مقبوضہ کشمیر میں مصالحت کی نیم دلانہ کوششیں


بھارتی حکومت نے سابق وزیر یشونت سہنا کی قیادت میں پانچ رکنی وفد کی نئی دہلی واپسی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے علیل رہنما یاسین ملک کو رہا \"edit\"کردیا ہے۔ اس کے علاوہ حریت رہنما میر واعظ فاروق کو جیل سے رہا کرکے گھر میں نظر بند کردیا گیا ہے۔ حریت رہنما سید علی گیلانی پہلے ہی گھر میں نظر بند ہیں اور انہیں اپنے گھر والوں سے بھی ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ان خیر سگالی اقدامات کو مقبوضہ کشمیر میں چار ماہ سے جاری احتجاج کو ختم کروانے کی سنجیدہ کوشش کہا جا رہا ہے۔ لیکن کشمیری لیڈروں اور نئی دہلی میں نریندر مودی کی حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی وسیع خلیج حائل ہے۔ کشمیری رہمناؤں نے واضح کیا ہے کہ جب تک بھارتی حکومت کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم نہیں کرتی ، احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

حریت لیڈروں میر واعظ فاروق اور سید علی گیلانی نے اس وفد سے ملاقات کی تھی۔ میر واعظ فاروق نے بتایا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ سید علی گیلانی کے ساتھ فون پر مشاورت کے بعد کیا تھا۔ لیکن اس ملاقات میں اس سے زیادہ سہولت دینے کا وعدہ نہیں کیا گیا کہ بھارت کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتا ہے تو سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ یاسین ملک نے البتہ اس وفد سے ملنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ ان کا مؤقف ہے کہ بھارتی حکومت تحریک چلنے کی صورت میں سابقہ سیاستدانوں، سفارت کاروں اور این جی اوز کے نمائیندوں پر مشتمل وفد بھیج کر کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس قسم کے غیر سرکاری وفود نے ماضی میں جو بھی تجاویز پیش کی ہیں ، انہیں قبول نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسے اقدامات کئے گئے کہ کشمیری لیڈر نئی دہلی کے حکمرانوں پر اعتماد کرتے ہوئے سیاسی مذاکرات کا آغاز کرسکتے۔ اس غیر سرکاری وفد میں شامل ایک صحافی نے ذاتی حیثیت میں یاسین ملک سے ملاقات کی تھی۔ اس طرح ان کے خیالات کسی حد تک وفد اور نئی دہلی کی حکومت تک پہنچ گئے ہوں گے۔ اس سے قبل ستمبر میں بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی قیادت میں ایک سرکاری وفد بھی کشمیر گیا تھا لیکن کشمیری لیڈروں نے اس سے ملنے سے انکار کردیا تھا۔ وفد کے بعض ارکان ذاتی طور پر کشمیری لیڈروں کے پاس پہنچے لیکن انہوں نے ملنے یا بات کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس حد تک تو کشمیری لیڈروں نے ضرور لچک دکھائی ہے کہ انہوں نے اس بار غیر سرکاری وفد سے ملاقات کرکے اپنے واضح اور متفقہ فیصلہ سے آگاہ کردیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں 8 جولائی کو برہان وانی کی شہادت کے بعد سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس طرح لگ بھگ چار ماہ گزرنے کے باوجود وہاں زندگی کی بحالی کے آثار موجود نہیں ہیں۔ عام شہری روزانہ حکومت کے خلاف احتجاج کے لئے نکلتے ہیں اور حکومت بدترین تشدد سے ان مظاہروں کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ وادی کے مختلف علاقوں میں مسلسل کرفیو نافذ ہے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی بند ہے۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں 125 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ دس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں کئی سو افراد پیلٹ گنز کی فائرنگ سے زخمی ہوئے ہیں ۔ ان کے چہرے اور جسم کا بالائی حصہ ان چھروں کی زد میں آیا ہے جس کی وجہ سے متعدد نوجوان بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس قسم کے مہلک ہتھیاروں کا استعمال عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔

بھارتی سیکورٹی فورسز نے اعتراف کیا ہے کہ چھ ہزار سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے چار سو نوجوانوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے خطرناک قانون کے تحت گرفتار کرکے کشمیر سے باہر ملک کی مختلف جیلوں میں بھیجا گیا ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے احتجاج کو روکنے اور زندگی بحال کروانے کے لئے بدترین سرکاری قوت کا استعمال کیا ہے لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ کشمیر جانے والے ایک صحافی سنتوش بھارتیہ نے حال ہی میں لکھا تھا کہ کشمیری عوام تکلیف میں ہیں ۔ وہاں کا بچہ بچہ بھارتی نظام سے نفرت کرتا ہے۔ صحافی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مخاطب کر تے ہوئے لکھا تھا کہ بھارت کشمیر کی زمین پر قابض ہے لیکن وہاں کے باشندے ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔

یہ صورت حال بھارتی حکومت کے لئے سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ اوڑی حملہ کو عذر بنا کر بھارتی حکومت نے سارا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کی اور اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے نت نئی کہانیاں گھڑی گئیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر بھی پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کا نام لے کر کشمیر کے معاملہ پر سوالات سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن کشمیری عوام کی مستقل مزاجی اور وادی میں کئی ماہ سے جاری احتجاج کی وجہ سے نئی دہلی حکومت شدید مشکل میں گرفتار ہے۔ اب دنیا کے ملک بھی پوچھ رہے ہیں کہ کشمیر میں کیوں فوج شہریوں پر غیر انسانی ظلم کررہی ہے اور بھارت کے سیاسی لیڈر بھی حکومت کی غیر مصالحانہ حکمت عملی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

ان حالات میں بھارت نے غیر سرکاری وفد کے ذریعے حالات پر قابو پانے کے لئے کوئی راستہ نکالنے کی خواہش کا اظہار ضرور کیا ہے۔ یاسین ملک کی رہائی اس حوالے سے ایک رعایت ضرور ہو سکتی ہے۔ لیکن بھارت جب تک کشمیر کے سوال پر کشمیری لیڈروں اور پاکستان سے بات چیت کے ذریعے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا ، اس کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments