جنرل سلیمانی کا قتل مشرق وسطیٰ  کے  امن کو تباہ کرسکتا ہے


جمعہ کی صبح بغداد کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ  کے قریب ایک امریکی میزائل حملے میں ایرانی قدس فورسز کے سربراہ جنرل  قاسم سلیمانی   کی  ہلاکت کے بعد  مشرق وسطیٰ کی صورت حال سنسنی خیز حد تک سنگین اور دشوار ہوچکی ہے۔ آیت اللہ  خامنہ ای کی قیادت میں ایرانی لیڈروں نے یکے بعد دیگرے جنرل سلیمانی کی موت کا  بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر نے  امریکی زندگیوں کی حفاظت کے لئے  قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں بہت سال پہلے مار دیا جانا چاہئے تھا۔

جنرل سلیمانی کی  موت کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات میں  پیدا ہونے والی دراڑ مزید گہری ہوگئی ہے۔ خاص طور سے  ایک ایرانی  فوجی لیڈر پر یہ حملہ اس لحاظ سے ناقابل فہم  ہے کہ اس سے ایران اور مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسی مزید غیر واضح ہوچکی ہے۔ یہ  سمجھنا مشکل ہے کہ امریکہ  ایک مقبول اور اہم ایرانی جنرل کو  ہلاک کرکے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاکہنا ہے کہ انہوں نے اس کارروائی کا حکم جنگ کے امکانات کم کرنے کے لئے دیا تھا،  یہ جنگ کا آغاز نہیں ہے۔ تاہم دنیا کے بیشتر لیڈراور امریکہ میں  صدر ٹرمپ کے سیاسی مخالفین   کا خیال ہے  کہ یہ انتہائی سنگین اقدام ہے جو کسی بھی طرح ایک جنگی کارروائی سے کم نہیں ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ  میزائل حملہ میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت  کے بعد  جو حالات پیدا ہوئے ہیں، ان میں بس جنگ کا اعلان کرنا ہی باقی ہے۔

اس پس  منظر میں   امریکہ کاعراق سے اپنے شہریوں کو نکلنے کا حکم دینا اور  وہاں  مزید تین ہزار امریکی فوجی روانہ کرنے کا فیصلہ بھی صورت حال کی سنگینی  کی خبر دینے کے لئے کافی ہے۔ عراق کے علاوہ دیگر عرب ملکوں میں ایرانی اثر و رسوخ  کے بارے میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ جنرل سلیمانی کا خاص طور سے یہ اعزاز رہا ہے کہ انہوں نے 1998 میں قدس الیٹ فورس کی کمان سنبھالنے کے بعد اسے  نہ صرف ایران میں طاقت ور اور بااثر بنایا بلکہ مشرق وسطیٰ میں  متعدد شیعہ ملیشیا گروہوں کو مؤثر اور طاقت ور کیا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سابق صدر باراک اوباما کی طرف سے ایران کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کو ختم کیا ۔ اس حوالہ سے 2015 کے  جوہری معاہدہ کو ختم کرنے کا فیصلہ  اہم واقعہ ثابت ہؤا جس کے بعد امریکہ نے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور اسے مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ۔

صدر ٹرمپ نے  اپنے یورپی حلیف ملکوں کی مخالفت کے باوجود  ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کیا تھا۔ انہوں نے یہ فیصلہ دراصل اپنے  اس نعرے کو سچ ثابت کرنے  کے لئے  کیا تھا کہ سابق صدر باراک اوباما نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرکے سنگین سیاسی غلطی کی تھی۔  صدر ٹرمپ کے تین سالہ دور میں  مشرق وسطیٰ میں  امریکی پالیسی غیر واضح رہی ہے۔  انہوں نے سعودی عرب  کے ساتھ  سرد ہوتے امریکی تعلقات میں گرم جوشی پیدا کی ہے اور ایران کے خلاف بیان بازی اور دھمکیوں کا طرز عمل اختیار کیا۔ تاہم ٹرمپ حکومت یہ واضح کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی کہ اس حکمت عملی سے  وہ کیا اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے۔  محض  سعودی عرب  یااسرائیل کو خوش کرنا اس پالیسی شفٹ کی بنیاد نہیں ہوسکتا ۔ شاید صدر ٹرمپ کو بھی  ایران کے بارے میں اپنی خام اور عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی کا علم تھا ۔ اسی لئے وہ ایران کو دباؤ میں لاکر کسی طرح  جوہری معاہدہ کے  متوازی ایک ایسا معاہدہ کرنے کی خواہش   رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ امریکی عوام اور نیٹو لیڈروں کو بتا سکیں کہ انہوں نے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔

اس امریکی پالیسی کی بنیاد دراصل شام و عراق کے علاوہ، لبنان، فلسطینی علاقوں اور یمن میں ایرانی اثر و نفوذ بھی ہے۔ امریکہ کسی بھی قیمت پر  متعدد عرب ممالک میں ایرانی  اثر و رسوخ کو  محدود کرنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن اس کے پاس اس کا کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ جوہری معاہدہ ختم کرکے ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھایا گیا جس کے نتیجہ میں ایرانی عوام کی  مشکلات میں اضافہ ہؤا اور مہنگائی، بے روزگاری اور  ضرورت  کی  بنیادی اشیا کی نایابی کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ ان مظاہروں میں  کئی سو لوگ مارے گئے ہیں تاہم امریکہ ایرانی حکومت کو مذاکرات پر مجبور نہیں کرسکا۔ ایران نے  مسلسل یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لئے تیارہے لیکن جوہری معاہدہ کو یک طرفہ طور سے ختم کرتے ہوئے  جواقتصادی پابندیاں لگائی گئی ہیں ، پہلے انہیں واپس لیا جائے۔   اس سفارتی تصادم  کے  نتیجہ میں عراق میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو چیلنج کرنا شروع کیا۔

عراق میں  شیعہ آبادی کی طرف سے  مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف  مظاہروں  میں بیرونی ہاتھ   کا اشارہ سامنے آتا رہا ہے۔ ایران  کو شبہ  ہے کہ ان مظاہروں کو سعودی انٹیلی جنس کی حمایت حاصل تھی    جو امریکی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔  امریکہ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران  عراق میں ایران نواز ملیشیا  کے ٹھکانوں پر حملوں میں 30 کے لگ بھگ  جنگجوؤں کو  ہلاک کیا تھا۔ امریکی حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ حملہ  کرکک   میں ایک امریکی  دفاعی کنٹریکٹر کو ہلاک کرنے کی کارروائی کے بعد کیا گیا تھا۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ  امریکی شہری پر حملے میں ایران نواز گروہ ملوث تھے۔ ان حملوں کے خلاف  احتجاج کرتے ہوئے عراقی مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے کا گھیراؤ کرلیا تھا ۔ امریکہ اس کی ذمہ داری بھی ایران پر عائد کرتے ہوئے ایران کو سنگین نتائج کی دھمکی دے چکاتھا۔  جمعہ کو  جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرکےامریکہ نے اپنی اسی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا ہے۔

مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے پاس اس بات کا جواب نہیں  ہے کہ ایران اس امریکی حملے کا جواب دینے کے لئے کیا کرے گا۔ لیکن سب اس بات پر متفق ہیں کہ  ایرانی ریاست کے اہم  فوجی لیڈر کی ہلاکت کے بعد  اس کا انتقام لینا ایرانی خود مختاری کے لئے اہم اور ضروری ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ میں اپنے متعدد حامی ملیشیا گروہوں  کے ذریعے   امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے تاہم   اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہے کہ  کسی ایرانی کارروائی کے جواب میں امریکہ کس رد عمل کا  اظہار کرے گا۔ اگرچہ امریکہ اور ایران براہ راست جنگ سے گریز کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور اس کا اعلان بھی کرتے رہتے ہیں لیکن بگڑتے حالات میں کوئی بھی  اچانک  اور غلط فیصلہ کسی بھی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے تنازعہ کے بارے میں اقوام متحدہ کے  جنرل سیکرٹری اور متعدد عالمی لیڈر  کہہ چکے ہیں کہ دنیا ایک نئی خلیجی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایران کے ساتھ   جنگ  امریکہ سمیت دنیا کی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

ایرانی لیڈر براہ راست عسکری تصادم سے بچتے ہوئے ،  امریکہ سےا نتقام لینے  کے لئے عراق میں امریکہ پر دباؤ میں اضافہ کرسکتے ہیں۔  بغداد  حکومت جنرل سلیمانی کی  عراقی سرزمین پر ہلاکت کو عراق کی خود مختاری پر حملہ اورامریکہ کے ساتھ  اس معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے، جس کے تحت امریکی فوج عراق میں موجود ہے ۔ اتوار کو عراقی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت   پر غور کیا جائے گا۔ ایرانی قیادت عراقی حکومت پر دباؤ میں اضافہ کرکے امریکہ عراق معاہدہ ختم کروا سکتی ہے۔ اس صورت میں امریکہ کو عراق سے اپنے فوجی دستے واپس بلانا پڑیں گے اور  وہ مشرق وسطیٰ میں ایک اہم مرکز سے محروم ہوجائے گا۔  اس کے  نتیجے  میں  عراق میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ بھی ہوگا  جو   مشرق وسطیٰ میں امریکہ  اور اس کے حلیف ملکوں کے لئے  شدید سفارتی اور اسٹریجک دھچکہ ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایران صرف سفارتی اور سیاسی  طریقے سے امریکہ کو  نیچا دکھانے کی  کوشش  کو ہی کافی سمجھےگا۔ بالواسطہ ایک دوسرے پر وار کرنے کی حکمت عملی مشرق وسطیٰ میں بحران  اور تصادم کو سنگین کرے گی۔

یہ بے یقینی خطے کے سب ملکوں کے لئے  خطرناک اور نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومیو نے   دیگر عالمی لیڈروں کے علاوہ پاکستان کے آرمی چیف اور  افغانستان کے  صدر کے ساتھ اس معاملہ پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا  ہے کہ  جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ کو تحمل سے کام لینے   کا مشورہ دیا ہے۔ تاہم اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ تنازعہ بڑھنے کی صورت میں امریکہ پاکستانی فوج کے مشورہ کو قابل اعتنا سمجھے گا ۔ بلکہ  ایک بار پھرپاکستان کو ویسی ہی صورت حال میں دھکیلا جاسکتا ہے جو ستمبر 2001 میں  نیویارک کے ٹون ٹاورز پر حملہ کے بعد پیدا  ہو گئی تھی۔ ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی امریکی کشیدگی پاکستان کی سلامتی کے علاوہ معیشت اور سفارت کاری کے لئے نئے چیلنجز کا  باعث بنے گی۔

امریکی صدر کا کہنا ہے انہوں نے جنگ شروع نہیں کہ بلکہ اس کا تدارک کیا ہے۔ دنیا اس امریکی مؤقف کے تضاد کو دیکھ رہی ہے۔ مرحوم  جنرل قاسم سلیمانی نے  گزشتہ برس امریکی حملے کی دھمکیوں کے بعد کہا تھا کہ ’ امریکہ جنگ شروع کرسکتا ہے لیکن اسے ختم ہم کریں گے‘۔ جنرل سلیمانی کی موت نے  ایسے  حالات پیدا کردیے ہیں  جن میں ایران کا اگلا قدم ہی مشرق وسطیٰ کے  بارے میں فیصلہ کن ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments