ایک تھپڑ صحافی  کے  منہ پر، دوسرا عوام کی پشت پر


وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری نے  ٹی وی اینکر مبشر لقمان  کو  تھپڑ رسید کیا ہے ۔ اس کے بعد اب ملکی مباحث  کی توجہ اس ’ دلچسپ سانحہ ‘ کی طرف  مبذول ہوجائے گی۔ اس دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ آئندہ چند روز میں  اس ٹائم فریم کے مطابق آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور کرلیں گی جو خبروں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے رہبر اعلیٰ نوازشریف نے شدید علالت کے باوجود لندن سے ایک خصوصی خط میں   اپنے پارٹی لیڈروں کو فراہم کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن)  کے لئے شاید   فیس سیونگ  کا اس سے بہتر اور کوئی راستہ موجود نہیں  ہے۔ کہ  آرمی ایکٹ میں اپنی اعلان شدہ پالیسی سے 180  ڈگری کا موڑ لینے کے بعد اب یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جائے کہ مسلم لیگ (ن) بہترین قومی مفاد میں  ان ترامیم کی  تائید کررہی ہے لیکن اس نے  حکمران تحریک انصاف کے سامنے ہتھیار نہیں پھینکے ہیں۔ بلکہ  حکومت نے جس عجلت میں قائمہ کمیٹیوں سے بل منظور کرواکے اسے ایک دن کے اندر ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور رکروانے کا جو منصوبہ بنایا تھا ، مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد کی ہدایات کے مطابق اسے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اب   حکومت کو قواعد و ضوابط کے عین مطابق اس  بل  پر قانون سازی   کے لئے مجبور کیا  گیاہے۔  یہی مؤقف پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اختیار کرچکے ہیں۔ تاہم  اس بل کی تائید کرنے پر جو  لوگ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاسی قلابازی پر حیران ہیں  اور انگشت نمائی کررہے ہیں ،  انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان دونوں بڑی جماعتوں نے تحریک انصاف سے ہار مان لی ہے۔   کیوں کہ اسی جماعت  کو اقتدار سے بے دخل کرکے یہ دونوں جماعتیں   حکومت سازی یا  مدٹرم الیکشن کی صورت میں  نئے ’انتظامات‘ کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔

آرمی ایکٹ کے حوالے سے ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں  کے فیصلہ پر صرف یہ اعتراض اٹھایا جارہا ہے کہ جس جمہوریت اور سیاسی عمل میں نامزدگیوں  کا نام لے کر عوام کو موجودہ انتظام سے ’بغاوت‘ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، ان کا موجودہ فیصلہ اسی اصول کو سب سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔  کیوں کہ آرمی ایکٹ میں ترامیم کا مقصد کسی قسم کی ضروری قانونی اصلاح نہیں  ہے بلکہ اس سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کے عہدے میں وہ توسیع دینا ہے جس کا اعلان عمران خان نے ان کی ریٹائرمنٹ سے چار ماہ پہلے ہی گزشتہ اگست میں  کردیا تھا۔  یہ تو  نومبر کے آخر میں  دائر ہونے والی درخواست اور اس پر سپریم کورٹ کی مستعدی کی وجہ سے  اپوزیشن جماعتوں کی جمہوریت پسندی کا پول کھلا ہے۔

  یہ ایک ایسا موقع تھا کہ اپوزیشن چاہتی  یا  اس کا حوصلہ کرتی تو  حکومت سے  ان ترامیم میں بعض ایسے اصول منوانے کی کوشش کرسکتی  تھی جو ہمیشہ کے لئے کسی آرمی چیف کی تقرری اور اس  عہدے میں توسیع کے سوال پر تنازعہ کو  ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ کہا جاسکتا تھا کہ  ملک کی مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کے معاملہ پر سینارٹی کا  اصول اسی طرح لاگو ہوگا جس طرح  سپریم کورٹ میں سینئر ترین جج  سابقہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت  پوری ہونے کے بعد  از خود چیف جسٹس بن جاتا ہے۔  اصولی طور پر  کسی بھی آرمی چیف کو توسیع دینے  کا  اصول کسی بھی قانون کا حصہ  نہیں بننا چاہئے۔  مسلم لیگ (ن) اس اصول پر کاربند رہی ہے ۔ تو اب ایسی کیا مشکل  آن پڑی تھی کہ  اپنے ہی اس اصول سے    راہ فرار اختیار کی گئی ہے۔

نئے آرمی ایکٹ کے تحت پاک فوج، ائیر فورس، بحریہ کے علاوہ چئیرمین جوائینٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی  پر فائز ہونے والے افسروں  کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 کی بجائے 64 سال مقرر کی گئی ہے۔ مسلح افواج کی سربراہی  کرنے والے اعلیٰ افسروں  کو امتیازی سہولت دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہوگا کہ جو جنرل یا دیگر فورسز کے افسر اپنی فورس کے کمانڈر نہیں بن سکیں گے ، انہیں  60 سال کی  عمر میں  ہی ریٹائر ہونا پڑے گا۔  اس فیصلہ سے فورسز کے سینئر کیڈر میں بے چینی پیدا ہونا فطری ہوگا۔ ایک ہی فورس سے وابستہ رہنے والے ہم عصر افسروں کے ساتھ یہ قانونی امتیاز ان فورسز کی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوگا۔

اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ جب کوئی آرمی چیف توسیع ملنے پر 64 برس کی عمر تک اس عہدے پر فائز رہے گا تو اس دوران ریٹائر ہونے پر مجبور افسروں کی صلاحیتوں سے قوم و ملک کو محروم ہونا پڑے گا۔ جو فوجی افسر ساری زندگی اس جوش و جذبہ کے تحت خدمت سرانجام دیتے ہیں  کہ اچھی  کارکردگی دکھانے پر  انہیں آرمی چیف تک ترقی مل سکے گی ، ان کی بڑی تعداد اب  صرف اس لئے اس اعزاز سے محروم رہا کرے گی کیوں کہ پارلیمنٹ ایک ایسا قانون بنانے والی ہے جس میں  فورس کا سربراہ ہی 64  سال کی عمر تک خدمات سرانجام دے سکے گا۔

ملک میں جیسی کمزور سیاسی حکومتیں گزشتہ  برسوں کے دوران  بر سر اقتدار رہی ہیں یاموجودہ پارلیمانی و سیاسی صورت حال میں جیسے سیاسی لیڈروں کے اقتدار سنبھالنے کا امکان ہوسکتا ہے، اس کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ آرمی چیف بننے والا ہر جنرل اپنے عہدے کی مدت میں توسیع چاہے گا۔  کوئی بھی وزیر اعظم یہ خواہش پوری کرنے  پر ’مجبور‘ ہوگا کیوں کہ پارلیمنٹ اب ایک قانون کے ذریعے اس کا راستہ ہموار کرنے والی ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کو اس غیر معمولی طریقہ کو مسترد کرنا چاہئے۔  اس فیصلہ کا ایک اثر تو سینئر فوجی افسروں  پر مرتب ہوگا لیکن وزیر اعظم   چونکہ ائیرفورس اور نیوی کے سربراہو ں کو ایسی ہی توسیع دینے پر ’مجبور‘ نہیں ہوگا۔ اس لئے مسلح افواج کے ان دو اہم شعبوں میں فوج کے مقابلے میں برتے جانے والے اس  امتیازی سلوک  پر بے چینی پیدا ہونا فطری ہوگا۔ قومی مفاد اور فوج کے ساتھ یک جہتی کے سلوگن کے تحت ، غیر متوازن، امتیازی اور غیر منصفانہ ترامیم کا اہتمام کرنے والے سب سیاست دان مستقبل میں ممکنہ طور پیدا ہونے والے اس تنازعہ کے ذمہ دار ہوں گے۔

 کوئی ملک اپنی ہی فورسز میں  مختلف معیار مقرر کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ شاید اسی لئے آرمی چیف کی توسیع کو قانون کا حصہ بناتے ہوئے ائر فورس ، نیوی اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چئیرمین کے عہدوں کو بھی اس ترمیم کا فائدہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم عملی طور پر  جب صرف آرمی چیف والی ترمیم  پر عمل ہوگا تو یہ مسائل بھی دھیرے دھیرے سر اٹھائیں گے۔  ترامیم میں  یہ نکتہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ کوئی عدالت ان ترامیم پر غور کرنے یا ان میں رد و بدل کرنے کی مجاز نہیں ہوگی۔ بصورت دیگر یہ ممکن  ہوسکتا تھا کہ مستقبل میں کوئی اعلیٰ عدالت اس قانون کی اس کجی کو دور کرنے کا اہتمام کرتی اور سیاست دانوں کی غلطیوں کا تدارک ہو پاتا۔

آرمی ایکٹ میں نئی ترامیم کے حوالے سے ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار  پارلیمنٹ  مسلح افواج  کے سربرہان کی تقرری  پر غور کررہی ہے اور اس بارے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔ یہ دلیل حقائق کے آئینے میں خود کو دھوکہ دینے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔  جس طریقے سے   کابینہ کے ایمرجنسی اجلاس میں ان ترامیم کی منظوری دی گئی اور چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا گیا، اسی سے حکومت کے علاوہ پارلیمنٹ کی خود مختاری کاسارا پول کھل کر سامنے آچکا ہے۔ پھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے  ایک دن کے اندر ہی  ان ترامیم کو ایک نکتہ کی تبدیلی کی تجویز دیے بغیر قبول کرلیا۔  کیا  اسے ہی پارلیمنٹ کی خود مختاری  کہا جائے گا؟

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت  نے تو  سپریم  کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کے علاوہ  حکم امتناع کی درخواست بھی دائر کی ہوئی ہے۔ یعنی اسے یقین نہیں تھا کہ اپوزیشن اس معاملہ پر تعاون کرے گی۔ تاہم جب اس تعاون کا یقین ہوگیا تو ترامیم کو منظور کروانے میں غیر معمولی عجلت کا  مظاہرہ دیکھنے میں  آیا حالانکہ اب بھی حکومت کے پاس یہ قانون منظور کروانے کے لئے  ساڑھے چار ماہ کی مہلت موجود ہے۔ اس عجلت اور افراتفری  سے کام کرنے والی پارلیمنٹ میں کوئی معاملہ زیر بحث آئے یا نہ آئے اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی  اٹھایا جارہا ہے کہ نواز شریف اس سے زیادہ کیاکرسکتے تھے۔ انہوں نے جد و جہد کی ، مزاحمت کی، قید بھگتی  لیکن عوام نے سڑکوں پر نکل کر ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ اس لئے مجبور ہو کر انہیں ہار ماننا پڑی کیوں کہ ملک کی اسٹبلشمنٹ سخت گیر  ہے اور مزاحمت کرنے والے کسی لیڈر کی عزت اور زندگی محفوظ نہیں رہتی۔ اس حوالے سے  ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کی مثال بھی پیش کی جارہی ہے۔ اور سوال اٹھایا جارہا ہے کہ  نواز شریف کی طرف سے اب جان قربان کرنا ہی باقی رہ گیا تھا۔   نواز شریف کے شیدائیوں اور  پیپلز پارٹی کے جیالوں  میں یہ بحث تادیر جاری رہے گی کہ  کیا ان دونوں لیڈروں کا باہم مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن  ملک کی معروضی صورت حال میں سیاسی ہزیمت  کو مجبوری کا نام دے کر فروخت کرنے کی  جو کوشش کی جارہی ہے، وہ نہایت افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔

فوج کو سیاسی طور سے بااختیار بنانے  میں عوام کا کوئی کردار نہیں  ہے البتہ عوام سے ووٹ لینے والے سیاست دانوں نے ضرور یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اب بھی  ملک کے سیاست دان ہی فوج کی خوشنودی کے لئے سرنگوں ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنے کارکنوں سے مشورہ تو درکنار،  عہدیداروں یا پارٹی  کی بااختیار کمیٹیوں سے بھی مشاورت ضروری نہیں سمجھی۔ مسلم لیگ (ن)  جس کے صدر اپوزیشن لیڈر بھی ہیں، نے اس معاملہ پر حکومت کو تعاون کا یقین دلانے سے پہلے باقی اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی پارلیمانی و جمہوری ذمہ داری بھی  پوری  نہیں  کی۔  اس صورت حال میں عوام کی  عدم دلچسپی کو الزام دینا،  جمہوری طریقے اور روایت سے  انکار کرنے کے مترادف ہے۔

نواز شریف عوامی حاکمیت کے اصول کے لئے کھڑے  رہنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب ان کے حامی  اسے عوام کی کوتاہی اور کمزوری قرار دے رہے ہیں۔ یہ رویہ وہی طریقہ ہے جو فواد چوہدری نے  مبشر  لقمان  سے حساب برابر کرنے کے لئے انہیں تھپڑ مار کر اختیار کیا  اور کہا کہ  ’ایسے لوگوں کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا‘۔ اب نواز شریف کے   حامی ویسا ہی تھپڑ عوام کے منہ پر جڑنے کی کوشش کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’ایسے عوام کے لئے کوئی لیڈر کیوں قربانی دے‘۔ یہ عناصر بھول رہے ہیں کہ عوام کو مورد الزام ٹھہرانے والے خود انہی لوگوں کے ووٹ کی پیدا وار ہیں۔    عوام کو  متحرک کرنے کے لئے خود ایثار اور تحریک کی مثال بننا پڑتا ہے۔

مان لیناچاہئے کہ نواز شریف نے   عوامی حاکمیت  کے لئے کوشش ضرور کی لیکن وہ منزل مراد  تک پہنچنے   کا حوصلہ نہیں کرسکے۔ عوام کو الزام دینے سے پہلے اگر  عوام کو پکارا ہوتا۔ پارلیمنٹ میں شکست کی  دستاویز پر دستخط سے پہلے عوام  کے بیچ آکر ان سے مدد مانگی ہوتی تب ہی یہ کہنا مناسب ہوتا کہ عوام  نے ہار مان لی۔ عوام ہار نہیں مانتے۔ وہ تو اب بھی جمہوریت اور پاکستان کی سرفرازی کا علم تھامے ہوئے ہیں۔ ان کے لیڈر خوفزہ  ہو کر بلوں میں دبک گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments