کیا حکومت پیش آمدہ مشکلات کے لئے تیار ہے؟



اقتدار میں آنے کے بعد حکمراں جماعت میں گروپ بندیوں کا رواج پانا ایک غیر فطری سیاست کا حصہ ہوتا ہے، اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ الیکٹ ایبلز سے سیاسی تبدیلیاں معمول کا حصہ ہیں۔ دور حاضرمیں حکمراں جماعت کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ گروپ بندیوں کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ تاہم یہاں تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات اُن کے لئے ہر لحاظ سے سازگار ہیں، کیونکہ بظاہر انہیں کسی اندرونی و بیرونی سیاسی مہم جوئی کا سامنا نہیں۔

چینی اسکینڈل رپورٹ منکشف ہونے کے بعد حکومت نے فی الوقت وزراتوں کے قلمدان تبدیل کیے۔ حتمی فیصلہ 25 اپریل کی فرانزک رپورٹ کے بعد ”غالباً ً سامنے آئے۔ لیکن اس منظر نامے میں اہم اَمر یہ ہے کہ وزیر اعظم نے وزارتوں کے قلمدان تبدیل اور بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کر کے اصولی اعتراف کر لیا کہ ان کی ناک کے نیچے ”ناجائز“ اختیارات کا بدترین کھیل کھیلا گیا۔ لیکن دوسرا قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ برآمدی پالیسی سمیت سبسڈی دینا، فرد واحد کا فیصلہ نہیں قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ کابینہ باقاعدہ منظوری دیتی ہے، کابینہ سے منظوری حاصل کرنے کے لئے کسی نے غلط رپورٹ پیش کی، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کو اگر مس گائیڈ کیا اور کابینہ کو حقائق سے لاعلم رکھا تو ان ذمے داروں کا تعین کرکے حقائق قوم کے سامنے لانا ضروری ہے۔

تاہم چینی، آٹا اسکینڈل رپورٹ آنے کے بعد اپوزیشن نے حکومت پر دباؤ بڑھا نے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، ذرائع نے ان قیاس آرائیوں کو رد کیا ہے کہ ان حالات میں حکومت کے خلاف تحریک لا کر عمران خان کو وزرات اعظمیٰ سے ہٹایا جائے گا۔ ایف اے ٹی ایف نے جون میں ہونے والا اجلاس غیر معینہ مدت ملتوی کر دیا، اس طرح حکومت کو اپنی رپورٹ جمع کرانے کے لئے تین ماہ کی مزید مہلت مل گئی، امید ہے کہ ریاست اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے ملنے والی مہلت سے اپنا بیانیہ اور پیش رفت کو مزید مستحکم کرے گی۔

اس وقت پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کرنے کے لئے مربوط پیش بندی کی ضرورت ہے کیونکہ ڈینئل پرل کیس میں جس طرح فیصلہ آیا، اس سے اداروں کو بھی غیر متوقع جھٹکا لگا۔ حالاں کہ یہ عدالتی فیصلہ ہے، اس پر کسی دوسرے ملک، ادارے یا فرد کو انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، لیکن حسب روایت بعض عدالتی فیصلوں پر شکوک و شبہات سے، اداروں پر جانبداری کے الزامات کے باعث پاکستان کمزور پوزیشن میں رہتا رہا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مہیا مہلت (اپریل) میں ایف اے ٹی ایف میں پیش رفت کے حوالے سے حکومت نے کتنا عمل درآمد کیا، اس پر تاحال معن خیزخاموشی ہے۔

اس موقع پر حزب اختلاف، حکمراں جماعت میں گروپ بندی و سیاسی انتشارسے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ انہیں حکومت کی تبدیلی کے لئے کوئی جلدی نہیں ہے تو شاید غلط نہ ہو، کیونکہ کرونا وبا سے حکومت کو بدترین معاشی بحران کا سامنا درپیش ہو گا اور ان حالات میں عالمی اداروں سے تھوڑا بہت جو ریلیف ملا، اُس کے ثمرات بھی تیزی کے ساتھ ختم ہوجائیں گے اور پہلے سے مشکلات کی شکار حکومت کو سخت معاشی چینلجز کا سامنا ہو گا۔

اپوزیشن شاید موقع کا انتظار کررہی ہے کہ جس طرح راشن کی عدم دستیابی /کمی و لاک ڈاؤن سے تنگ عوام نے سڑکوں پر نکلنا شروع کیا، آنے والے چند مہینوں میں بدترین مہنگائی، ٹیکس و کم آمدنی کے باعث عوامی غضب میں اضافہ ہو جائے اور انہیں زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔ اپوزیشن حکومت گرانے کے لئے غیر روایتی طریقہ اختیار بھی کرے، تو بھی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پر بظاہر دباؤ نظر نہیں آتا۔ حکو مت سیاسی مفاہمت سے کام لے کر ایشو کو دبانے میں کامیاب بھی ہو سکتی ہے، اگر اپنے اتحادیوں کے خلاف سخت اقدامات نہ کرے، تاہم غور کیا جائے تو سخت اقدامات زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتے ہیں۔ یہی کہ وزارتوں سے ہٹا دیا جائے یا کوئی کیس وغیرہ بنا دیا جائے، لیکن ایسا کرنا اپنے پیروں پر کلھاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔

عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے جہانگیر ترین گروپ نے جس طرح سیاسی مخالفین و آزاد امیدواروں کو تحریک انصاف کے لئے شامل کیا، اگر وہ چاہیں تو پس پردہ رہ کر حکومت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، اسی طرح خسرو بختیار گروپ یا بیورو کریسی کے خلاف سخت اقدامات خود حکومت کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ویسے بھی سیاست کچھ لو، کچھ دو کا نام ہے، اس لئے زیادہ بڑی توقعات رکھنا، خام خیالی ہو گی۔ نیز کسی ایک وزیر یا مشیر پر سارا ملبا بھی نہیں گرایا جا سکتا، کیونکہ فیصلہ بہرحال کابینہ کا تھا، جس کی براہ راست ذمے داری وزیراعلیٰ پنجاب پر عائد کی گئی تو وسیم اکرم پلس قربانی دے کر کچھ نہ کرتے ہوئے بھی ”بہت کچھ“ کر سکتے ہیں، بہرحال یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، حقیقت سامنے آنے میں وقت لگے گا۔

کرونا کی وجہ سے اہم صنعتوں کا پہیا رکا ہوا ہے، تاہم عالمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے معاشی فائدہ اٹھانے کا موقع بھی میسر ہے۔ بے شک و شبہہ ”لاک ڈاؤن“ ہے، صحت عامہ کے مسائل کے علاوہ سرفہرست، قرضے ری شیڈول کرانے ہیں۔ اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ دو مہینے بعد بجٹ میں ملکی خسارے اور ٹیکس اہداف میں کمی کو کس طرح پورا کیا جائے، عوام پر حکومت کے کرتا دھرتاؤں کی وجہ سے جو مہنگائی و بے روزگاری کا سونامی در آیا ہے، کیا ٹیکسوں کا پہاڑ، کمزور عوام ہی اٹھاتے رہیں گے۔

ریاست کے لئے مسئلہ اب صرف چند شخصیات کو بچانا نہیں، بلکہ 22 کروڑ عوا م کا ہے کہ انہیں کس طرح بد ترین حالات سے باہر نکالنا ہو گا۔ دوسری جانب ملک دشمن عناصر، حکومت کی کمزوریوں و ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ریاست کی سالمیت و بقا پر ناپاک نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں ریاست کو اپنی دفاعی ضروریات کو بھی مزید بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت حکومت کی لئے فوری درپیش چیلنجز معیشت کو کھڑا کرنا، پریشان زدہ عوام کو مطمئن کر کے انہیں کسی ہنگامی حالات کا باعث بننے سے روکنا۔ اپنے ہی اتحادیوں و حلیفوں کی ناراضی سے نمٹنا ہے، تو کیا اس کے لئے حکومت تیار ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments