پاکستانی سیاست میں ترک حمام کا موسم


پاکستانی سیاست میں اب شرم و حیا کا زمانہ نہیں ہے، برہنہ پائی کی بجائے دریدہ دہنی اور دراز دستی کا زمانہ ہے۔ اب پگڑیاں اچھالنے کی بجائے دستار اتار کر یارکی چوکھٹ پہ رکھنے کا موسم ہے۔ پھر اس امید پر کبھی آسمان اور کبھی ’ان‘ کی طرف دیکھنے کا وقت ہے جن کے دیکھے سے منہ پہ رونق آجاتی ہے۔

 اب جھوٹ اور منافقت کا غازہ چہرے سے کھرچنے کا وقت آگیا ہے کہ اب اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ وہ بھی جو غرور سے دیکھتے ہوئے دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں اور وہ بھی جو دور بیٹھ کر حق خدمت ادا کرتے ہیں اور شفقت و عنایت کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ پاکستانی سیاست میں ترک حمام کا موسم ہے جس میں سب ہی کپڑے اتار کر داخل ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کو ننگا نہیں کہتا کہ کوئی ستر پوش نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اب اس کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ جو چند آوازیں رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لئے بلند کی گئی تھیں ، ان کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔ انہیں دیوانے سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے یا باغی سمجھ کر قومی مفاد کا مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ شطرنج کے سارے مہرے ایک ہی رنگ میں رنگے گئے۔ نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز۔

پاکستانی پارلیمنٹ میں آرمی ایکٹ کیا منظور ہؤا گویا قومی سیاست کا موسم ہی بدل گیا۔ وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے اپوزیشن لیڈر سے اقتدار کی مسند سنبھالنے تک ’لٹیروں اور چوروں ‘ کو للکار کر اپنی سیاست چمکائی تھی، اب قوم کو یہ بتانے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ سکون و اطمینان کا کوئی فوری راستہ موجود نہیں ہے بلکہ شاید یہ اس ملک کے شہریوں کے نصیب میں ہے بھی نہیں۔ اسی لئے عمران خان اب جد و جہد کے نام پر یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سکون تو ’قبر ‘ میں جا کر ہی ملتا ہے۔ گویا اگر کوئی پاکستانی اطمینان اور خوشحالی کی تمنا کرتا ہے تو وہ حکومت اور اپنے لیڈروں سے کوئی امید نہ رکھے بلکہ خدا کی طرف دیکھے کہ جتنی جلد اس کا بلاوا آجائے گا اتنی جلدی ہی اسے سکون نصیب ہوسکے گا۔ ابدی سکون حاصل کرنے کا شاید اس سے زیادہ ’تیر بہدف ‘ نسخہ کسی لیڈر نے اپنی قوم کو نہیں بتایا ہوگا۔ خبر کے مطابق ایک باپ نے غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی کرلی کیوں کہ وہ کسمپرسی کے باعث خود اپنے بچوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔ نئے پاکستان کے منہ زور لیڈر اب یہی نسخہ پوری قوم کے لئے تجویز کررہے ہیں۔ حیرت ہے یہ لیڈر رات کو اطمینان سے کیسے سوتے ہوں گے۔

قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں جس پھرتی اور اکثریت سے آرمی ایکٹ اور متفرقہ (ائیر و نیول چیف کے علاوہ چئیرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے میں توسیع کے قوانین کو جمعہ جنج نال کے مصداق سمجھنا چاہئے کیوں کہ اصل رونق تو دولہا کے دم قدم سے ہوتی ہے) قوانین منظور کئے گئے ہیں، اس کے بعد ملک میں ایسی قومی یک جہتی پیدا ہوچکی ہے کہ کوئی کسی کے عیب پر انگلی اٹھانے کا حوصلہ نہیں کرسکے گا ۔ ہر کسی کو اپنے دامن میں لگے دھبے چھپانے سے ہی فرصت نہیں ملے گی۔ تاہم سیاست دان عیب کو خوبی اور داغ کو تمغہ بناتے بھی دیر نہیں لگاتے۔

محترم سر جی کو عہدے پر برقرار رکھنے کے لئے حکمران اور اپوزیشن کی جو جماعتیں شیر و شکر ہوچکی تھیں، جلد ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتی دکھائی دیں گی۔ قومی مفاد اور اتفاق رائے محض آرمی چیف کی توسیع کے معاملے تک محدود تھا کیوں کہ اس کا حکم بڑی سرکار کی بارگاہ سے آیا تھا ۔ دیگر معاملات جن میں الیکشن کمیشن کے ارکان یا چئیرمین کی تقرری کے علاوہ  اہم معاملات پر قانون سازی اور حکمت عملی شامل ہے، ان کا براہ راست ’قومی مفاد یا قومی سلامتی‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے ان معاملات پر بدستور جوتوں میں دال بانٹنے کا اہتمام کرکے ٹاک شوز میں رونق لگانے اور بھوکوں کو ’تسلی‘ دینے کا اہتمام کیا جاتا رہے گا۔ جو غریب پھر بھی اپنے بچوں سے شرمندہ ہو کر خود کشی پر آمادہ ہو گا ،اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ تقدیر کا لکھا اہم ہوتا ہے۔ انسان تو ساری زندگی تقدیر کے لکھے کو پورا کرنے کے لئے ہی محنت کرتا ہے۔ ظاہر ہے بعض لوگوں کی قسمت یاوری نہیں کرتی۔

اور بعض قسمت کے اتنے دھنی ہوتے ہیں کہ وہ ہر عہد میں وزیر بھی بنتے ہیں اور وزیر بننے کے بعد صحافیوں اور اینکروں کو تھپڑ مار کر اپنی طاقت اور صحافی کی بے بسی کا موازنہ بھی کرتے رہتے ہیں تاکہ ’آزادی اظہار‘ کا معاملہ حد سے اتنا بھی باہر نہ ہو جائے کہ ملک کے خفیہ ادارے کو کسی پبلشر کے پاس جاکر ترجمہ شدہ ناول کی کاپیاں اٹھانا پڑیں۔ پھر ’غیر ضروری ٹوئٹ‘ اور آزادی کے بے مقصد نعروں سے اس اتحاد و یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جائے جو ہم ہوئے، وہ ہوئے کہ میر ہوئے/ اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے، کی مقناطیسیت کے سبب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان پیدا کی گئی تھی۔

 دیکھیں یہ بھی حسن یار کا کمال ہے کہ کراچی میں پبلشر کو دھمکایا جارہا تھا۔ گیارہ سال پرانے ناول کے ترجمے کو تلف کیا جا رہا تھا، مصنف چلا رہا تھا ’صاحب کتاب کو چھپے تو ایک دہائی بیت چکی ‘ لیکن قومی اسمبلی کے ارکان پوری تندہی سے قومی یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آرمی ایکٹ ترمیم پر کسی بحث کے بغیر ’قبول ہے قبول ہے‘ کا شور مچا کر مبارک سلامت وصول کررہے تھے۔

کس کے منہ میں اتنے دانت ہیں کہ وہ سوال کرسکے کہ یہ کیسا نیا پاکستان ہے کہ ایک وفاقی وزیر بھری محفل میں ایک شخص کو تھپڑ مارتا ہے ، اسے ’صحافت‘ کو پاک کرنے کا مشن قرار دیتا ہے اور ملک کا وزیر اعظم اس پر ایک لفظ کہنے کا روادار نہیں۔ عمران خان شاید اپنے آئندہ ’مطالعہ تاریخ ‘کے بعد مغربی جمہوریتوں کے ان سارے وزیروں کے نام گنوا دیں گے جنہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا لیکن قوم کے وسیع تر مفاد اور متعلقہ وزیر کی بے پناہ صلاحیتوں کے سبب اسے بدستور کام کرنے کا حق حاصل رہا۔ یا پھر قانونی مساوات کی وہ کون سے تشریح ہے جس میں ملک میں قانون بھی موجود ہو، عدالتیں بھی کام کررہی ہوں، کسی کو کوئی گزند بھی نہ پہنچائی گئی ہو لیکن ریاست کے بہترین مفاد کے محافظ کسی اختیار کے بغیر ایک کتاب کے پبلشر کو دھمکا کر قانونی طریقے سے چھپنے والی ایک کتاب کو تلف کرنے کا حوصلہ کریں۔

لیکن یہ ساری باتیں شاید بے مقصد اور غیر ضروری ہوکر رہ گئی ہیں۔ جب سکون کے لئے مرنا ضروری ٹھہرا دیا جائے۔ جب قومی مفاد کے لئے قانون ساز اصولوں کو بھلاکر سر نیچا کئے ’میں بھی حاضر ہوں‘ کہنے پر مجبور ہو جائیں۔ جب جمہوریت عوام کے ووٹ کا حق ادا کرنے کی بجائے، اپنے کسی مفاد کی حفاظت کا نام ہو جائے تو صحافی کے منہ پر طمانچہ مارنے والا وزیر قومی اسمبلی میں سینہ تان کر ہی چلے گا اور کتاب تلف کرنے والے ہاتھوں کی بات کون کرے گا۔ انہی ہاتھوں کے اشارے سمجھ کر تو اس نادر روزگار اتحاد کا سماں باندھا گیا ہے۔ اب اس نظارے سے لطف اٹھانے کا وقت ہے۔ اب آزادیوں کا راگ الاپنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ قومی مفاد کا سورج پوری آب و تاب سے دمک رہا ہے اور اپنے پرائے سارے ہی اس کی روشنی میں نہا رہے ہیں۔ ایک حمام ہے سب ننگے ہیں۔ کوئی کسی کے گریبان میں کیسے جھانکے گا۔

سوال ہے کہ کیا مفاد و ہوس اقتدار کی یہ ’روشنی‘ اس قدر اندھی ہے کہ کوئی بھی نوشتہ دیوار پڑھنے کے قابل نہیں رہا؟ کیا مفاد کے نام پر کانوں میں ڈالا گیا سیسہ سماعت کے ہر امکان کو ختم کرچکا ہے کہ کوچہ و بازار سے تف، شرم، لعن طعن کی آوازیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں۔ کیا عوام کی نمائیندگی کے دعوے دار اور ضمیر کے نام پر تہمت بنی کٹھ پتلیوں کو تھرکانے والے ہاتھ بھول چکے ہیں کہ جب اظہار کے راستے بند کردیے جائیں، جب داد رسی کا ہر امکان ختم ہوجائے تو سیلاب بلا اس منزل کی طرف رخ کرے گا جسے اب تک ’چوتھی کھونٹ‘ قرار دے کر تقدیس و احترام کا لبادہ پہنایا گیا ہے۔ اور جس کے ساتھ خوف و دہشت کی ایسی کہانیاں وابستہ کی گئی ہیں کہ ’ووٹ کی عزت‘ بھی اس کے سامنے تھر تھر کانپنے لگتی ہے۔ کیا یہ اہتمام کر لیا گیا ہے کہ جب عوامی ناراضگی اور بے چینی کا یہ طوفان میڈیا، سیاسی جماعتوں اور عدالتوں سے مایوس ہوجائے گا ۔ جب عمومی تفہیم میں یہ جاں گزیں ہوجائے گا کہ یہ سب تو کٹھ پتلیاں ہیں، عوام کی خواہشات کا خون کرنے والے ہاتھ تو دراصل پس پردہ ہیں۔ اس باریک حجاب کی حفاظت کے لئے قائم کئے گئے حصار گرانے کے بعد جو عدم تحفظ پیدا ہوگا ، اس میں قومی مفاد کا بیانیہ کسے سنایا جائے گا؟

اب ملک کا کوئی باشعور عمران خان، نواز شریف یا آصف زرداری سے ناانصافی کا جواب نہیں مانگے گا۔ اب یہ سوال براہ راست اس طاقت سے کیا جائے گا جسے مستحکم کرنے کے لئے قومی اسمبلی کے 315 ارکان اجتماعی سجدہ کرنے پر مجبور کئے گئے تھے۔ سوچ لیا جائے کہ سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے کا فائدہ اٹھانے کے بعد اس کا نقصان کسے برداشت کرنا پڑے گا۔ عوامی حاکمیت کا سفر مختصر کرنے والے محتاط رہیں کہ اب راستوں کے سب پیچ و خم دور ہوئے اور سیدھا راستہ اس علامت تک جاتا ہے جہاں راج کرے گی خلق خدا کے خوابوں کا قبرستان بنایا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments