اٹارنی جنرل کا استعفیٰ: سیاسی و انتظامی انارکی کا شاہکار


اٹارنی جنرل آف پاکستان کا اچانک استعفی اور سپریم کورٹ کی طرف سے ائر مارشل ارشد محمود ملک کو پاکستان ائیر فورس یا پی آئی اے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا حکم، ملک کی اعلیٰ سطح پر سیاسی و انتظامی انارکی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ یہ معاملات روٹین کا وقوعہ ہونے کے باوجود عام نوعیت کے امور نہیں ہیں۔ ایک معاملہ میں حکومت کا اعلیٰ ترین لا افسر سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ پر ایسے الزام عائد کرنے کا سبب بنا ہے جس کا اس کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے اور دوسرے معاملہ میں حکومت اور ائیرفورس کا سرونگ ائیرمارشل قومی ائیر لائن کا انتظام سنبھالنے کو بے قرار ہے۔

خبروں کے مطابق حکومت کا کہنا ہے اٹارنی جنرل نے عدالت میں جو مؤقف اختیار کیا تھا وہ حکومت کی ترجمانی نہیں تھی، اس لئے ان سے کہا گیا تھا کہ وہ یا تو خود ہی استعفیٰ دے دیں یا انہیں برطرف کردیا جائے گا۔ یہ صورت حال جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنسز کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت کے دوران سامنے آئی ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران جسٹس فائر عیسیٰ کے بارے معلومات جمع کرنے کے طریقہ کار اور ریفرنس بھیجنے کے سرکاری اختیار کے حوالے سے متعدد پہلو سامنے آئے ہیں۔ تاہم حکومت نے ایک ایسے ریفرنس کو واپس لینے کا حوصلہ نہیں کیا جس کے بارے میں ملک کے قانون دان متفقہ طور سے سمجھتے ہیں کہ اس کی وجوہات سیاسی ہیں اور اس ریفرنس کا جج کے ذاتی کردار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے ترجمانوں نے یہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے اور بعد میں سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج پر الزامات عائد کرنا اور انہیں بدنام کرنا ضروری سمجھا تھا۔

سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سے جواب دیتے ہوئے مستعفیٰ ہونے والے اٹارنی جنرل نے کچھ ایسے کلمات کہے جسے عدالت نے ریکارڈ سے حذف کرنے کا حکم دیا اور انور منصور خان نے خود بھی وہ الفاظ واپس لے لئے تھے۔ تاہم دس رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل کے طور پر انور منصور خان نے جو بیان دیا ہے یا تو وہ اس کا ثبوت فراہم کریں یا پھر عدالت سے تحریری معافی مانگیں۔ یہ معاملہ تحریری معافی کی صورت میں بھی حل ہوسکتا تھا لیکن حکومت نے اپنے ہی اعلیٰ ترین لا افسر سے لاتعلقی اختیار کرکے انہیں استعفے دینے پر مجبور کیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کے استعفیٰ کا عندیہ نہیں دیا تھا۔

 اپنی نمائندگی کرنے والے اعلیٰ ترین سرکاری وکیل کی ایک غلطی پر اس کا ساتھ چھوڑنے والی حکومت کے بارے میں یہی رائے قائم کی جائے گی کہ وزیر اعظم اور حکومت بہر حال اپنی ساکھ اور شہرت کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ حالانکہ انور منصور خان کے استعفیٰ سے انہیں تو ان معنوں میں عزت ہی حاصل ہوگی کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے استعفیٰ دے کر باعزت راستہ اختیار کیا ہے لیکن حکومت کے فوری رد عمل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنے ساتھیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ یہ تاثر جتنا قوی ہوگا اور اس کے جتنے شواہد سامنے آئیں گے، حکومت پر اعتبار بھی اسی قدر کم ہوتا جائے گا اور اس کا براہ راست اس کی کارکردگی پر اثر مرتب ہوگا۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعظم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی صورت میں کی گئی غلطی کا اعتراف کرلیتے اور انور منصور خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کی بجائے، یہ ریفرنس واپس لے کر عدالتی نظام اور حکومتی کارکردگی کے بارے میں پیدا ہونے والی مشکلات اور شبہات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتے۔ تاہم حکومت بظاہر کوئی بھی کام سیدھا کرنے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ وزیر اعظم کو اپنی ناکامیوں کا الزام عائد کرنے کے لئے کسی نہ کسی کاندھے کی ضرورت رہتی ہے۔ پہلا سال ڈیڑھ سال سابقہ حکومتوں پر الزام لگا کر گزارا گیا ہے۔ حکومت کا ہنی مون پیریڈ پورا ہونے کے بعد نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف لگائے جانے والے الزامات اپنی نیوز ویلیو کھو چکے ہیں، اس لئے بیورو کریسی، مافیا یا کسی بھی ایسی قوت کا ذکر کرکے مسائل سے نگاہیں چرانے کی کوشش کی جاتی ہے جن کے ذکر سے سنسنی بھی پیدا ہو اور لوگ تھوڑے وقت کے لئے ہی سہی، اس پر یقین کرکے عمران خان کی دیانت و صداقت پر سر دھننے لگیں۔

اپنی کوتاہیوں کا بوجھ انور منصور خان پر ڈالنے سے البتہ عمران خان یا تحریک انصاف کی حکومت کی مشکل کم نہیں ہوگی۔ تاہم اس سے یہ تاثر ضرور قوی ہوگا کہ جو سرکاری اہلکار بھی حکومت کے درست یا غلط فیصلوں پر عمل درآمد کی کوشش کرے گا، کسی غلطی کی صورت میں اسے ہی سرکاری عتاب کا نشانہ بننا پڑے گا۔ اس سے پہلے بھی یہ خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدیدار اسی بے یقینی کی وجہ سے کوئی ذمہ داری قبول کرنے یا فیصلہ کرنے کا ’رسک‘ نہیں لیتے۔ جس کی وجہ سے اوپر سے نیچے کی سطح تک بہت سے کام رکے ہوئے ہیں اور منصوبوں پر عمل نہیں ہورہا۔ حکومت کے حلیفوں کی شکائیتوں کا تعلق بھی اسی قسم کی بے عملی سے رہا ہے۔ تاہم اب ایک غیر اہم معاملہ میں اٹارنی جنرل سے استعفیٰ لے کر یہ واضح کردیاگیا ہے کہ سرکاری افسروں کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔

اس استعفیٰ کا تعلق سول ملٹری تعلق اور عدالتوں کو ایسے ’خود مختار‘ عناصر سے پاک کرنے سے بھی ہے جو فیصلہ صادر کرتے ہوئے ادارہ جاتی عزت و احترام اور حساسیت کا لحاظ کرنے کی بجائے براہ راست مسئلہ کی نشاندہی کا حوصلہ کرتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنا کیس میں سخت اور براہ راست ریمارکس دینے اور فوجی افسروں کی سیاست میں مداخلت کے بارے میں سوال اٹھانے کا حوصلہ کیا تھا۔ اسی لئے ان کی صلاحیت، متانت اور دیانت داری کے باوجود صدارتی ریفرنس کے ذریعے انہیں برخواست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ججوں نے ایسا حوصلہ کم ہی کیا ہے۔ تاہم کسی جج کو نکانے کا حتمی فیصلہ چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل نے کرنا ہے جو بہر حال پیمرا جیسا کوئی ادارہ نہیں ہے جسے وزیر اعظم ڈرا دھمکا کر ملک بھر کے میڈیا کی خود مختاری اور آزادی اظہار کو سرکار کی باندی بنا سکتے ہیں۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہؤا ہے۔ حکومت کو اندیشہ ہے کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ کمزور پڑتا ہے تو ایک تو ملکی عدلیہ غیر ضروری طور پر طاقت ور اور خود مختار ہوسکتی ہے اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں ایک پیج کا جادو مزید ماند پر سکتا ہے۔ عمران خان کی اس وضاحت کے باوجود کہ فوج ان کی دیانت داری اور مشقت کی وجہ سے ان پر اعتبار کرتی ہے اور ان کے پیچھے کھڑی ہے، موجودہ حکومت کے لئے فوج کی کم ہوتی گرم جوشی کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

سپریم کورٹ کے ایک سہ رکنی بنچ نے ایک علیحدہ معاملہ میں ائیر مارشل ارشدمحمود ملک کو پی آئی اے کا سربراہ مقرر کرنے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بیک وقت ائیر فورس اور پی آئی اے کے عہدوں پر کام نہیں کرسکتے۔ عدالت عظمی نے ارشد محمود ملک سے کہا ہے کہ وہ اگلی سماعت تک یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ ائیر فورس میں خدمات انجام دینا چاہتے ہیں یا پی آئی کا سربراہ بننا چاہتے ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ اگر وہ ائیر فورس سے استعفی دے دیتے ہیں تب ہی انہیں قومی ائیر لائن کا سربراہ مقرر کیاجاسکتا ہے۔

یہ معاملہ اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کہ اس سے پہلے سندھ ہائی کورٹ ائیر مارشل ملک کی پی آئی اے کے سربراہ کے طور پر تقرری کو کالعدم قرار دے چکی تھی تاہم اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناع حاصل کرنے کی درخواست کی گئی جو 21 جنوری کو مسترد ہوگئی تھی۔ اب سپریم کورٹ نے بھی اس تقرری کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اس دوران حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ خود ہی اس تقرری کو منسوخ کرکے کسی دوسرے شخص کو اس عہدے پر فائز کردیتی لیکن سپریم کورٹ کی طرف ریلیف کا انتظار کیا گیا جو بوجوہ نہیں مل سکا۔

مقدمہ کی سماعت کے دوران پی آئی اے کی نمائندگی کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے اس تقرری کے حق میں یہ دلیل بھی پیش کی کہ ’اگر فوج کا ڈر نہ ہو تو پی آئی اے کی امپلائز یونینز ائیر لائن کو کام نہیں کرنے دیں گی‘۔ اس پر سہ رکنی بنچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’پھر تو حکومت کو اپنے تمام دفاتر بند کردینے چاہئیں‘۔

اس دلیل اور اس پر سپریم کورٹ کے فاضل جج کے تبصرے سے ملک میں معاملات کی صورت حال کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے۔ عمران خان اور وفاقی کابینہ کو سوچنا چاہئے کہ وہ ان حالات میں کب تک اپنی غلطیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر سرخرو ہوسکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments