ددّر (بلوچستان) میں قیمتی معدنیات کی لوٹ مار


کیا آپ نے ددّر کا نام سُنا ہے؟ یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے، شاید ہاں شاید نہیں۔۔۔

گزشتہ ہفتے تک میں نے بھی نہیں سُنا تھا جب اچھی ساکھ رکھنے والے قومی روزناموں میں خبر شائع ہوئی کہ ”ددّر میں سیسیہ/جست کی کانوں سے پانچ لاکھ میٹرک ٹن سالانہ کا انتہائی ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔“ تمام خبروں و تجزیوں میں ددّر منصوبے کو، بِنا اُس کی تفصیلات میں جائے، ایسے مثبت انداز میں پیش کیا گیا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ ’ روشنی‘ ایک ہی منبع سے پھوٹی ہے۔

جو بھی ہو، یہ خبر میرے لیے بہت پُرجوش کر دینے والی تھی۔ کیوں نہ ہوتی کہ یہ دونوں بنیادی دھاتیں اتنی بڑی مقدار میں میرے پیارے وطن میں دستیاب ہو ئی تھیں، میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا کہ دیگر استعمالات کے علاوہ پاکستان کی بیٹری بنانے کی وسیع صنعت اب ملکی سیسہ ہی استعمال کرے گی۔ پاکستان میں جِست کی درآمد میں کمی ہوتی اور پاکستانی جِست کی بدولت ہمارا قیمتی زرِ مبادلہ بچتا۔ ایسے تصورات سے ہی میرے ذہن میں اُمید کے دِیے روشن ہو گئے۔

بڑے جوش و خروش سے میں نے ددّر سیسہ/جِست منصوبے کے بارے میں ہونے والی تحقیق کو تفصیل سے پڑھنا شروع کر دیا۔

ویسے بر سبیل تذکرہ آپ کو آگاہ کرتا چلوں کہ ددّر، لسبیلہ بلوچستان میں ہے۔

درحقیت، ددّر سیسہ / جست اور (وہ دھاتی آمیزہ جو کان سے نکلتا ہے، اور اسے بعد ازاں صاف کر کے مختلف دھاتیں خالص شکل میں حاصل کی جاتی ہیں۔) لینڈز کی جانب توجہ 2005سے چین میں ژو ژو سے مرکوز ہوئی۔

ددّر فیلڈ مکمل طور پربیس سالہ لیز (2003-2023) پر دو چینی کمپنیوں، میٹالرجی کارپوریشن آف چائنہ (ایم سی سی 51%) اور ہُنان نان فیرس میٹل ہولڈنگ (49%)، کے پاس ہے۔ لیزشدہ رقبہ پندرہ سو ایکڑ ہے۔

تین ارب ڈالر سے زائد کا یہ اثاثہ مکمل طور پر مارچ2004میں ڈائریکٹرجنرل مائنز اینڈ منرلز بلوچستان نے فیڈرل پیٹرولیم ڈویژن ، اسلام آباد کی مشاورت کے ساتھ چین کو سونپ دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیالوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے 1977-1997کے دوران یہاں موجود معدنی ذخائر کے امکانات کی تفصیلی کھوج کی۔ لیکن اس کے باوجود دس ملین ٹن دھاتوں کا یہ ثابت شدہ ذخیرہ، جس میں نصف ملین ٹن سیسہ اور تقریباً ڈیڑھ ملین ٹن جست شامل تھی، جس کی مالیت کم از کم تین سو اسی ملین ڈالر تھی، ایم سی سی کے حوالے کر دیا گیا۔ اور اس کے عوض حاصل کیا ہوا تہتر ملین امریکی ڈالر کی مُمکنہ سرمایہ کاری کا وعدہ۔

رائلٹی اور ٹیکسوں کی مد میں  2003 سے اب تک پاکستان کو ددّر منصوبے سے کُل تیرہ سو سڑسٹھ ملین روپے (نو ملین امریکی ڈالر) حاصل ہوئےجو سالانہ نصف ملین ڈالر کے آس پاس بنتے ہیں۔

کان کُنی کے اس معاہدے کی تفصیلات کبھی بھی عام نہیں کی گئیں اور کسی کو بھی اس کی شرائط سے آگاہی نہیں ہے۔سو، ددّر میں موجود اثاثے کی مالیت کے دو فیصد سے بھی کم کی سرمایہ کاری اور آج کے دن تک رائلٹی اور ٹیکسوں کی مد میں صرف صفر اعشاریہ دو فیصد کی حقیر رقم کے عوض چینی یہاں سے ممکنہ حد یعنی پانچ لاکھ ٹن سالانہ دھاتیں نکال رہے ہیں اور ہمارا میڈیا اس پر شادیانے بجا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہونا ممکن ہے۔

ددّر منصوبے کا حساب کتاب جوڑا جائے تو بہت سیدھا سادہ ہے، 2.2%سرمایہ کاری کے عوض یہاں موجود100 % دھاتیں چینی لے اڑے۔

یہاں سے نکلنے والی تین سو کلو چاندی تو یوں سمجھیے اس ڈیل کے کیک کی صرف اوپری سطح ہے۔ ددّر سے سے نکالے جانے والے دھاتی آمیزے کے ہر ٹن میں سے بیس گرام چاندی نکلتی ہے اور اس میں سے تقریباً نصف کو اس آمیزے سے حاصل کرنا ممکن ہے۔

ددّر سے نکلنے والے دھاتی آمیزے میں سے اوسطاً 9.3%جست، 3%سیسہ ہر ٹن میں سے نکلتا ہے جبکہ چاندی اور لوہا اس کے علاوہ ہیں۔

ایم سی سی کے اپنے اندازوں کے مطابق دھاتی آمیزے کی کان کنی کے ہر میٹرک ٹن پر ستاون امریکی ڈالر خرچ آتا ہے جب کہ اس کی پراسیسنگ اور اسے پگھلا کر الگ کرنے کے عمل پر مزید دو سو پچاس امریکی ڈالر فی میٹرک ٹن خرچ ہوتے ہیں جب کہ خالص جست اور سیسے کی اوسط قیمت تقریباً دوہزار امریکی ڈالر فی میٹرک ٹن کے آس پاس ہے۔ اتنا بڑا آپریشنل نفع صرف اُسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب آپ کو کان اور اس سے حاصل ہونے والا دھاتی آمیزہ، دونوں چیزیں مُفت میں حاصل ہوں۔

ایم سی سی اب ثابت شُدہ  9.8 ملین ٹن ذخائر میں سے ہر برس پانچ لاکھ میٹرک ٹن دھاتی آمیزہ نکالے گی اور ددّر کان اگلے پندرہ سے بیس سال تک ان کے پاس ہی رہے گی۔

ایم سی سی دھاتی آمیزہ نکالتی ہے اسے پیسنے اور فلوٹیشن کے عمل سے گزارا جاتا ہے حتیٰ کہ اس آمیزے کا اسّی فیصد حصہ کھرچ کر جست اور سیسے کی مرتکز شکل تک پہنچا جاتا ہے۔ یہ نکالے جانے والے دھاتی آمیزے کے رن آف مائن (آر او ایم) پانچ لاکھ میٹرک ٹن میں سے ایک لاکھ میٹرک ٹن مرتکز ذخیرہ بنتا ہے۔

اس کے بعد یہ مرتکز دھات ژو ژو سمیلٹر،چین لے جائی جاتی ہے جہاں اس سے خالص جست، سیسہ اورچاندی کے دھاتی ڈھلے حاصل کیے جاتے ہیں۔ یقینا ایم سی سی، ددّر پاکستان سے، یہ مرتکز دھات ہنان، چین تک، جہاں سمیلٹر لگے ہیں، پہنچانے کا کرایہ ادا کرتی ہے۔ جب عالمی منڈی میں ہم خالص جست اور سیسے کی قیمت کو دیکھیں تو مرتکز دھاتوں کو چین پہنچانے کا یہ کرایہ قطعی زیادہ محسوس نہیں ہوتا۔

اوپر بیان کردہ حقائق کو دیکھیں تو دھیان پاکستان کے ایک اورمعدنی اثاثے، سینڈک کاپر اینڈ گولڈ مائنز، کی جانب بھی جاتا ہے، چاغی، بلوچستان میں موجود یہ ذخیرہ بھی سرکاری چینی فرم ایم سی سی کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان نے اس قومی اثاثے کو ڈویلپ کرنے کے لیے، نوّے کی دہائی کی شرح تبادلہ کے حساب سے، انتیس بلین روپیے (ایک ارب ڈالر سے زائد) خرچ کیے۔ ایم سی سی سینڈک منصوبے کے لیے مرکزی کنٹریکٹر ہے۔ یہ منصوبہ 1996-2002 تک بند رہا کیونکہ ان برسوں میں مرکز کی سطح پر موجود کنفیوژن کے سبب ہر شے تلپٹ تھی۔

2002میں ایم سی سی نے، جس نے سارا سینڈک منصوبہ بنایا تھا، اس اثاثے کے لیے دس برس کی ایک لیز پر دستخط کیے اور اس کے بعد سے اسے پانچ برس کی توسیع دو بار دی جا چکی ہے۔ موجودہ لیز کی مدت 2022تک ہے۔ 2002ءمیں ایم سی سی نے یہ لیز حاصل کرنے کے لیے سینڈک میٹلز لمیٹڈ کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے اس میں صرف چھبیس ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی شرط تھی کیونکہ بڑا پلانٹ اور سمیلٹر تو پہلے ہی پاکستانی سرمایہ کاری سے مکمل کیے جا چکے تھے۔

2008ء میں سینڈک میں کان کنی کے قابل پچاس ملین ٹن دھاتی آمیزہ موجود تھا جس میں سے ایک لاکھ پچانوے ہزار میٹرک ٹن دھاتی تانبا اور پانچ لاکھ پچاس ہزار اونس سونا شامل تھا جس کی قیمت تقریباً دو ارب امریکی ڈالر کے مساوی بنتی تھی۔

ایم سی سی نے 2017-18میں صرف تین سو اسّی ملین روپیے (تقریباً چار ملین امریکی ڈالر) کا نفع ظاہر کیا جبکہ 2011-12میں انہوں نے پچھتر ملین امریکی ڈالر کا منافع ظاہر کیا تھا۔

ایم سی سی کا دعویٰ ہے کہ دھاتی تانبے سے سونا نکالنے کا کام مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے لیکن ان کے اس دعوے کی سچائی کا ہمارے پاس کیا ثبوت ہے؟ کیا سینڈک میٹل لمیٹڈ نے چینیوں کے اس دعوے کو پرکھنے کے لیے نمونے کسی یورپی/امریکی سمیلٹروں میں بھیجے ہیں؟

ددّر اور سینڈک منصوبوں سے سالانہ چار سو ملین امریکی ڈالر تک کا ریونیو حاصل ہو سکتا ہے، جس میں سے نصف منافع ہوگا۔

اور یہ سب کچھ تو برفانی تودے کی صرف نوک بن جاتا ہے جب آپ رِکو ڈیک کاپر اینڈ گولڈ اور بلوچستان میں کان کنی کے دیگر منصوبوں کو دیکھیں کہ ان سے اگلے پچاس برس تک سالانہ دو بلین ڈالر تک نفع کے امکانات موجود ہیں۔

عمران باجوہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمران باجوہ

مصنف کو تحقیقی صحافت کے لیے اے پی این ایس کی جانب سے ایوارڈ مل چکا ہے۔

imran-bajwa-awon-ali has 17 posts and counting.See all posts by imran-bajwa-awon-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments