میر شکیل الرحمان کی گرفتاری، آزادی صحافت پر حملہ ہے


احتساب بیورو نے چونتیس سال پرانے ایک معاملہ میں جنگ و جیو گروپ کے چیف ایگزیکٹو اور چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس گرفتاری کے بارے میں اگرچہ متضاد مؤقف سامنے آیا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حکومت کے ناپسندیدہ اور ملک کے سب سے قدیم اور معتبر میڈیا گروپ کے مالک و ایڈیٹر کی گرفتار ی سے آزادی صحافت کے بارے میں سنگین سوالات سامنے آئے ہیں۔

موجودہ حکومت میڈیا کے بارے میں شروع سے مخاصمانہ طرز عمل رکھتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگست 2012 میں لاہور میں منعقد ہونے والی ریلی سے لے کر اگست 2014 اسلام آباد کے ڈی چوک میں دیے جانے والے طویل المدت مگر ناکام دھرنے کے دوران پاکستانی میڈیا نے بڑھ چڑھ کر عمران خان کا ساتھ دیا تھا۔ ان کے مؤقف کی کمزوریوں اور ان کی پارٹی کے اختلافات و تضادات کو سامنے لانے کی بجائے جنگ گروپ سمیت ملک بھر کے میڈیا نے عمران خان کی شخصیت اور قیادت کے بارے میں ایسی رومانوی کیفیت پیدا کی کہ ملک کے عوام کو واقعی یہ گمان ہونے لگا کہ یہ شخص برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کی کایا پلٹ دے گا۔

تاہم اقتدار سنبھالتے ہی میڈیا کی تطہیر اور جوابدہی کے نام پر تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستانی صحافیوں، رپورٹروں، کالم نگاروں اور ٹی اینکرز کی زبان بندی کا اہتمام کرنا شروع کردیا۔ اس مقصد کے لئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی ککو کسی حجاب کے بغیر آزادی رائے کا گلا دبانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ کابینہ کے ارکان اور عمران خان کے معتمدین مسلسل جوابدہی کے نام پر میڈیا پر یلغار کرتے رہے ہیں۔ اس دوران سرکاری اشتہارات کی پالیسی کو بھی میڈیا کو دبانے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ خاص طور سے عمران خان اور تحریک انصاف کے ناپسندیدہ سمجھے جانے والے میڈیا گروپس کے لئے حالات کار سخت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

حکومت نے قومی مفاد و سلامتی کے نام پر سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کا ارادہ بھی ظاہرکیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایسے قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں جن میں سوشل میڈیا کی اہم عالمی کمپنیوں کو حکومت کی مرضی کے مطابق شائع و نشر شدہ مواد کو کنٹرول کرنے کا پابند کیا جائے گا۔ عالمی اداروں نے ان سرکاری پابندیوں کو مسترد کیا ہے اور میڈیا سے وابستہ قومی و عالمی حلقے بھی ان ہتھکنڈوں کو ملک میں آزادی رائے کو کنٹرول کرنے کی بھونڈی کوشش سمجھتے ہیں۔

حکومت پر اس احتجاج اور نکتہ چینی کا بظاہر کوئی ا ثر نہیں ہوتا۔ وہ بدستور کسی بھی میڈیم پر کسی بھی طرح کی رائے کو کنٹرول کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ طریقہ کار ماضی میں پاکستان جیسے سے نیم جمہوری ملک کی نیم جمہوری حکومتوں نے بھی کبھی استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگرچہ ہر حکومت میڈیا کو رجھانے اور کسی حد تک دبانے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن اس وقت جیسا جبر محسوس کیا جارہا ہے، اس کا مظاہرہ سابقہ فوجی ادوار میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

حکومت کی میڈیا دشمن پالیسیوں کے نتیجہ میں میڈیا مالکان نے تو مفاہمت اور نام نہاد ’سیلف سنسر شپ‘ کے ذریعے حکومت کی حکمت عملی پر صادکہنے کو ہی ترجیح دی ہے۔ اس طرح مالکان کی آمدنی میں تو خاص کمی نہیں ہوئی لیکن مالی دباؤ کے نام پر متعدد میڈیا ہاؤسز سے سینکڑوں صحافیوں اور دیگر کارکنوں کو فارغ کیا جاچکا ہے۔ متعدد صحافی بے روزگاری اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے ناگہانی موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہیرالڈ اور نیوز لائن جیسے جریدوں کو اشاعت روکنا پڑی ہے۔

یوں ملکی صحافت خود مختار رپورٹنگ کی گنی چنی آوازوں سے بھی محروم ہوچکی ہے۔ مالکان یوں مطمئن ہیں کہ وہ سرکاری حکمت عملی کے ساتھ مفاہمت کے نتیجہ میں اپنے ادارے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ البتہ ان میں سے اکثر میڈیا مالکان کو اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کیوں کہ وہ تجارت یا صنعت سے دولت کمانے کے لئے میڈیا کی طرف آئے تھے۔ ان کا مقصد دولت کمانے کے علاوہ اپنی بلیک منی کے لئے تحفظ حاصل کرنا تھا۔ میڈیا کی طاقت کو سرکار دربار میں اثر و رسوخ کے لئے استعمال کرنا بھی مقصود تھا۔ مالکان کے یہ سارے مقاصد نیا پاکستان تعمیر کرنے کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت میں بھی پورے ہورہے ہیں لیکن حرف کی آبرو کو تار تار اور صحافی کے روزگار کو غیر یقینی بنادیا گیا۔

میر شکیل الرحمان کا گھرانہ اور جنگ و جیو گروپ، ان چند میڈیا گروپس میں شامل ہے جس کی تیسری نسل صحافت سے وابستہ ہونے کے ناتے کسی حد تک خود مختار صحافت کے اصول پر یقین رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت جنگ و جیو کے علاوہ ڈان گرپ کے بارے میں بھی انتقامی رویہ برتتی ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ طرز عمل دراصل 2018 کے انتخابات سے بہت پہلے نامعلوم اداروں کی جانب سے چند میڈیا ہاؤسز کے لئے مشکلات اور ان کی اشاعت و نشریات میں رکاوٹ پیدا کرنے کے طریقہ کا تسلسل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف ڈان لیکس نام کا اسکینڈل کھڑا کرنے کے بعد سے یہ صورت حال پیدا کی گئی اور ملک کی منتخب حکومت کو ڈان لیکس کے ذریعے اس قدر دفاعی پوزیشن میں لایا گیا کہ وہ بھی ان پابندیوں کے خلاف کوئی اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اسی دور میں میڈیا ہاؤسز میں ’سیلف سنسر شپ‘ کا آغاز ہؤا۔ اس طریقہ کے تحت اگرچہ اخبار یا ٹی وی نشریا ت کے ایڈیٹر ہی کسی خبر یا تبصرے کو شائع یا نشر ہونے سے روکتے ہیں لیکن اس کا اشارہ ان حلقوں کی جانب سے ہوتا ہے جو عوام تک سچائی پہنچانے کو قومی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناپسندیدہ ٹی وی پروگراموں کو روکنے یا معطل کروانے اور سال ہا سال سے لکھنے والوں کے کالموں کو سنسر کروانے کا طریقہ بھی شروع کیا گیا۔ اس طریقہ سے ملک میں آزادانہ رپورٹنگ اور خودمختارانہ رائے کا راستہ مسدود کیاجاچکا ہے۔

عمران خان کو شکورہ رہتا ہے کہ انہیں کیوں ’نامزد وزیر اعظم‘ کہا جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی حکومت کے دور میں میڈیا کے ساتھ برتے جانے والے سلوک پر غور کریں تو انہیں اپنے شکوہ کا جواب مل جائے گا۔ دیگر ملکی معاملات پر فوج کے ساتھ ایک پیج کی پالیسی اختیار کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت نے میڈیا کو پوری طرح دبانے کی پالیسی مسلط کی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تنقید کو تبدیلی کے خلاف حرف زنی کہہ کر اور ناپسندیدہ صحافیوں و اینکرز پر بدعنوان سیاست دانوں کے ’تنخواہ دار‘ ہونے کا الزام لگا کر خاموش یا بدننام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس حکمت عملی سے ملک میں صحافت کو بدنام، کمزور اور بے اعتبار کرنے کا کام پوری شدت سے کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات اس معاملہ میں پیش پیش رہتی ہیں اور میڈیا و صحافیوں کو قومی مفاد کے نام پر سرکاری ایجنڈے کا ترجمان بننے پر قائل کرنے کے علاوہ یہ وارننگ بھی دیتی رہتی ہیں کہ سرکش میڈیا کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

عمران خان نے کرپشن کے خلاف جنگ کے نام پر تمام سرکاری اداروں کو استعمال کرنے کا قصد کیا ہے۔ قومی احتساب بیورو اگرچہ خود مختار آئینی ادارہ ہے لیکن ا س کے موجودہ چئیرمین جسٹس (ر) ) جاوید اقبال کی سربراہی میں اس ادارے کو بھی قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنے کا پلیٹ فارم بنانے کی بجائے بدعنوانی کے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کا ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔ حال ہی میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس معاملہ کی سماعت کے دوران نیب کے وکیلوں کے پاس کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں تھا جس کی بنا شاہد خاقان عباسی کو کسی مقدمہ کے بغیر گرفتار رکھنے پر اصرار کیا جارہا تھا۔

1986 کے ایک معاملہ میں میر شکیل الرحمان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف احتساب بیورو کی جابرانہ حکمت عملی کے تسلسل میں ہی دیکھا جائے گا۔ نیب کا الزام ہے کہ نواز شریف نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر میر شکیل الرحمان کو لاہور میں قطعات اراضی الاٹ کیے تھے۔ ججبکہ میر شکیل الرحمان کا مؤقف ہے کہ یہ اراضی ایک پرائیویٹ پارٹی سے خریدی گئی تھی جس کے دستاویزی ثبوت نیب کو فراہم کردیے گئے تھے۔ آج میر شکیل الرحمان اس بارے میں نیب کے سوالوں کے جواب دینے گئے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

جنگ گروپ کے ایک بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ نیب گزشتہ ڈیڑھ سال سے رپورٹروں، اینکرز، پروڈیوسرز اور ایڈیٹرز پر نیب کے خلاف رپورٹنگ روکنے کے لئے دباؤ ڈالتا رہا ہے۔ جنگ گروپ کا کہنا ہے کہ ہر رپورٹ میں نیب کا مؤقف شامل کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے لیکن انتظامیہ نے رپورٹروں یا دوسرے عملہ پر کسی قسم کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کو روکنے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا۔ نیب خود کو آئینی ادارہ قرار دیتے ہوئے تنقید سے بالا تصور کرتا ہے لیکن میر شکیل الرحمان کو ایک ناقص، دیرینہ اور متنازعہ معاملہ میں گرفتار ک کرکے نیب نے ایک طرف اپنی غیر جانبداری کو داؤ پر لگایا ہے تو دوسری طرف میڈیا کو خوفزدہ کرنے کا اہتمام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن کے علاوہ ملکی عدالتیں اور ماہرین قانون احتساب بیورو کے طریقہ کار کو غیر ضروری اور قانونی تقاضوں کے منافی قرار دیتے رہے ہیں۔

حکومت اور نیب کی طرف سے ساز باز اور انتقام کے الزامات مسترد کیے جانے کے باوجود میر شکیل الرحمان کی گرفتاری سے اس تاثر کو تقویت ملے گی۔ یہ اصول بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ دیگر شہریوں کی طرح صحافی بھی قانون کے سامنے جوابدہ ہونے چاہئیں۔ تاہم میر شکیل کی گرفتاری سے جنگ گروپ کو بدنام کرنے کی کوشش، ملک میں آزاد صحافت کو دبانے کے اقدام کے طور پر ہی دیکھی جائے گی۔ حکومت کے علاوہ نیب کے لئے یہ فیصلہ طویل المدت نقصان کا سبب بنے گا۔ اب یہ سوال زیادہ شدت سے سامنے آئے گا کہ سب کے لئے قانون کی یکساں برتری کا دعویٰ کرنے والا ادارہ نیب بھی کیا کسی قانون کا پابند ہے۔ کیا اہم لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے طویل مدت تک حراست میں رکھنے پر نیب کے کسی ذمہ دار کو بھی جوابدہ ہونا پڑے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments