مسلم امہ کا سحر اور بھارت کی تباہی کا خواب


وزیر اعظم عمران خان نے ملائشیا کے دورہ کے دوران انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں خطاب کرتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور ہندو توا کی بنیاد پر اختیار کی گئی پالیسیوں کی وجہ سے ہندوستان شدید بحران کا شکار ہوگا اور اس کے ٹکڑے ہوجائیں گے اور یہ ملک ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ابھی مودی حکومت کی فاشسٹ پالسییوں کے اثرات سے آگاہ نہیں ہیں لیکن اگر انتہاپسندی کا جن بوتل سے باہر آگیا تو اس پر قابو پانا مشکل ہو گا۔

عمران خان نے دسمبر میں سعودی عرب کے دباؤ کے بعد اچانک ملائیشیا سمٹ میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی تھی جس میں ترکی کے علاوہ قطر کے امیر اور ایران کے صدر نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ دورہ منسوخ کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سفارتی دوریوں کو ختم کرنے کے لئے عمران خان سوموار کو دو روزہ سرکاری دورہ پر کوالالمپور پہنچے تھے جہاں انہوں نے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے بات چیت کے علاوہ ایک تقریب سے بھی خطاب کیا۔ اس تقریب میں ہی انہوں نے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت میں انتہا پسندانہ پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں ۔ ملک میں آباد اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور ملک میں ایسی فسطائیت سر اٹھانے لگی ہے جو ہندوستان کے خاتمہ کا سبب بنے گی۔

عمران خان نے اس تقریر میں بھارت کی تباہی کے بارے میں متنبہ کرنے کے علاوہ دنیا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ اسلامی لیڈر دنیا کو اپنے عقیدہ اور رسول پاکﷺ سے مسلمانوں کی محبت و انسیت کی شدت کے بارے میں مناسب طریقے سے آگاہ نہیں کرسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ خود کش حملوں کو مسلمانوں کے عقیدہ کا حصہ بتایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی غلط تصویر راسخ کی گئی ہے جس کی وجہ سے اسلاموفوبیا کے نام سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب عام ہؤا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے اسلامی ممالک کو مل جل کر کام کرنے اور دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہتر آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلاموفوبیا کا قلع قمع کیا جاسکے۔

ایک طرف پاکستانی وزیر اعظم کوالالمپور میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی نوید دے رہے تھے جس کا آغاز بقول ان کے پاکستان میں مدینہ ریاست کے اصولوں پر سیاست اور امور حکومت کو استوار کرکے کیا جاچکا ہے۔ اور دوسری طرف امریکہ سے یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بھارتی سفارت کار خاموشی سے اقوام متحدہ اور واشنگٹن میں ایک ایسا مسودہ سفارتی حلقوں کے علاوہ امریکی سیاست دانوں میں متعارف کروارہے ہیں جس کے تحت بھارت ورلڈ بنک کے توسط سے ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے لئے طے پانے والے سندھ طاس معاہدہ سے دست بردار ہونا چاہتا ہے۔ تاکہ وہ ان دریاؤں کے پانی پر بھی قبضہ کرلے جو اس معاہدہ کے تحت پاکستان کے مصرف میں ہیں۔ پاکستان کی زراعت اور ذرائع پیدا وار اسی پانی پر انحصار کرتے ہیں۔

ان اطلاعات کے مطابق اب بھارتی سفارت کار ماحولیاتی تبدیلیوں اور پورے خطے میں دھند اور اسموگ کے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی روک تھام کے لئے مقبوضہ کشمیر میں دریاؤں پر مزید ڈیم بنانے اور پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کو بھارتی مصرف میں لانےکے منصوبہ پر عالمی رائے ہموار کرنے کے مقصد سے کام کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے متعارف کروائی جانے والی دستاویزات کے مطابق بھارت نے گزشتہ برس اگست میں مقبوضہ کشمیر کو وفاقی اکائی قرار دیا ہے ۔ اس طرح اس کی متنازعہ حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ اس لئے بھارت کا دعویٰ ہے کہ اب اسے یہ حق بھی حاصل ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ’علاقے‘ میں بہنے والے دریاؤں کو اپنے استعمال میں لاسکے۔ اس دلیل کو درست ثابت کرنے کے لئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اعداد و شمار اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے۔

 کوالالمپور میں وزیر اعظم کی تقریر اور نیو یارک و واشنگٹن سے موصول ہونے والی اطلاعات دو انتہاؤں کا پتہ دیتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ بھارت عملی سفارت کاری کے ذریعے درپردہ پاکستان کی سفارتی پوزیشن کمزور کرنے کے علاوہ اس کے معاشی اور اسٹریٹیجک مفادات پر حملہ آور ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں فی الوقت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال اور بھارتی حکومت کی ناروا پابندیوں کے خلاف سخت رد عمل موجود ہے۔ امریکی کانگرس کے ارکان بھی ان حالات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد مودی حکومت نے شہریت ترمیمی بل منظور کرکے عالمی رائے عامہ کو بھارتی حکومت کے ارادوں کے بارے میں چوکنا کیا ہے۔

 پورے ہندوستان میں اس امتیازی اور مسلمان دشمن قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کی وجہ سے بھی دنیا کے بیشتر دارالحکومتوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا بھی مقبوضہ کشمیر کے حالات اور شہریت بل کے احتجاج کو فوکس کرکے بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کو زیر بحث لارہا ہے۔ تاہم بھارت کے بارے میں اس منفی رپورٹنگ اور دنیا کی تشویش کو  پاکستان کی کامیابی قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام آباد کو یہ سمجھنے کی غلطی کرنی چاہئے کہ دنیا بھارت کے ساتھ جڑے مفادات کو نظر انداز کرکے محض کشمیریوں کے انسانی حقوق اور شہریت بل پر ہونے والے احتجاج کی وجہ سے پاکستان کی حمایت میں اکٹھی ہوجائے گی۔ عمران خان کے طرز گفتگو اور اسلام آباد سے موصول ہونے والے اشاروں سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان سادہ لوحی سے ایسا ہی آسان فہم نتیجہ اخذ کرنے کی غلطی کررہا ہے۔ یہ نتیجہ میڈیا میں تند و تیز سرخیاں لگوانے اور سیاسی جلسوں میں بیانات دینے کی حد تک تو مفید ہوسکتا ہے لیکن سفارتی طور سے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے مناسب نہیں ہوگا۔ بلکہ پیچیدہ اور تہ دار مسائل کو سادہ سمجھنے اور اسی طرح بیان کرنے کی غلطی کرکے پاکستان دراصل قومی مفادات کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

ملائیشیا کے خطاب میں عمران خان نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تعصبات کی صورت حال اور اسلامی ممالک کو درپیش مسائل و چیلنجز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بھی اسے اتنا ہی سادہ بناکر پیش کیا ہے کہ اہل مغرب کو چونکہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بتایا نہیں گیا ، اسی لئے وہاں اسلاموفوبیا سامنے آیا ہے ۔ اب اگر مسلمان لیڈر دنیا کو بتادیں گے کی دہشت گرد ی اسلام کا حصہ نہیں ہے اور خود کش حملے کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تو عمران خان کا خیال ہے کہ اتنی سادہ سی بات بڑی آسانی سے سمجھا کر سارے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ اس سادگی کو دیکھتے ہوئے عمران خان سے یہ کہنے کو دل کرتا ہے کہ دنیا کو اسلام اور دہشت گردی کے رشتہ کی ’حقیقت‘ سے آگاہ کرنے کے لئے ان کا وزیر اعظم بننا کیوں ضروری تھا؟ انہیں کئی دہائیوں سے بوجوہ دنیا بھر میں سیلبریٹی کا اسٹیٹس حاصل رہا ہے ۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو پاکستان میں حکمرانوں کے خلاف مہم جوئی پر صرف کرنے کی بجائے دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ختم کرنے کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا؟

یہ سمجھنا اور مان لینا انتہائی کم فہمی ہوگی کہ مغربی ممالک جو اس وقت علم و تحقیق کا مرکز ہیں، اسلام کے پیغام ، مسلمانوں کے حالات اور ان کی جذباتی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسلام کے بارے میں اس وقت بھی تحقیق و جستجو کاسب مؤثر اور ٹھوس کام مغربی یونیورسٹیوں میں ہی ہو رہا ہے۔ تاہم جب مسلمان لیڈر عقیدہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرکے اپنے لوگو ں کو گمراہ کریں گے اور جذباتیت کی ایسی کیفیت پیدا کردی جائے گی کہ نوجوان مسلمان دہشت گردی کو عین دینی فریضہ اور غیر مسلموں سے دشمنی کو عین اسلام سمجھنے لگیں گے تو اسے انتہا پسندی کا نام ہی دیا جائے گا اور اس سے تعمیر کی بجائے تخریب ہی کی صورت پیدا ہوگی۔ عمران خان جب مدینہ ریاست کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگوں کو مذہبی ہیجان میں مبتلا کرکے سیاسی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہی طریقہ اور مقصد ہے جو ہندو ازم کے نام پر نریندر مودی اور بی جے پی قیادت بھارت میں اختیار کرتی ہے تو عمران خان ہندوستان کی تباہی کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

عمران خان کی سیاست اگر اسلام اور مسلمانوں کے وسیع تر مفاد کے لئے ہوتی تو انہیں صرف کشمیری مسلمانوں کی تکلیف پر ہی خون کے آنسو نہ بہانے پڑتے بلکہ وہ روہنگیا اور چینی مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف بھی آواز بلند کرتے۔ اگر پاکستان کو مسلم امہ کا ہی خیال ہوتا تو گزشتہ ہفتہ کے دوران صدر ٹرمپ کی طرف سے فلسطینیوں کی غلامی کے منصوبہ کو ’ڈیل آف سنچری‘ کے طور پر پیش کرنے کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ محض ایک معمول کا بیان جاری نہ کرتی بلکہ امریکہ کو بتایا جاتا کہ اس منصوبہ کے تحت کس طرح اسرائیل کی بالادستی کو تسلیم کرنے اور عملی طور سے فلسطینیوں کو اسرائیل کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عمران خان کو بتانا چاہئے کہ ان کی سیاست بھی دیگر ملکوں کی طرح اپنے سیاسی مفاد اور ملکی ضرورتوں کے گرد گھومتی ہے۔ اسی لئے بھارت میں اقلیتوں کی تکلیف میں تباہی دکھائی دیتی ہے لیکن پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف موجود قانونی اور آئینی تعصبات بھی عین انسانیت کے مطابق نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے لیڈروں کو مسلم امہ کے فرسودہ اور ناقابل عمل تصور پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کی بجائے حقیقت پسند بننے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ سب سے پہلے پاکستان میں افہام و تفہیم اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کیا جاسکے۔ جب پاکستان ایک ایسا معاشرہ بن جائے گا جہاں غیر مسلموں سے تعصب و امتیازی سلوک کی بجائے انہیں مساوی حقوق حاصل ہوں گے تو دنیا خود ہی یہ جان جائے گی کہ اسلام دراصل مساوات اور سب کو انسان سمجھنے کا سبق دیتا ہے اور مسلمان دراصل پاکستانی شہریوں جیسے ہوتے ہیں۔

جب تک یہ تبدیلی رونما نہیں ہوتی عمران خان جیسے لیڈر بھارت کی تباہی کا خواب دکھا کر پاکستان کی کامیابی کا جھوٹا خواب بیچتے رہیں گے اور دنیا ان کی باتوں کا تمسخر اڑاتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments