کورونا کا سراب اور نیو ورلڈ آرڈر


چین و امریکا کے درمیان عالمی سطح پر اقتصادی ٹکراؤ ہے، چین اپنی 40 سالہ معاشی پالیسیوں کے باعث جی ڈی پی کا حجم 13 کھرب 60 ارب ڈالرز تک لا چکا ہے جبکہ امریکا کا یہ حجم 20 کھرب 50 ارب ڈالرز ہے۔ چین دُنیا کے 120 سے زائد ممالک تک اپنے تجارتی تعلقات مستحکم کر چکا ہے۔ افریشیائی ممالک پر چین کا اقتصادی کنٹرول آہستگی سے بڑھ رہا ہے، حتیٰ کہ امریکا کی مارکیٹ میں بھی چینی کمپنیوں کا اثر بڑھا ہے۔ دُنیا کی تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز امریکا ہیں ان کمپنیوں میں شامل ریکیفلر، روتھس چائلد اور گولڈ سمتھ خاندان گلوبل سیاسی و اقتصادی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں حتیٰ کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دُنیا بھر کے مرکزی بینک انھی کے کنٹرول میں ہے۔

ایک دہائی قبل پیدا کیے گئے مصنوعی معاشی بحران سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے امریکا کے قومی خزانے سے ریلیف پیکج حاصل کیے اور بحران کی براہ راست بینیفشری کمپنیاں ہی تھیں کیونکہ امریکا نے 7 کھرب ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکج دیا تھا۔ نائن الیون کے بعد دُنیا پر جنگیں مسلط کرانے کی بینفشری امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیاں ہیں۔ اب وائرس کے جواز پر مالی فائدہ حاصل کرنے میں سرفہرست فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہیں۔ ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں کے سی ای اوز نے دو مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اس میں جیلیڈ سائنسز، گلیگسو سمتھ کلائن، جانسن اینڈ جانسن، ماڈرینا، فائزر، ریجنیرن اور سنوفی شامل ہیں، ان کمپنیوں کو کورونا ویکسین کی تیاری کا ٹاسک دیا گیا اور ان کمپنیوں کو امریکی خزانے سے فنڈنگ بھی کر دی گئی۔

انھی کمپنیوں کو امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگز ایڈمنسٹریشن یعنی ایف ڈی اے کی جانب سے ویکسین کی تیاری کا اجازت نامہ دیا گیا۔ دو روز قبل صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو اختیارات استعمال کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے دو کھرب ڈالرز کے ریلیف پیکج پر دستخط کیے ہیں۔ یورپی یونین کے تحت کورونا پر تحقیق اور ویکسین کی تیاری کے لئے 10 کروڑ 40 لاکھ یوروز کا فنڈ رکھا گیا ہے، یہ فنڈز ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ایک دہائی قبل سوائن فلو کو ڈبلیو ایچ او نے وباء قرار دیا، برٹش میڈیکل جرنل کی رپورٹ کے مطابق فارما کمپنیوں نے 7 ارب ڈالرز کمائے تھے اور ڈبلیو ایچ او کے تحت گائیڈ لائنز لکھنے والے تینوں سائنسدانوں کو روچی، گلیکسو سمتھ کلائن نے پیسے فراہم کیے، بعد ازاں تینوں سائنسدانوں نے اعتراف بھی کیا۔ تھوڑے عرصے بعد ہی واضح ہوگیا کہ سوائن فلو اس قدر خطرناک نہیں تھا۔

کورونا وائرس سے پیدا کی گئی صورت حال میں یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، اس وائرس کی بناء پر مزید مخفی مقاصد حاصل ہوں گے۔ وائرس چھوڑنے کا تجربہ کرنے کے بعد دُنیا کو لاک ڈاؤن کرنے کا ایک منصوبہ کامیاب ہوگیا، یعنی عالمی استعمار دُنیا کو اب کسی بھی وقت مکمل لاک ڈاون کر سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل نو کرنے کے لیے یہ لاک ڈاؤن ناگزیر تھا، مصنوعی طریقے سے دکھائی جانے والی اقتصادی نمو کا فراڈ زیادہ دیر نہیں چلایا جاسکتا تھا۔

اس ضمن میں ٹائم میگزین نے مارچ 2014 ء میں اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی دفعہ گزشتہ دو سالوں کے دوران عالمی تجارت کی شرح نمو عالمی جی ڈی پی کی نمو سے کم رہی ہے، یہ دراصل عالمی مالیاتی نظام کے اینگلو سیکسن مرکز کے لیے بڑا دھچکا تھا کیونکہ اس سسٹم کے تحت پیداواری بچت کو بڑھانے کے لیے دُنیا بھر میں حاشیہ بردار ریاستیں کام کرتی ہیں گویا عالمی مالیاتی نظام میں تبدیلیاں ناگزیر تھیں۔ ٹرمپ نے اپنی 2017 ء کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی لانچنگ کے دوران کہا تھا کہ یورپ اور دُنیا کے دیگر ممالک کا انحصار چین پر بڑھ رہا ہے، اب ہمیں حریف ملک سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگی۔ یہ دراصل اشاریے تھے جو مالیاتی نظام میں تبدیلیوں کی طرف کیے جارہے تھے۔

امریکی اسٹیبلشمنٹ انٹرنیشنل آرڈر کو اپنی پسند کے مطابق رائج رکھنا چاہتی ہے لیکن عالمی سطح پر اُبھرتے ہوئے نئے چیلنجز سے گلوبل سیاست کا دھارا بدلنے کو ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب امریکا کی مشرق وسطیٰ میں خارجہ پالیسی سے نالاں ہے، سعودی عرب گلوبل آئل مارکیٹ میں اصلاحات کے لیے امریکا کا تعاون چاہتا ہے اور بالخصوص امریکی شیل آئل کی صنعت سے سعودی عرب خطرہ محسوس کرتا ہے، تیل کی پیداواری تنظیم اوپیک قیمتوں میں کمی کرنے کو تیار نہیں، روس اور سعودی عرب کے تعلقات قیمتوں میں کمی کے اختلاف پر سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں۔

رسد اور طلب کے عنصر کو متاثر کر کے تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے گا جس سے بڑی بڑی صنعتوں کو مالی فوائد حاصل ہوں گے۔ سعودی عرب ایک طرف خطے میں اپنی طاقت قائم رکھنے کا خواہاں ہے تو دوسری جانب امریکا کے تعاون کے بغیر آل سعود کی بادشاہت خطرے میں رہتی ہے۔ چنانچہ عالمگیریت کے موجودہ اقتصادی ماڈل کو عدم توازن اور مصنوعی گروتھ نے عالمی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ گویا وائرس سے پیدا کی گئی موجودہ عالمی صورتحال سے گلوبل مارکیٹ میں شرح نمو کو قدرتی نمو کے برابر لانے کا بندوبست ہو گا۔

اس کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی ری سٹرکچرنگ کریں گی جس میں ملازمتوں کے نئے ضابطے مرتب ہوں گے، اس وقت صرف امریکا میں اس وائرس کے بعد 8 کروڑ نوکریاں خطرے میں ہیں۔ دوسری جانب امریکا کے 2 کروڑ 70 لاکھ افراد کے پاس ہیلتھ انشورنس کی سہولت دستیاب نہیں ہے، انھیں انشورنس کی سہولت دینے کے لیے امریکا کو ایک نئے ہیلتھ پیکج کا اعلان کرنا ہوگا جس کے بینفیشری فارماسیٹوکل ادارے ہوں گے۔ فائیو جی ٹیکنالوجی پر امریکا و چین کی سرد جنگ عروج پر تھی، امریکا نے چین کی موبائل کمپنیوں کو نیشنل سیکیورٹی رسک قرار دے کر پاپندی عائد کر دی لاک ڈاون سے چین کا فائیو جی کا منصوبہ التواء کا شکار ہوگا، امریکا فائیو جی ٹیکنالوجی پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتا ہے۔

حالیہ صورتحال کے باعث چین کے ورچوئل ٹیکنالوجی کے منصوبے کو بریک لگے لگی۔ دوسری جانب امریکا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے افراد کی کڑی نگرانی کرنا چاہتا ہے تاکہ استعماری منصوبوں کے خلاف پنپنے والے مزاحمتی افکار و تحریکوں کو کنٹرول کیا جاسکے۔ یہ عین ممکن ہے کہ پوسٹ کورونا عہد میں ملٹی نیشنل کمپنیاں یہ شرط عائد کر دیں کہ صرف وہی افراد اپنی ملازمتیں جاری رکھ سکتے ہیں جن کا کورونا ٹیسٹ نیگیٹو ہے، اس پالیسی سے کمپنیاں اپنے کاروباری بوجھ کو کم کرنے میں کامیاب ہوں گی۔

کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے تیسری دُنیا کے ممالک اور چھوٹی معیشتوں کی حامل ریاستوں کا اقتصادی نظام بُری طرح متاثر ہو رہا ہے، ان ریاستوں کو وائرس سے نمٹنے کے نام پر نئے قرضے جاری ہوں گے اور ان نئے قرضوں کے عوض ریاستی پالیسیوں کو جکڑنے کے نئے مطالبے ہوں گے۔ صحت کے نظام کو پرائیوٹائزڈ کرنے کے لیے نئی پالیسیاں لاگو ہوں گی تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار اور منافع میں وسعت لانے کا انتظام کیا جاسکے، عالمی سطح پر کورونا فنڈز میں جمع ہونے والی رقوم سے کمپنیوں کی مالی معاونت ہوگی۔

جو ریاستیں لاک ڈاون کی متحمل نہیں ہیں انھیں بھی عالمی دباؤ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر لاک ڈاؤن کرنا پڑا اور اس لاک ڈاؤن کے لیے عوامی زندگیوں کا سوال اُٹھایا گیا۔ کورونا وائرس کے بعد عالمی سطح پر ایک نیا جنگی خوف برپا کر دیا گیا ہے اب حریف ممالک کے خلاف جدید طرز کے جنگی ہتھیاروں اور جدید تربیت یافتہ فوج سے لڑے بغیر محض حیاتیاتی ہتھیار سے ہی زیر کیا جا سکتا ہے۔

یہ امر قابل فکر ہے کہ عالمی استعمار جو اقوام عالم کی زندگیوں کے ساتھ کھیل تماشا کرنے کا نیا حربہ استعمال کر رہا ہے وہیں پر عوامی زندگیوں کے تحفظ کا بھی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اہل فکر کو یہ سوال قائم کرنا چاہیے کہ کورونا وائرس تیار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے حالیہ نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ امریکا، چین، برطانیہ سمیت دُنیا کے جن ممالک میں بائیو وار سے متعلق لیبارٹریاں قائم کر کے وائرسز کی تیاری کی گئی ہے، ان لیبارٹریوں کو فوری بند کیا جانا چاہیے اور وہاں پر موجود وائرسز کو ڈسپوزڈ آف کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ استعماری منصوبوں کے تحت چلنے والی یہ لیبارٹریاں انسانیت کو غلامی میں دھکیلنے اور ان کے قتل عام کا موجب بن سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments