والدین پر عذاب تو آپ خود ہیں


2018 ء کے عام انتخابات سے بہت امیدیں وابستہ کی تھیں کہ ”جب آئے گا عمران، بنے گا نیا پاکستان“، اس امید اور جذبے کے تحت تحریک انصاف کی عام انتخابات میں بھرپور حمایت کی، عمران خان کی اس وقت باتیں دل کو لگتی تھیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے ملک کو لوٹ کھایا ہے، ادارے کرپٹ کردیئے ہیں، عام انتخابات میں تحریک انصاف قومی اسمبلی، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں زیادہ نشستیں جیت کر اتحادی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوگئی، امید تھی کہ عمران خان نے ”ہیرے“ چن رکھے ہوں گے، 6 ماہ یا ایک سال میں نئے پاکستان کے اثرات سامنے آنے لگیں گے۔

آج خُود پر افسوس ہوتا ہے کہ کن لوگوں کی حمایت کر بیٹھا ہوں، اب تو حالت یہ ہے کہ ”دل غلطی کر بیٹھا ہے تو بول کفارہ کیا ہوگا“، وفاق میں جو وزراء بنائے گئے، ان کی چند ماہ کی کارکردگی دیکھ کر دکھ ہوا کہ یہ کیا ہورہا ہے، عمران خان نے اسد عمر کو خزانہ کی وزارت سونپی، موصوف کچھ ڈلیور نہ کرسکے تو ان کی ہٹا کر پرانے ملازم عبدالحفیظ شیخ کو نئی تنخواہ پر رکھ لیا اور خزانہ ان کے حوالے کردیا، عبدالحفیظ شیخ نے عوام کا جو تیل نکالا وہ سب سے سامنے ہے، انہوں نے عوام کا اتنا تیل نکالا کہ ان میں اب بچا ہی کچھ نہیں۔

پنجاب میں بھی عمران خان نے ایک نایاب ہیرا تلاش کیا اور پنجاب بزدار کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ عثمان بزدار وسیم اکرم پلس ثابت ہوں گے، وسیم اکرم پلس نے اپنی کابینہ کے جو نگینے چنے ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، ان میں سے ایک نگینہ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض چوہان ہیں، صوبائی وزیر اطلاعات حکومت کا ترجمان ہوتا ہے، جس نے میڈیا اور عوام کو حکومتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنا ہوتا ہے مگر موصوف اپنے انداز بیان سے شروع میں ہی متنازع ہوگئے، ان کے ذمہ جو کام تھا اس طرف توجہ نہ دی اور اداکارہ نرگس کو حاجن بنانے چل پڑے۔

نرگس کے حوالے سے ایسی گفتگو فرمائی کہ کسی بھی شریف آدمی نے ان کے انداز بیان نہ سراہا بلکہ تنقید ہی کی، بندہ اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے مگر مجال ہے کہ ان کو کوئی اثر ہوا ہو، انہوں نے ”بھونگیاں“ مارنے کا سلسلہ جاری رکھا جس سے وزیراعلی عثمان بزدار تنگ آگئے اور ان سے اطلاعات کی وزارت واپس لے لی، پھر صمصام بخاری کو لایا گیا بعد میں میاں اسلم اقبال صوبائی وزیر اطلاعات بنے، نجانے فیاض چوہان کی لابی تھی یا پھر بزدار حکومت کی مجبوری تھی کہ ان کو پنجاب کا ترجمان منہ پھٹ یا بدتمیزی کی تمام حدیں پار کرنے والا چاہیے تھا جس کی وجہ سے فیاض چوہان کو ایک بار پھر پنجاب کا وزیراطلاعات بنا دیا گیا۔

موصوف نے اپنی غلطیوں سے سیکھا تو کچھ نہیں، کم عقل انسان کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود کو عقل کُل سمجھتا ہے اور غلط بات پر بھی ڈٹا رہتا ہے، چند روز قبل کامیڈی کے بادشاہ امان اللہ خان کا انتقال ہوگیا، ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا، افسوس کا مقام ہے کہ وزیراطلاعات کو ثقافت کی وزارت بھی عطا کردی گئی، بندہ پوچھے فیاض چوہان کا ثقافت سے کیا تعلق؟ پنجاب کی ثقافت کبھی بھی بدتمیزی اور منہ پھٹ کی نہیں رہی، پنجابی میٹھی زبان ہے اور پنجاب کے باسی مہمان نواز ہیں، لاہوری اپنی مہمان نوازی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں، خیر امان اللہ خان کے تعزیتی ریفرنس میں جناب صوبائی وزیراطلاعات کا خطاب کے چند فقرے ملاحظہ فرمائیں۔

”میں سوا 6 ماہ ثقافت کا وزیر رہا اور کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ کوئی فنکار میرے پاس آیا ہوا ہو اور اس کی مراد پوری نہ ہوئی ہو، یہ آستانہ عالیہ چوہان شریف ہے یہاں سے فیض ہی ملتا ہے، نام بھی فیاض ہے اور فیض ہی ملتا ہے“ ان کا یہ خطاب سن کر مجھے ان کے قائد عمران خا ن ایک ”ڈائیلاگ“ یاد آ گیا جب عمران خان نے سرکاری پیسوں کے بارے میں کسی سے کہا تھا کہ ”بے شرم انسان، تیرے باپ کا پیسہ ہے“، چوہان شریف نے اگر فنکاروں کو فنڈز دیے ہیں تو وہ سرکار کی رقم تھی جو فنکاروں کا حق ہے، انہوں نے اپنی جیب سے تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی جو فنکاروں پر احسان جتایا، ریفرنس میں ان کے خطاب پر سہیل احمد اور خالد بٹ نے ان کی خوب تسلی کرائی جس پر مزید کچھ لکھنا مناسب نہیں، سہیل احمد نے کہا کہ چوہان صاحب آپ امان اللہ خان کے ایک شو کی قیمت بھی نہیں دے سکتے۔

گزشتہ روز موصوف نے معذور افراد کے بارے میں جو کہا ہے اس پر دل انتہائی رنجیدہ ہے، مولا علی علیہ سلام کا فرمان ہے کہ جاہل سے بحث مت کرو کیونکہ جب اس کے پاس دلیل نہیں ہوگی تو وہ تمھارا دشمن بن جائے گا، میں نے فیاض چوہان کی باتوں کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیا ہے مگر معذور افراد کے بارے میں انہوں نے جو بات کی اس پر تو دکھ اور افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، موصوف فرماتے ہیں کہ معذور افراد ان کے والدین کو ان کے گناہوں کی سزا ہے اور والدین پر عذاب ہیں۔

خدا کا خوف کرو، اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزمائش میں ڈال کر آزماتا ہے، اللہ تعالیٰ نے والدین کی کتنی عظمت اور عزت واجب قرار دی ہے اس کا شاید وزیر صاحب کا علم نہیں، وہ والدین جو معذور بچوں کی پرورش کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کتنا اجر رکھا ہوگا۔ منسٹر صاحب، معذور افراد والدین پر عذاب نہیں، والدین پر عذاب تو وہ اولاد ہوتی ہے جو بدتمیز، بدتہذیب اور زبان دراز ہو اور یہ تینوں ”خاصیتیں“ وزیر موصوف میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments