شمالی ہندوستان اور راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس)


آج کا ہندوستان ہو یا ستر اسی برس قبل کا متحدہ ہندوستان اس میں ایک چیز کافی مشترک ہے۔ اس دور میں فرقہ واریت اور جنونیت کا زہر شمالی ہندوستان کے حصوں میں زیادہ سرایت تھا اور آج بھی یہی صورت حال برقرار ہے۔ آج دہلی اور اس کے گردو نواح میں ہندو انتہا پسندی اور جنونیت کا جو عفریت رقصاں ہے اس نے آج سے ستر برس قبل بھی اسی طرح بے گناہ انسانی خون سے پیاس بجھائی تھی۔ شمالی ہندوستان کو ہندو جنونیت نے کسی دوسرے خطے کی نسبت کیوں زیادہ مغلوب کیا اس کے پس پردہ اس حصے کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات تھے۔

شمالی ہندوستان میں اس وقت کا متحدہ پنجاب، دہلی اور اس کے گرد و نواح کے علاقے شامل تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پنجاب دو حصوں میں بٹ کر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا۔ عبد اللہ ملک نے اپنی تصنیف ”پنجاب کی سیاسی تحریکیں“ نامی تصنیف میں اس بارے میں لکھا ہے کہ شمالی ہندوستان کا ہی خطہ تھا جہاں سکھوں کی متشدد اور متعصب اکالی تحریک نے جنم لیا۔ ہندو فرقہ واریت کی سب سے فعال تحریک آریہ سماج بھی شمالی ہندوستان میں خوب پروان چڑھی۔

اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کا بانی دیا نند سرسوتی گجرات کاٹھیاوار کا باسی تھا۔ اس کی تحریک کو جتنی مقبولیت شمالی ہندوستان میں ملی اس کا عشر عشیر بھی گجرات، مہاراشٹر اور بنگال میں اس تحریک کے حصے میں نہیں آیا۔ اسی طرح مسلمانوں کی متشددتحریکوں کو بھی یہی مٹی راس آئی۔ اس کی سب سے بڑی مثال خاکسار تحریک تھی۔

آج ہندوستان میں بھارتیہ جتنا پارٹی کی حکومت ہے اور اس کی پالیسیاں ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنانے کی جانب واضح نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ سیاسی جماعت نظریاتی طور پر راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا حصہ ہے جو سنگھ پریوار کہلاتا ہے۔ آر ایس ایس کی داغ بیل شمالی ہند کے علاقے میں نہیں پڑی اس کی جنم بھومی مہاراشٹر کا خطہ ہے لیکن اس نے سب سے زیادہ شمالی ہند جس میں پنجاب، دہلی اور گردونواح کے علاقے شامل تھے کو متاثر کیا۔

Keshav Baliram Hedgewar

آر ایس کا بانی مہاراشٹر کا ڈاکٹر ہجویر تھا لیکن اس کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس کی تنظیم کو مہاراشٹر کے خطے میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی اور اس تنظیم کو بھی شمالی ہندوستان کی زمین راس ائی۔ پہلے دس برسوں میں اسے ہندوؤں میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہو سکی تاہم گزشتہ صدی کی تیسری دہائی کے وسط کے بعد اس کا اثر و نفوذ پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ اس تنظیم کے بانی ڈاکٹر ہجویر کی 1940 ء میں موت کے بعد مہا دیو شیو گوالکر اس کے سربراہ بن گئے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک نے مزید زور پکڑا اور بہار اور بنگال میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے تو آر ایس ایس ہندوؤں کی محافظ کے طور پر میدان میں آئی۔ امریکی مصنف جے اے کرن آر ایس ایس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”کانگریس پر مسلمان دوستی کا الزام لگا کر اس جماعت نے نوجوان ہندو طبقے کو متاثر کرنا شروع کیا اور اس جماعت کو ہندو تاجروں، صنعت کاروں اور افسروں کی حمایت بھی حاصل ہونے لگی“۔

تقسیم ہند کے بعد آر ایس ایس نے بھارت میں ہندو راج کے خواب دیکھنا شروع کر دیے۔ اس کے نظریات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ گاندھی جی تھے اور اس رکاوٹ کو اس وقت دور کر دیا گیا جب گاندھی جی ایک ہندو انتہا پسند نتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں قتل ہو ئے۔ اس جماعت کو اس وقت کی کانگریس کی حکومت نے خلاف قانون قرار دے دیا۔ اس بندش کے خلاف آر ایس ایس کے سربراہ نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو خط لکھا جس میں کہا گیا، ”آر ایس ایس کا مقصد ہندو معاشرے کی از سر نو تشکیل ہے۔ یہ کام تخریبی کی بجائے تعمیری ذرائع سے کرنا چاہتی ہے۔ ہندو سماج کے تہذیبی طور طریقوں کی بنیاد پر اس پر یقین رکھتی ہے کی تمام مذاہب بنیادی طور پر قابل احترام ہیں اور ان مزاہب کے ماننے والوں کے ساتھ روا داری کا سلوک اس کا جزو ایمان ہے“۔

پنڈت نہرو کو لکھے گئے اس خط میں جس رواداری کا ذکر اس جماعت کے سربراہ نے دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے لیے کیا تھا وہ عملی طور پر آر ایس ایس میں عنقا ہے۔

Golwalkar

گوالگر اپنی آر ایس ایس کے نظریات کے کتابچے میں ہندوستان کو فقط ہندوؤں کا ملک قرار دیتا ہے۔ اس سلسلیے میں وہ لکھتا ہے، ”ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے اور اس میں صرف ہندو ہی رہ سکتے ہیں۔ یہاں صرف وہی تحریکیں قومی کہلائی جا سکتی ہیں کو ہندو قوم کی احیاء اور اس کی برتری کے لیے مصروف جہد ہوں۔ انہی تحریکوں سے متعلق لوگ محب وطن کہلائے جائیں گے۔ دوسرے تمام لوگ چاہے وہ اپنے آپ کو ہندو کہیں وہ غدار ہیں اور دشمن ہیں۔ اور ان سے اگر رعایت برتی جائے تو انہیں جاہل اور بے وقوف کہا جا سکتا ہے“۔ ہندو کہیں وہ غدار ہیں اور دشمن ہیں۔ اور ان سے اگر رعایت برتی جائے تو انہیں جاہل اور بے وقوف کہا جا سکتا ہے ”۔

آج اگر بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی ریلی میں نعرے لگتے ہیں کہ غداروں کو گولی سے اڑا دو تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ بے جی پی اسی سنگھ پریوار کا حصہ ہے جو ہندو احیاء کی تحریک کے حامیوں ہے علاوہ ہر ایک کو غدار سمجھتی ہے۔ آج دہلی اور اس کے گردو نواح میں جو کیا قیامت برپا ہے اس کے بیچ تو ایک صدی قبل ہی بو دیے گئے تھے جب آر ایس ایس نامی تنظیم نے ہندو ازم کے احیاء کے لیے متشدد حربوں کے ذریعے نا صرف مسلم۔

دشمنی کے جذبات کو پروان چڑھایا بلکہ ہندوؤں میں ان آوازوں کو بھی دبانے کی کوشش کی جو ہندوستان کو تمام مزاہب کے ماننے والوں کو ملک سمجھتے ہیں جس میں سے ایک گاندھی جی کی شخصیت تھی۔ اگر سن 47 ء میں فساری باہر سے آئے تھے جنہوں نے شمالی ہندوستان میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا تھا تو اس کا ایک ثبوت آر ایس ایس ہے کہ جس کی جنم بھومی تو مہاراشٹر تھی لیکن اس کے نوکیلے دانتوں نے سب سے زیادہ شمالی ہندوستان کو بھنبھوڑ ا ٹھا اور آج دہلی اس کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments