کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شبِ فرقت والوں سے
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں
پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، ہے بھی تو فقط رسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے، ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے، ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں
تاروں کی بہاروں میں بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارہ کرتے ہیں
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارہ کرتے ہیں
استاد قمر جلالوی
Latest posts by منتخب شاعری (see all)
- ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے… عبیداللہ علیم - 29/10/2016
- لکھا ہے یہ خط میں کہ ہم آ رہے ہیں: اختر شیرانی - 27/10/2016
- جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا: احمد فراز - 24/10/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).