کیا عمران خان کو اپنی حکومت قائم رہنے کا واقعی یقین ہے؟
وزیر اعظم عمران خان جب بھی ملکی معیشت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں، معاشی و مالی معاملات سے متعلق ان کی لاعلمی کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ آج گورنر ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران ان کی باتوں سے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ وہ معاشی نزاکتوں سےآگاہ نہیں ہیں۔ اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے طرزعمل یا تکلم سے ملک کے کونے کونے سے اقتصادی مشکلات، مہنگائی، بیروزگاری اور اجناس کی قلت کے خلاف اٹھنے والی صداؤں کو دھیما کرنے کے لئے بہتری کی صورت پیدا کرسکتے ہیں۔
ملک بھر کے اخباروں نے سرخی جمائی ہے کہ وزیر اعظم نے تسلیم کرلیا ہے کہ مہنگائی میں تازہ اضافہ حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے ہؤا ہے البتہ یہ تسلیم کرنے کے بعد کسی ذمہ دار کا تعین کرنے یا کسی سرکاری افسر یا وزیر کو اس پاداش میں سزا دینے کا اعلان کرنے کی بجائے انہوں نے حسب سابق تحقیقات کروانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس ملک کے عوام زندگی کے مختلف شعبوں میں اتنی تحقیقات بھگت چکے ہیں کہ کسی معاملہ میں نئی تحقیقات کا اعلان ایک لطیفہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ ملکی مالی منڈیاں اور معاشی اشاریے قیادت کی باتوں اور گفتگو سے نتیجہ اخذ کرکے ماحول ترتیب دیتے ہیں۔ اسی لئے عام طور سے وزارت عظمی جیسے ذمہ دارانہ منصب پر فائز لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہ معیشت کے بارے میں کوئی غیر ضروری بیان جاری نہ کریں۔
البتہ پالیسی سازی کا معاملہ ہو یا کوئی بنیادی اصول واضح کرنا ہوں تو ضرور سربراہ حکومت اپنے مالی معاونین کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کے ذریعے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال سکتا ہے ۔ لیکن عمران خان بھاری بھر کم کابینہ کے باوجود مشورہ سننے یا ان پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے کابینہ کو صرف ان امور میں ’رکاوٹ‘ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس میں وزیر اعظم نے دوہرا معیار قائم رکھنا ہو یعنی کہنا کچھ ہو اور کرنا اس سے مختلف ہو۔ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سے صوبے کے انسپکٹر جنرل کو تبدیل کرنے کا وعدہ بھی ایسے ہی معاملات میں شامل تھا۔ کابینہ نے ایک روز بعد ہی اپنے ہی وزیر اعظم کے وعدے کے برعکس ’فیصلہ‘ سنا کر اس معاملہ کو مزید الجھا دیا۔ لیکن عمران خان اپنی جگہ خوش تھے کہ ’سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی‘۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ پاکستانی سیاست میں جہاں پارٹی اور حکومت فرد واحد کے اشارے کی محتاج ہوتی ہے، اس میں کوئی کابینہ کیسے اپنے ہی وزیر اعظم کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ صادر کرسکتی ہے؟
عمران خان ملکی معیشت کا سانپ بھی ایسی ہی لاٹھی سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چیف ایگزیکٹو کے منہ سے نکلے ہوئے غیر ذمہ دارانہ الفاظ سے منڈیاں جو اثر قبول کرتی ہیں اس سے مالی معاملات دگرگوں ہوتے ہیں ، مہنگائی کا اژدر توانا ہوکر قابو سے باہر ہونے لگتا ہے اور اس بے یقینی میں چند مزید کاروبار اور صنعتیں بند ہوجاتی ہیں۔ جب حکومت کا سربراہ مہنگائی کے حوالے سے غلطی کا اعتراف کرکے اس کی اصلاح کا کوئی ایجنڈا سامنے نہیں لاتا۔ اور اپنی حکومت اور سیاسی تحریک کا پورا مقدمہ بدعنوانی پر استوار کرکے اپنے ایسے لاڈلوں کی صفائی پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے جن پر اپوزیشن متفقہ طور سے ملک میں اجناس کی قلت و مہنگائی کا الزام عائد کرتی ہے تو اس سے شاید سیاسی مقدمہ جیتنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے لیکن اس سے معاشی اعتبار کا ماحول پیدا نہیں ہو سکتا۔
پاکستانی معیشت کو اس وقت اعتبار اور استحکام ہی کی ضرورت ہے۔ عمران خا ن دانستہ یا نادانستگی میں بے یقینی اور اضطرار پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت کے مسائل بیان کرنے کے لئے عمران خان جیسے کسی جوشیلے لیڈر کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کی کثیر آبادی اور محدود پیداواری وسائل کے باعث معیشت کی ابجد سے واقف شخص بھی یہ جانتا ہے کہ اگر اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوں تو ملک ہو یا گھر اسے معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے میں فرد ہو یا حکومت اسے بچت اور آمدنی میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیداوار صرف ہم آہنگی اور بھائی چارے کے ماحول میں ہی بڑھائی جاسکتی ہے۔ یہ بنیادی اور سادہ سا اصول عمران خان سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی ان کے مشیروں کی فوج میں سے کسی میں یہ حوصلہ ہے کہ وہ خان صاحب کو یہی مشورہ دے دے کہ آپ جس کام کے بارے میں جانتے نہیں ہیں ، اس کے بارے میں فن تقریر کا مظاہرہ کرنے سے گریز کیا کریں۔ لیکن عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ملکی معیشت سے پہلے اپنی سیاست کو بچانا اور چمکانا ہے۔ اور خود کو یہ یقین دلانا ہے کہ وہ باقی تین برس بھی ملک کے وزیر اعظم رہیں گے۔
اس جد و جہد میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ معیشت بہتر نہ ہو سکی تو ان کی سیاست بھی نہیں بچے گی۔ یا یہ کہ اگر معاشی بہتری کا اقدام ہی ممکن نہیں ہے تو ایسی سیاست کا عام لوگوں کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ اس کے نتیجہ میں تبدیلی عوامی غم و غصہ کے ذریعے آئے یا درپردہ عناصر کا دباؤ اس کی وجہ بنے، حکومت کے لئے یہ کوئی خوش گوار خبر نہیں ہوگی۔ اگرچہ ملک کے سارے ’محب وطن ‘ اپوزیشن لیڈر حکومت پر دباؤ بڑھا کر بے یقینی کا ماحول پیدا کرنے میں کردار ادا کررہے ہیں لیکن کوئی بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ یہ سیاسی رویہ ملکی معیشت کے لئے نقصان دہ ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اگر ملک کا وزیر اعظم ہی اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور اس کے مطابق اپنی پالیسی متعین کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو اپوزیشن سے کیوں کر کسی ذمہ داری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم کی حکمت عملی سادہ و آسان ہے کہ اپنی کمزوریوں کا سارا بوجھ سیاسی مخالفین پر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے گریز کیا جائے۔ پہلا سال مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو چور لٹیرے ثابت کرنے میں گزر گیا۔ حتی ٰ کہ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا کہ ملک پر قرض کا بوجھ سابقہ حکومتوں کی غلطیوں ہی کی وجہ سے نہیں بڑھا بلکہ ان کی بدعنوانی کی وجہ سے ملک کو قرض میں دبا دیا گیا تھا۔ سابق حکمران ملک کے نام پر لئے گئے قرضوں سے خود امیر ہوگئے۔ کسی بھی شخص یا حکومت کی بدعنوانی پر گفتگو کئے بغیر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ دعوے بے بنیاد، غیر عقلی اور کسی عملی جواز کے بغیر دائر کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ بالکل وہی طرز عمل تھا جو اقتدار میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف پیکیج یا سی پیک معاہدوں کے بارے میں اختیار کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ ان کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ اب تحریک انصاف ہی کی حکومت آئی ایم ایف کی سخت گیر پالیسیوں کے سامنے ہتھیار پھینک چکی ہے اور سی پیک کو ملکی معاشی اصلاح کا سب سے بہتر منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔
موجودہ حکومت نے اندرون و بیرون ملک سے قرض لینے کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ایسے میں جب عمران خان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ تو کہتے تھے کہ مہنگائی اسی وقت ہوتی ہے جب ملک کا وزیراعظم بے ایمان ہو تو اب بنیادی ضرورت کی اشیا بھی کیوں عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہورہی ہیں؟ عمران خان ایسے سوالات کو مافیا کے ہتھکنڈے قرار دے کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ’نئے پاکستان‘ کے دشمن ایسی باتیں کرکے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ مدینہ ریاست کوئی ایک آدھ سال میں تھوڑی بن گئی تھی۔ یا یہ کہ مدینہ ریاست کی سب سے بڑی خوبی اس کا انسان دوست چہرہ تھا۔ گویا ایک ہی جھٹکے میں ساری سیاسی ذمہ داریوں سے انکار کا راستہ تلاش کیا جاتا ہے۔
سیاسی بقا کی جنگ لڑنے والی حکومت اور شدید سیاسی بے یقینی کا شکار کوئی وزیر اعظم کسی بھی ملک کی معیشت کو بہتری کے راستے پر گامزن کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ عمران خان نے اگرچہ مولانا فضل الرحمان پر آئین سے غداری کا الزام عائد کرکے یہ عندیہ دینے کی کوشش کی ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہے اور ملک میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوگی۔ لیکن وہ درحقیقت ’غداری‘ کے اس تالاب میں پتھر پھینک کر خود یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ بدقسمتی سے وزیر اعظم کو یہ یقین دلوانے کے لئے کوئی بھی آگے نہیں بڑھے گا۔
حکومتی استحکام کی تلاش میں اپوزیشن لیڈروں میں غدار تلاش کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے عمران خان حکومتی کارکردگی بہتر بنا کر ہی اپنی سیاست کا جواز فراہم کرسکتے ہیں۔ پھر انہیں اس سوال پر پریشان نہیں ہونا پڑے گا کہ کیا میری حکومت قائم رہے گی؟
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).