دیئے ان سے ہمارے ملک کو بہر ہ ور نہیں کر پایا۔
اب ذرا ان شواہد کو بھی اگر اپنے فریم ورک میں جگہ دیں کہ نو آبادیاتی دور سے پہلے کے ہندوستانی معاشروں کا جو تصور ہمیں نظر آتا ہے اس میں بھی ہمیں مذہب کی بنیاد پر استحصالکا عمل دیگر معاشروں کی نسبت نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتا ہے۔ امرتیا سین اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جب یورپ میں برونو کو زندہ جلایا جا رہا تھا تب ہندوستان میں بین المذاہبی ہم آہنگی اور رواداری کی شاندار روایتیں قائم کی جا رہی تھیں۔ اب مضمون نگار کے فریم ورک میں تو اس پرکھ کی کوئی گنجائش موجود ہی نہیں۔ ہندوستان کے ہی ماضی کے حوالے سے اگر ہم رومیلا تھاپڑ، عرفان حبیب، امیتاو گھوز، ہربنس مکھیا اور مولانا عبید اللہ سندھی کے بیانیوں پر اعتبار کریں تو ایک تصویر نظر آتی ہے اور اگر میکس ملر(Max Muller) کی روایت کے لوگوں کے بیانیوں کا جائزہ لیں تو نو آبادیاتی مصلحتوں کے تحت لکھی گئی تحاریر سامنے آتی ہیں۔
اینلائٹنمنٹ بیانیوں کے تسلیم کرنے میںایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ مذہب کے استحصالی کردار کی مثالیں تو یورپ کے سیاہ دور کی ذہن میں ہوتی ہیں، انہی پر مغربی مفکرین کی تنقید بھی سامنے ہوتی ہےاور اس فریم ورک میں جب اپنے خطے کو سمونے کی کوشش کی جاتی ہے تو مثالیں نو آبادیاتی دور کی مذہبی فرسودگی کی دی جاتی ہیں اور فلسفیانہ طرز استدلال کے دعوؤں کے با وجود نظر مجادلہ فکر کی شاندار مثالوں کی اپنے معاشروں کی موجودگی کو دیکھنے سے ہی قاثر ہو جاتی ہے۔ خوداپنے ماضی کی مذہبی دنیا میں جو تنوع قائم رہا اور مختلف فکر اور فقہ وجود میں آئیںوہ نظر سے غائب ہو جاتی ہیں۔ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے ہی اختلافات جو کہ روایت اور نصابی کتب میں آج تک موجود ہیں اور جو\”مجادلہ فکر کی ٹیکسٹ بک میں شمولیت\” کی زندہ مثال ہیں ان کے تذکرہ کے امکان کو اینلائٹنمنٹ بطور فکری استبداد جھٹک دیتا ہے ۔ اسی طرح مذہب کے تناظر میں ہی، علم اسرار دین کے موضوع پر امام غزالی سے لیکر شاہ ولی اللہ تک دین کو دور کے تقاضوں کے مطابق سمجھانے کے کوششوں کی بھی اس بِدیسی فریم ورک میں جگہ موجود نہیں۔ اب بتائیے مذہب کی بلینکٹ کنڈیمنیشن کو کہاں تک \”فلسفیانہ\” کہا جا سکتا ہے؟ جو باتیں مضمون نگار نے مذہب کی تنقید میں فرمائیں ہیں ان میں کلیدی نقطہ مذہب کو ایک اکائی مانتے ہوئے، زماں و مکاں کے فرق سے بالا تر ہو کر، تنقید کرنے کا ہے ۔ آج کی علمی دنیا جس سے میرا واسطہ پڑا ہے اس میں اس طریقہ کے حوالے سے تشکیک پائی جاتی ہے۔ مثلا فرانسس کولنز کا مذہب (وہ اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں) مضمون نگار کے \”مذہبی فکر\” میں سما سکتا ہے؟کہ جنہوں نے رچرڈ ڈاکنز کے اس جملے کے جواب میں کہ اگر ایک سائنس دان کا کسی خدا کے تصور پر یقین ہو تو وہ اپنی سائنس اچھی طرح پرسو نہیں کر سکتا کے جواب میں مسکراہٹ کے ساتھ یہ جواب دیا کہ آپ کے جملے کی روشنی میں میری سائنس اعلی درجے کینہیں ہو سکتی۔ (فرانسس کالنز ہیومن جینوم پراجکٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے رہے اور اس ٹیم کو لیڈ کیا جس نے انسانی تاریخ میں سب سے پہلے ہیومن جینوم کو ڈی کوڈ کیا۔ )
بذات خود لفظِ فلسفہ کو ہی لیجئے۔ مضمون نگار ان فلسفیوں کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گےجو الہی تصور پر یقین رکھتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ فلسفیانہ استدلال نے ان کو اس نتیجے پر پہنچایا ہے؟ کیا ان کا فلسفہ بھی مضمون نگار کی اصطلاحی چھتری میں سما سکتا ہے؟ یا پھر طلباء کی ماتحتی کے inconvenient fact کی طرح یہاں بھی اس کو ایک inconvenient truth کی طرح نظر انداز کرنا زیادہ مفید ہوگا؟
جہاں تک نصابی کتب کا تعلق ہے تو وہاں بھی مضمون نگار کی سٹیریو ٹائپنگ جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نصابی کتب میں کوئی ایسی تبدیلی کی گنجائش ممکن نہیں؟ ابھی حال ہی میں جیرلڈ گراف کی کتاب پروفیسنگ لٹریچر : این انسٹی ٹیوشنل ہسٹری کا مطالعہ جاری تھا تو اس کے آغاز میں ہی وہ یہ کہتے ہیں کہ علمی دنیا کے مجادلہ فکر کو نصابی کتب میں جگہ دی جائے اور وہ خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں۔
نصابی کتب پر \”نظریہ\” کی قد غن یا اجارہکی بات بھی مضمون نگار نے پیش کی۔ تو سوال یہ ہے کہ نظریہ کی کیا وہی تعبیر معنی رکھتی ہے جو انہوں نے پیش کی ہے یا کوئی اور تعبیر بھی سر اٹھانے کی جسارت کر سکتی ہے؟ اب مثلا ٹیری ایگلٹن نے اپنی ایک مختصر کتاب آئیڈیالوجی: این انٹرو ڈکشن میں آئیڈیالوجی کی کم و بیش سترہ تعبیریں لکھیں ہیں۔ تو کس استدلال کے تحت ہم ان سترہ تعبیروں میں سے ایک کو منتخب کریں گے؟ یقیناً اس کا فیصلہ کسی عقلی شفافیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہمارے ذہنی و نظریاتی رجحان اور مخصوص حالات کے تابع ہوگا۔ عقلیت یا شفافیت کی بنیاد کا دعوی ہی حقیقت میں ایک مِتھ ہے۔ بالکل ویسے جیسے یہ دعوی کی فلسفہ کسی ایک اکائی کا نام ہے اور پھر اس افواہ کی بنیاد پر اپنے چنیدہ تصورات پیش کر دینا اور ان کو فلسفیانہ استدلال کہ دینا جبکہ اس میں اپنی ذات اور سبجیکٹوٹی کے بغض چلا کے اپنے بارے میں دعوتِ فکر دے رہے ہوں۔
مضمون نگار نصابی کتب کے استعمال کے حق میں نہیں اور اس رائے کو ایک آفاقی اصول کے درجے میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ بھی در حقیقت یورپی زاویہ نگاہ ہے۔ چونکہ یورپ نے اپنے علم کو جب پیش کیا تو اپنے مخصوس زاویہ نگاہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس عمل کو آفاقی قرار دیا۔ حالانکہ اس کا تعلق انکے اپن مقام اور معاملات کے تحت تھا۔ (قارئین اس حوالے سے والٹر مِگنلو کے مضمون Epistemic Disobedience, Independent Thought and De-Colonial Freedom کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ) مضمون نگار بھی اسی، یورپی طرز کو اپناتے ہوئے مختلف زماں و مکاں کی مثالیں جوڑتے ہوئے جو نتیجہ اخذ کر رہے ہیں اس میں آفاقیت کا دعوی موجود ہے اور اپنے مقام و معاملات و جھکاؤ سے صرفِ نظر۔
آج کے دور میں اہم موضوعات پر لکھتے ہوئے بیانیوں کی سیاست سے صرف نظر ممکن نہیں۔ کبیری بیانیہ، مہا بیانیہ، مزاحمتی بیانیہ، نو آبادیاتی بیانیہ ، ما بعد نو آبادیاتی بیانیہ کے زاویوں کے بغیر انتہائی اہم موضوعات پر سٹیریو ٹائپنگ کرتے چلے جانا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ کم از کم ایک صدی پہلے آسانی سے کیا جا سکتا تھا، آج کے مابعد جدیدی دور میں ایسا کرنا محال ہے۔
اگر مقصد سچ کی حقیقی کھوج ہو تو انسان کے لئے درج ذیل کا احاطہ کرنا ناگزیر بن جاتا ہے: اپنی نوعی فطرت ، زماں و مکاں ، اپنے پر سیاسی، سماجی و معاشی عوامل کا اثر۔
ان تمام پہلووں پر گفتگو کرنا یہاں پر محال ہے۔ لہذا صرف فطرت پر ڈاکٹر راما چندرن، نیرو سائنٹسٹ،(Centre for Study of Brain and Cognition, University of California)کی مرر نیورون کی تھیوری کی مثال دیتے ہوئے اختتام کی جانب بڑھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تجربے، جو کہ سیریبرل لوکالائزیشن (cerebral localization) پر مبنی ہے، کے بارے میں لکھا کہ جب ایک انسان کو سوئی چبھوئی گئی تو اس کے دماغ میں کچھ نیورونز ٹرِگر ہوئےاور انہوں نے اس کی تکلیف کو رجسٹر کیا۔ بھر اس کے سامنے بیٹھے ایک شخص کو سوئی چبھوئی تو تب بھی اس کے دماغ میں نیورونز ٹرگر ہوئے اور انہوں نے اس سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے درد کو بھی محسوس کیا۔ ڈاکٹر راما چندرن نے ان نیورونز کو مرر نیورونزکا نام دیا اور ان کو مشرق کے اس تصور، کہ تمام انسان آپس میں باہم منسلک ہیں، کی بائیولاجیکل بنیاد قرار دیا۔ سائنس کی دنیا کے اس آج کے سچ کی افادیت ہمیں علم کے جملہ مسائل کے حل میں معاونت دے سکتی ہے اور علم کی اوٹ میں چھپے انسان دشمن رویوں سے نجات بھی۔
شیکسپئیر کے کردار ہیملیٹ نے اپنے فلسفیانہ مزاج کے دوست ہوریشیو کو کہا تھا:
“There are more things in heaven and earth, Horatio,
Than are dreamt of in your philosophy.”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments