کراچی میں نمازیوں کا خاتون ایس ایچ او پر حملہ اور سزا کے امکانات


سندھ حکومت نے لاک ڈاٶن کو مزید سخت کرنے کے لئے جمعہ کے روز دوپہر بارہ بجے سے لے کر سہ پہر تین بجے تک مکمل شٹر ڈاٶن اور پہیہ جام کا اعلان کیا، تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو بہتر طریقے سے قابو کیا جاسکے۔ لیکن دیگر خلاف ورزیوں کی طرح اس عمل کا رد عمل دوسرے ہی جمعے شروع ہوا، اس جمعے سے پہلے جمعے کو بھی نماز جمعہ کے دوران کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں نمازیوں نے پولیس موبائل پر ہلہ بول دیا تھا اور یہ منظر دیکھا گیا بلکہ میڈیا کی توسط سے شور شرابا بھی سنا گیا، اگلے دن یہ خبر شائع ہوئی کہ ہلہ بولنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے مطابق ایف۔ آئی۔ آر درج کرلی گئی ہے اور بالکل اسی طرح اب اس دوسرے واقعیے کا مقدمہ بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے مطابق قائم کرلیا گیا ہے۔

اب بطور وکیل جو بات میں زیر بحث لانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ جو درج بالا مقدمے قائم کیے گئے یہ قانوناً درست ہیں قطع نظر اس کے کہ اس واقعے کی دیگر پہلوٶں کو بھی اس بحث کے ساتھ نتھی کیا جائے ان کو فی الحال ایک لخت کرکے صرف اور صرف قانونی نقطے کو مد نظر رګھ آگے بڑھتے ہیں۔

اول یہ کہ کیا نمازیوں کا یہ عمل انسداد دہشتگردی ایکٹ کے زومرے میں آتا ہے؟
دوم۔ اس خلاف ورزی پر کون سا قانون لاگو ہوتا ہے؟
سوم۔ اگر دفعہ 144 کی خلاف ورزی ہو تو کون سی دفعہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف استعمال میں لائی جا سکتی ہے؟

پہلے سوال کا جواب نفی میں ہے، اور وہ اس لئئے کہ انسداد دہشت گردی کا قانون نمازیوں کے اس عمل پر لاگو نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سیکشن سکس دہشت گردی ایکٹ اس وخت ایپلیکیبل ہوتا ہے جہاں ملزمان اسلحہ کے زور پر کسی غیر قانونی عمل کے ساتھ ساتھ لوگوں میں خوف و ہراس بھی پھیلائیں، جبکہ نہ تو اس عمل کے دوران نمازیوں نے نہ تو اسلحے کا استعمال کیا اور نہ ان کے اس عمل سے لوگوں میں دہشت گردانہ خوف و ہراس پھیلا لہذا میرے تجزیے کے مطابق یہاں دہشت گردی ایکٹ کا نفاذ غیر ضروری اور غیر قانونی ہے۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس عمل پہ سندھ ساٶنڈ سسٹم (ریگولیشن ) ایکٹ 2015 کے سیکشن 5 اور 6 ایپلیکیبل ہوں گے۔ جس کی سزا چھ مہینے اور پچیس ہزار روپے جرمانہ ہیں۔

اس کے علاوہ دفعہ 353 پی پی سی بھی لگ سکتا ہے، جس کی سزا تین سال ہے اور قابل ضمانت بھی ہے۔ اور یہ اس لئے لگتا ہے کہ یہ دفعہ کار سرکار میں مداخلت کا ہے جو اکثر پولیس مقابلے کے لئے بھی درج کیا جاتا ہے، تو اس دفعہ کے اندراج سے پولیس پر حملے کی بات بھی کور ہوجائے گی۔

جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے تو دفعہ 144 کی خلاف ورزی سے دفعہ 188 پی پی سی لگتا ہے۔ یہ دفعہ پہلے قابل ضمانت تھی لیکن اب ناقابل ضمانت تو ہے، لیکن پروسیجرلی پانچ سے دس ہزار کے مچلکے کے عوض ملزمان کی ضمانت ہوجاتی ہے۔

اس پورے بحث کا مطلب یہ ہے کہ ملزم یا ملزمان کے خلاف بڑی بڑی دفعات کے اندراج سے کیسز عدالتوں میں ثابت نہیں کیے جاسکتے بلکہ وہ دفعات ثابت کیے جاتے ہیں جو بھلے چھوٹے اور کم سزاٶں کے حامل ہوں لیکن ریلونٹ یا اوفنس سے متعلقہ ہوں۔ ورنہ میرا بیس سالہ وکالت کا تجربہ گواہ اور شاھد ہے کہ اکثر ملزمان غلط تفتیش اور غیر متعلقہ دفعات کے اندراج سے چھوٹتے ہیں نہ کہ عدالتوں کی مرسی یا ڈیفنس کونسل کی اچھی تیاری سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments