شاہراہ شاہین باغ بھارت کا سب سے طویل المدتی احتجاجی استعارہ


مودی کی انتہا پسند سرکار کی کی جانب سے شہریت ترمیمی بل 2019 کی منظوری کے بعد، بھارت میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہندوانتہا پسند حکومت کی جانب سے مسلم کش اقدامات کے خلاف بھارتی عوام سراپا احتجاج ہیں او ان مظاہروں میں سب سے زیادہ شہرت دو ماہ سے جاری شاہین باغ دھرنے کو حاصل ہوئی، شاہراہ شاہین باغ دھرنا اپنی انفرادیت کے سبب بھارت کا سب سے طویل مدت کا احتجاجی استعارہ بن چکا ہے۔ عددی برتری کی سبب مودی انتہا پسند سرکار نے 11 دسمبر 2019 کوشہریت ترمیمی بل 2019 کا مسودہ قانون تو منظور کرلیا لیکن اسے بھارتی عوام سے منظور نہیں کراسکے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے احتجاج پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی و بربریت کے بعد شاہین باغ میں خواتین نے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جو ہنوز جاری ہے، یہاں تک کہ بھارت کے مسلم فرقے کے ایک بڑے مسلک نے شاہین باغ کی خواتین سے احتجاج ختم کرنے کی اپیل بھی کردی، دہلی میں جاری یہ احتجاج 15 دسمبر 2019 سے شروع ہوئے اور شاہین باغ نامی شاہراہ عام 15 دسمبر سے تادم تحریر بند ہے۔ شاہین باغ احتجاج 14 دسمبر 2019 کی دوپہر کو علاقائی خواتین نے چند گھنٹوں سے شروع کیا جو بتدریج بڑھتا ہوا چوبیس گھنٹوں میں تبدیل ہوگیا، شاہین باغ دھرنے کی انفرادیت نے پوری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کیونکہ دھرنے میں خواتین شرکا کی کثیر تعداد باحجاب، برقع پوش اور گھریلو خواتین ہیں، شاہین باغ احتجاج بھارت کا سب سے طویل المدتی دھرنا بن چکا ہے، جہاں اتوار کے دن لاکھوں خواتین کا مجمع مودی سرکار کو ہلا دیتا ہے۔ شاہین باغ احتجاجی دھرنا، مودی سرکار کے منہ پر طمانچہ ثابت ہوا اور اس کے نتائج نئی دہلی کے انتخابات پر بھی پڑے، جہاں بی جے پی کو بدترین ناکامی کا سامنا ہوا۔

شاہین باغ کی احتجاجی جگہ مکمل طور پر بینر، پوسٹر اور مختلف نقش و نگار سے مزین ہے۔ مظاہرے میں لائبریری بھی بنائی گئی ہے اورکچھ بچے مائک پر ”ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے“ گاتے رہتے ہیں۔ شاہین باغ کی مسلم خواتین کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ آکرحتجاج میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں اردو شاعری گنگنائی جاتی ہے۔ تقریریں ہوتی ہے۔ اقبال، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظمیں پڑھی جاتی ہیں۔ شاہین باغ کے احتجاج سے پریشان نریندر مودی کا کہنا ہے کہ سیلمپور، جامعہ ملیہ اور شاہین باغ میں گزشتہ ماہ سے جاری مظاہرے کوئی ’اتفاق‘ نہیں بلکہ لوگوں کا ’استعمال‘ ہے۔

یاد رہے کہ انتہا پسندی سے مغلوب ہندو شدت پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان پرویش ورما نے شہریت کے متنازع قانون کی مخالفت کرنے والے شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین کو دلی کے شہریوں کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر انہیں وہاں سے ہٹایا نہیں گیا تو وہ ’دلی والوں کا ریپ کریں گے‘ ۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جو لوگ، جو مسلمان آج سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں یہ وہ مسلمان ہیں جن کے اہل خانہ نے جب ملک تقسیم ہوا تو انھوں نے ایسے ملک نہ جانے کا فیصلہ کیا جو مذہب کی بنیاد پر بنا تھا۔ جس پریوگی آدتیہ ناتھ نے تلخ جواب دیا کہ ”انھوں (مسلمانوں ) نے کوئی احسان نہیں کیا۔ انھوں نے ہندوستان پر کوئی احسان نہیں کیا تھا“۔

مودی سرکاری نے اپنی پوری ریاستی طاقت، دہلی انتخابات میں لگا دی لیکن انتہا پسندوں کو ریاستی انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا ہوا، عام عوام پارٹی نے کامیابی حاصل کی، بھارت کا سیکولر ازم کا نام نہاد چہرہ بے نقاب ہوتا جارہا ہے اور مسلم کش اقدامات کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کو اپنی بقا و سلامتی کے خدشات لاحق ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذہبی اکائیاں، یہاں تک کہ باشعور بھارتی ہندو، مودی سرکار کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، شاہین باغ دھرنا اس وقت مودی سرکار کے لئے سب سے بڑی پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے کیونکہ پر امن احتجاج کو ختم کرنے کے لئے ریاست کے تمام غیر قانونی ہتھکنڈے ناکام ہوچکے ہیں، اخلاقی شکست کے ساتھ سیاسی ناکامی نے بھی انتہا پسند حکومت کو عالمی برداری کے سامنے بے نقاب کیا، نام نہادشہریت ترمیمی بل 2019 کے خلاف بی جے پی حکومت عوام کے احتجاج سے حواس باختہ ہوچکی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی اسمبلی کے لئے ہونے والے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم مذہبی اور قوم پرستانہ نعروں اور بیانیے پر چلائی گئی جبکہ عام آدمی پارٹی نے انتخابی مہم میں شہریوں کے روز مرّہ کے مسائل پر زور دیا۔

پولنگ سے ایک دن قبل بھارتیہ جنتا پارٹی نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے شہریوں کو یہ جھوٹا پیغام دیا کہ اگر وہ شاہین باغ میں جاری شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف جاری دھرنا ختم کرانا چاہتے ہیں تو بی جے پی کو ووٹ دیں۔ سیٹزن ایکٹ 2019 میں بد نیتی کی بدترین مثال قائم کی گئی، جب چھ اقلیتی اکائیوں کو بھارتی شہریت دینے کے قانون میں مسلمانوں کو نظر انداز کردیا گیا، 1955 کے قانون میں ترمیم سے مسلم کیمونٹی میں ہندو انتہا پسندوں کی مسلم کش پالیسیوں پر تحفظات کا آنا فطری تھا، کیونکہ CA 2019 کے علاوہNRC قوانین میں مسلمانوں کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا، این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کے عمل سے، آسام میں موجود لاکھوں مسلمان بھارتی شہریت سے محروم کردیئے گئے۔

دستاویزات کے نام پر ان کی شہریت منسوخ کردی گئی۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے ایسے بھارتی مسلم شہریوں کو قبول کرنے سے بھی انکار کردیا ہے جو بھارتی قانون کے تحت بنگلہ دیش کے شہری کہلائے جارہے ہیں۔ مودی سرکار کے مطابق بنگلہ دیش سے کافی تعداد میں پناہ گزین آئے تھے، اب انہیں اپنی بھارتی شناخت کو ثابت کرنے کے لئے ”لیگسیی ڈاٹا“ انتخابی رول کے مطابق 24 مارچ 1971 سے قبل کی دستاویزات دکھانا لازمی قرار دے دیا گیا۔ روہنگیائی مسلمانوں کے بعد آسام کے مسلمانوں کو شہریت کے منسوخی کے بعد بدترین المیے کا سامنا ہے۔

بھارت میں مقیم مسلمانوں کو این آر سی قوانین کے نئے اطلاق میں مسلم کش اقدامات کے سبب سی اے 2019 بل کی منظوری سے خدشات پیدا ہوئے کہ ان کے ساتھ بھی عددی برتری کے زعم میں کبھی بھی کچھ کیا جاسکتا ہے۔ مودی سرکار کی انتہا پسند پالیسیاں اور آر ایس ایس کا ایجنڈا دنیا کے سامنے آچکا ہے کہ وہ بھارت میں تمام مذہبی اقلیتوں کو ہندو بنانا چاہتے ہیں اور مختلف پالیسیوں و متشدد اقدامات سے مسلمانوں سمیت مذہبی اقلیتوں کو بربریت کا نشانہ بناتے ہیں کہ اگر بھارت میں رہنا ہے تو انہیں ہندو دھرم کو اپنانا ہوگا۔

CA 2019 اورNRC نے بھارت حلیف ممالک کو ہندو انتہا پسندوں کا وہ چہرہ دکھایا ہے، جس کے اعتراف سے وہ پردہ پوشی کررہے ہیں، غربت، بھوک اور افلاس سے بے حال عوام کو دنیا کی بڑی مارکیٹ سمجھنے والوں کے لئے سیلمپور، جامعہ ملیہ اور شاہین باغ نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت کا اصل چہرہ کیا ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر خاموش رہنے والے ممالک کے ضمیر کو بیدار کرنے کوشش اُس وقت تک جاری رہیں گی، جب تک انسانیت کو تجارتی فروعی مفادات سے بالاتر نہیں سمجھا جاتا۔

تجارتی مفادات کے لئے انسانیت کا سودا، سب سے بُرا سمجھوتہ ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو سیلمپور، جامعہ ملیہ اور شاہین باغ کے احتجاجی مطاہرین عالمی برداری کو دے رہے ہیں، آسام کے مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں مسلم کش اقدامات کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں، ہندو انتہا پسند حکومت عالمی برداری کی توجہ ہٹانے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں بربریت کو فروغ دے رہی ہے، جب کہ سیلمپور، جامعہ ملیہ اور شاہین باغ نے بھارت میں حقوق کے نام پر کئی ریاستوں کی بنیادیں رکھ دی، جس کی ذمے داری بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی مسلم کش پالیسیوں کے سبب مودی پر عائد ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments