ایک این آر او محروم طبقات کے لئے بھی!


سردی کے ساتھ یکطرفہ رومان میں مبتلا ہم اہل لاہور اس بار سردی کی جانب سے اظہار محبت کا لطف اٹھا رہے ہیں ۔سردی کسی کے گھٹنوں سے لپٹ رہی ہے تو کسی کے ماتھے پہ بوسے دے رہی ہے اور ہم ہیں کہ اس کی بے باکیوں سے شرما کر سکڑے جا رہے ہیں۔ لحاف میں دبکے بیٹھے ہیں یا ہیٹر کی قربت میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ لوہے کی بنی ہر چیز گویا برف کی بن چکی ہے۔ انسان بولتے ہیں تو یہی لگتا ہے برف بول رہی ہے۔ اس کیفیت پر پورا کالم لکھنا تھا مگر ہڈیوں میں اترتی سردی کا نشہ نیب ترمیمی آرڈی ننس نے اتارڈالا۔

معلوم تھا کہ حکمران اشرافیہ کسی ایسی تبدیلی کو نشوو نما کا موقع نہیں دے گی جو اس کے اپنے اختیار و اقتدار کے لئے خطرہ ہو۔ چونکہ عوامی مینڈیٹ کی اپنی لولی لنگڑی حیثیت ہے اس لئے عمران خان کو اقتدار دیدیا گیا مگر اسے وہ اختیار نہیں دیا جا رہا جو طاقتور خاندانوں اور گروہوں کو غیر موثر بنا سکے۔ اب یہ بات شاید غیر محل ہو چکی ہے کہ پاکستان میں کاروبار اور انتظامی مشینری تباہ کیسے ہوئے۔ اب تو ملک بچانے کا چیلنج سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ اللہ نہ کرے کسی کو ایسا مرض لاحق ہو کہ ڈاکٹر جسم کا متاثرہ حصہ کاٹنے کی سفارش کریں۔ جن لوگوں کو اس صورت حال کا سامناکرنا پڑا وہ جانتے ہیں کہ باقی جسم کو بچانے کے لئے مریض کا ہاتھ‘ انگلی ‘ پائوں یا بعض اوقات ٹانگ کاٹ دی جاتی ہے۔

سمجھ لیں پاکستان کے سابق تمام حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کاخمیازہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ریاستی مشینری تاجروں سے ٹیکس لینے اور انہیں دیانت داری سے کاروبار کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی۔ ریاستی مشینری بیورو کریٹس کو سیاستدانوں کی غلامی سے روک نہیں سکی۔ وہ مفلوج ہوتی چلی گئی۔اس کے فالج زدہ ہاتھ اس قابل نہیں رہے کہ قصور وار کو پکڑ سکیں‘ بدعنوان کا احتساب کر سکیں۔ مجرم کو سزا دے سکیں۔ اس لئے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد سب کو معافی مل جاتی ہے۔

ریاست کی کمزوری کی ایک شکل سے ہم مدت سے واقف ہیں۔ جب حکومت چند نشستوں کی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہو تو ریاست کا اختیار کمزور ہاتھوں میں جا کر ریاست کی کمزوریاں عیاں کرتا ہے۔ بے نظیر بھٹو اور عمران خان کی حکومتیں اس ذیل میں آتی ہیں۔ امریکہ نے جب افغانستان میں جہاد کے لئے پاکستان پر ضیاء الحق کو مسلط کیا تو ریاست اس وقت بھی کمزور ثابت ہوئی۔ سابق ریسلر اور امریکی نائب وزیر دفاع رچرڈ آرمیٹج نے جب پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ نہ دینے کی صورت میں پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تو ایٹمی پاکستان نے کمزوری دکھائی۔

اس تمام عرصے میں ہمارے راہنما ہمیں بتاتے رہے کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ عمران خان اپنے انتخابی منشور اور برسوں سے اختیار کئے موقف سے پسپا ہو رہے ہیں۔ ان کی کے ارادے کی پختگی شوکت خانم ہسپتال کے قیام اور نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے کی حد تک تسلیم شدہ ہے مگر پاکستان کو لوٹنے والے ان کے دور میں این آر او لینے میں کامیاب ہو گئے۔ نیب کا ترمیمی آرڈی ننس اس امرکی قانونی دستاویز ہے کہ اب تاجر اسی طرح کاروبار کریں گے جیسا نواز شریف دور میں کیا کرتے تھے‘ احتساب کی مشینری کسی تاجر سے تعرض نہیں کر سکے گی۔ نیا پاکستان تو پرانے پاکستان جیسا دھندلا دھندلا سا لگ رہا ہے۔

نیب کے ترمیمی آرڈی ننس سے شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال‘ سعد رفیق‘ یوسف رضا گیلانی‘ پرویز اشرف‘ حمزہ شہباز‘ علیم خان‘ سبطین خان ‘ فواد حسن فواد‘ احد چیمہ‘ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف زرداری‘ پرویز خٹک وغیرہ کو فائدہ پہنچے گا۔ مجال ہے یہ طاقتور غریب قیدیوں کے لئے ایسا پیکج لا سکیں۔ کچھ ادارے اور افراد ہیں جو بظاہر حکومت نہیں ہوتے مگر اصل حکومت وہی ہوتے ہیں۔ عثمان بزدار ہوں یا جہانگیر ترین یا عمران خان‘ ان سب کے پاس وہ اختیار نہیں جسے حکومت کہتے ہیں۔ دنیاکے جن مہذب ملکوں کی مثالیں عمران کنٹینر پر دیا کرتے تھے وہاں ایک نظام ہوتا ہے‘ ایسا نظام جو طے کرتا ہے کہ کس سطح کا کام کس کی ذمہ داری ہے۔ جو اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اس کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے۔

ہمارے ہاں عجیب حالت ہے قانون حرکت کرتا رہتا ہے مگر اس کے لمبے ہاتھ جیکٹ کی جیب میں گم رہتے ہیں۔پولیس افسر چوروں کا دوست اور شریف شہریوں کا دشمن ہے‘ سیاستدان کسی سے مخلص نہیں۔ حکومت کو معلوم نہیںاختیار کی جو چھوٹی سی پڑیا ملی اسے کس طرح استعمال میں لایا جائے۔ ایک ماحول بن رہا ہے شاید ہم داخلی سطح پر دو طرح کے تصادموں کے قریب ہیں۔ انتہا پسندی اور طبقاتی کشمکش۔ آئے روز ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو ہمیں خاموشی توڑنے کا کہتے ہیں اور آئے روز ایسے فیصلے ہو رہے ہیں جو ہمیں سیاسی سطح پر لاتعلقی ختم کرنے کا کہتے ہیں۔

بالائی طبقات عمران خان سے ایسے فیصلے کروا لیتے ہیں جو ان کی خواہش ہو۔ مظلوم اور پسماندہ طبقات پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھتے ہیں نہ حکومت میں شریک نہ عمران خان کے اردگرد ان کا کوئی نمائندہ۔ مسلم لیگ ن کے دور میں بھی ایسا تھا۔ پیپلز پارٹی بھی ایسی بن چکی۔ جماعتیں تو یہی ہیں۔ ان میں سے کسی کو طبقاتی امتیاز کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا۔کیا محروم طبقات صرف اس لئے رہ گئے ہیں کہ وہ ارب پتی مجرموں کے جلسوں میں نعرے لگائیں۔ کیا عوام کی اوقات صرف یہ ہے کہ حالات خراب کرنے کے لئے ان سے دو چار لاشوں کی قربانی لے لی جائے۔ ان کے حصے کا پاکستان انہیں کیوں نہیں مل رہا؟ چند خاندان انہیں ایک کیوں نہیں ہونے دے رہے؟

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments