وبائی امراض، کورونا اور ہم



دین نے اپنی صحت کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی ہے اور ایسی تمام چیزوں سے روکا ہے جو صحت کے لئے نقصان دہ ہوں۔ موسم، معمولات انسانی زندگی کے لیے اہم ہیں۔ ہر موسم کے اثراتِ بد سے بچا ؤ ضروری ہوتا ہے۔ وبائی امراض کے پھو ٹنے کی ایک بڑی وجہ فضائی الودگی بھی ہو تی ہے جو اشیاء کو جراثیم، وائرس اور بیکٹیریاز سے الودہ کر دیتی ہے۔ ناقص اور الودہ خوراک کھانے کے سے انتڑیوں اور معدے میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کچن میں مکمل اور بہترین صفائی رکھی جائے۔

گوشت پکاتے وقت خصوصی طور پر دھیان رکھا جائے کہ بیکٹیریا وغیرہ مر جائیں۔ باسی خوراک میں جراثیم شامل ہو جانے سے نظامِ انہضام کو خراب کر دیتی ہے۔ برتنوں کو اچھی طرح سے دھو کر استعمال کرے۔ پھلوں کو کھانے اور سبزیوں کو پکانے سے پہلے اچھی طرح صاف پانی سے دھولینا بہت ضروری ہے۔ لیمن، پو دینہ، انار دانہ، سبز مرچ، لہسن اور سبز دھنیے کی چٹنی انسان کے لیے اچھی ہیں۔

صدیوں پہلے جب کسی بیماری کے وبائی صورت اختیار کرجانے پر ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی جان چلی جاتی۔ طاعوں۔ کوڑھ کو آسمان کا قہر، اللہ کا عذاب تصور کیا گیا تھا۔ ان کے شکار افراد بدترین جسمانی تکلیف و اذیت ناک صورت حال کا سامنا کرتے اور سسک سسک کر موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ صحت مند لوگ اور ان کے اپنے تک ان سے خوف کھانے لگے اور دوری اختیار کر لیتے تھے۔ تیرہویں اور سولھویں صدی میں طاعون کی وبا سے یورپ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں ہوئی تھی۔ اگر کوئی اس کا شکار ہوجاتا تھا، اس کی زندگی نہایت اذیت ناک ہو جاتی تو اپنے ہی اس کی موت کی دعا کرنے لگتے تاکہ وہ جسمانی تکلیف سے نجات پاسکے۔ جذام کی وجہ سے لاکھوں انسان متاثر ہوئے۔ 1990 کے بعد اس میں مسلسل کمی آتی گئی اور اب امید ہے کہ دنیا کو اس سے نجات مل جائے گی ہے۔

 چیچک کا مرض اٹھارہویں صدی میں پہلی بار دنیا کے سامنے آیا تھا، لیکن 1950 میں یہ ایک خوف ناک وبا کی صورت پھیلا اور صرف دو دہائیوں کے دوران تین کروڑ سے زائد انسانوں کو متاثر کیا۔ خسرہ طبی ماہرین نے اس کے خلاف موثر ویکسین متعارف کروا دی۔ ان میں اکثریت کم عمر بچوں کی ہے۔ ماہرین کے مطابق 2018 اس بیماری نے افریقہ اور ایشیا میں ایک لاکھ 40 ہزار انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔

پولیو وائرس۔ پاکستان آج بھی پولیو سے آزاد نہیں ہو سکا ہے۔ 1950 کے بعد سامنے انے والی اس بیماری سے دنیا میں لاکھوں افراد معذور ہوئے، لیکن طبی سائنس اور معالجین کی کوششوں سے دنیا کے بیش تر ممالک پولیو فری قرار دیے جاچکے ہیں۔ تاہم پاکستان میں اب بھی پولیو کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ٹی بی کو کئی سال تک وبائی مرض کے طور پر دیکھا جاتا رہا، مگر اس کا مکمل علاج سامنے ایا تو مرض کے پھیلنے کا خطرہ بھی کم ہوتا چلا گیا۔

تاہم دنیا اسے آج بھی ایک بڑی بیماری ہے اور اس کی علامات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ، اسپینش فلو، محتاط اندازے کے مطابق دنیا کے ہر تیسرے شخص کو متاثر کیا، یہی وجہ ہے کہ اسے بدترین عالمی وبا بھی کہتے ہیں۔ یہ بیماری انفلوئنزا کی ایک شکل تھی۔ 1918 اور 1920 کے دوران دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے اس مرض نے 50 لاکھ افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔ یہ وبا یورپ، ایشیا امریکا، اور افریقہ تک پھیل گئی تھی۔ اسی طرح سوائن فلو، ایشیا فلو کے علاوہ متعدد وائرس ایسے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مہلک امراض کی فہرست الگ ہے جو کسی نہ کسی صورت میں دنیا بھر میں انسانوں کے لیے خطرہ ہیں۔

وبائی زکام پھیلنے والی عام بیماری ہے، انفلوائنزا وائرس ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور ناک، گلے اور پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ اور چونکہ اس کاوائرس کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے اس لئے ایک فرد سے دوسرے میں باآسانی منتقل ہوجاتا ہے۔ اس بیماری کی نشانیوں میں بہتی ہوئی ناک، جسم اور گلے میں شدید درد اور بخار شامل ہیں، اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے اچھی غذا لینا چاہیے تاکہ جسم کی قوت مدافعت زیادہ مضبوط ہو اور جو اس وائرس کو ختم کرسکے۔

اج 21 صدی میں پھر سے دنیا کو وبائی مرض کی کاری ضرب کا سامنا ہے جسے کورونا وائرس COVID۔ 19 ”کہتے ہیں جو چین کے شہر وْوہان سے نمودار ہوا لیکن پتہ نہیں شروع کہا سے ہوا۔ اس نے قریب ساری دنیا میں 209 سے زائد ممالک کو اپنی جکڑ میں لے چکا ہے۔ سعودی عرب سمیت متعددممالک نے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے زائرین ومسافرین کی آمد پر روک بھی لگادی ہے۔ اس وقت دنیا میں بیشتر ممالک نے تجارتی و معاشرتی طور سے ایک دوسرے سے تعلقات کو بالکل ختم کیا ہوا ہے

متاثرہ شخص کو کھانسی یا چھینک اتی ہے تو اس کے اطراف میں  وائرس بکھر سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ہمیشہ سے صابن سے اچھی طرح ہاتھوں کو دھونے پر زور دیتا رہا ہے۔ ڈبلیو۔ ایچ۔ او نے اکیسویں صدی کے وبائی وائرس کے بارے میں کہا ہے کہ کورونا کے مریضوں میں شرح اموات صرف دو سے پانچ فی صد رہی ہے۔ وبائی مرض کا زیادہ اثر 60 سال یا اوپری عمر کے افراد یا ان لوگوں میں ہورہا ہیں جن کی صحت اچھی نہیں یا ان کے پھیپھڑے متاثر یا کمزور ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے تمام دنیا کے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا کے مریضوں کے لیے بڑی تعداد میں وینٹی لیٹرز رکھیں اور اکسیجن کی دست یابی کو ممکن بنائیں۔ یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ آور ہوکر ہلاکت کی وجہ بنتا ہے۔

اس بیماری کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ابتداء میں سردی، زکام، بخار، کھانسی یا سانس لینے میں تکلیف کا احساس ہوتا ہے، مگر جب یہ بیماری مریض کو پورے طریقے سے اپنے گرفت میں لے لیتی ہے تو وہ شخص نمونیا اور تنفس میں شدید دقت سے دوچار ہوجاتا ہے بعدازاں گردے فیل ہونے سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

شریعت نے ا حتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیماری اور شفاء اللہ کے قبضہء قدرت میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرماتاہے، اللہ تعالی نے ہر بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی نازل فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے : ”اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دوا نازل کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی نے معلوم کر لی اور کسی نے نہ کی۔

حدیث نبوی میں ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرض والے علاقہ میں موجود لوگوں یا مریض کے صحت مند لوگوں سے ملنے کے بعد ان کو بھی متاثر کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اورکورونا COVID۔ 19 میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مریض کو خود مرض کی خبر 4سے 41 روز کے درمیان میں ہوتی ہے تب تک وہ ان گنت لوگوں سے ملاقات کرکے ان کو متاثر کرچکا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وبائی امراض کے پھیلے ہوئے علاقو ں میں جانے سے منع کیا گیا۔ اج جو بہت سے ملکوں میں (lock down) لاک ڈاون کیا گیا ہے کہ کوئی دوسرے ملکوں سے نہ ائے اور اس ملک کا کوئی باہر نہ جائے تو درحقیقت اسلام کا ہی نظریہ ہے جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے لوگوں کے سامنے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے پیش کیا تھا اگر حالات اس قدر خراب ہوجائیں اوروبائی امراض اس قدر پھیل جائے تو لاک ڈوان کیا جاسکتا ہے یہ اسلام کی تعلیمات کے عین موافق ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی ملک کورونا وائرس کے حوالے سے لگائی گئی پابندیاں ہٹانے میں جلدی نہ کرے۔ میڈیا بریفنگ میں ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ایچ اوٹیڈروس ایڈانام کا کہنا تھا کہ پابندیاں جلد اٹھانے سیکورونا دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے اور اس کے معاشی اثرات بھی مزید طویل ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے ہدایت کی ہے کہ غریب گھرانوں میں نقد رقم کی منتقلی کو یقینی بنایا جائے۔ خاص طور پر مہاجرین، بے گھر افراد اور تارکین وطن کی حفاظت کے لئے ضروری ہے

اچھی طرح صابن سے دھوئیں۔ ناخنوں کو صاف اور بالوں کو کھانے سے دور رکھیں۔ خوف اور دہشت میں انے کی ضرورت نہیں ہے۔ خوف و دہشت سے بڑاکوئی وائرس نہیں ہے۔ بہت سے لوگ جو اس میں بیماری میں مبتلا نہیں ہیں لیکن خوف نے اس پر اس قدر دبیز چادر تان لی ہے کہ وہ کرونا سے زائد مہلک بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ بعض مرتبہ نفسیاتی خوف ایک مہلک بیماری بن جاتا ہے

”تم اپنے اوپر کالے دانوں کو لازم کر لو کہ ان میں موت کے علاوہ ہر بیماری سے شفاء (پوشیدہ) ہے۔ “ (ابن ماجہ) ۔ بیماریوں اور وباؤں سے حفاظت کے لیے روزانہ کم ازکم پانچ مرتبہ وضو کرنا، سونے قبل ضروریات سے فراغت حاصل کرنا، جنسی عمل کے بعد لازماً غسل کرنا، بالوں او ر ناخنوں کی تراش خراش کرنا، منہ، ناک اور کان کی صفائی کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، کھانے سے پہلے اور بعدمیں ہاتھ دھونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہزاروں سال سے ہمارے دین کا لازمی حصہ ہیں۔ اپنے گناہوں کی معافی طلب کرکے اس عذاب سے نجات کی دعا کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments