کورونا وائرس سے انسانوں کے تحفظ اور خوراک کی ترسیل کا روٹ میپ


کورونا وائرس نے دنیا بھر کے انسانوں کو غیر معینہ مدت کے لئے اپنے قبضے میں کر رکھا ہے جس کے لئے دنیا بھر کی ریاستیں اپنے شہریوں کو وبا سے بچا کر زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ دنیا بھر کی تمام ریاستیں انسانوں کو کورونا وائرس سے بچا کر خوارک کی فراہمی گھروں میں قید انسانوں تک پہنچانے کے ممکن اقدامات کر رہی ہیں۔

دینا کی ترقی پذیر ریاست ”پاکستان“ بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہی ہے۔ اس وقت ریاست کا انتظام انصاف پسند سیاسی جماعت کا صادق اورامین کارکن بطور وزیر اعظم چلا رہا ہے اور اپنی صلاحیت اور قابلیت کے پیش نظر تمام ممکن اور بہترین اقدامات کر رہا ہے۔ میں بطور شہری، ووٹر، انصاف پسند سیاسی جماعت کے الیکشن منشور سے متاثر اور اب تک بہت اچھا بہت اچھا کہنے والا، ریاست میں آنے والی تبدیلیوں اور ترقیوں کا منتظر چند ایک درج ذیل گزارشات جناب محترم وزیراعظم پاکستان کے گوش گوار کرنا چاہتا ہوں کہ آئیں کوروناوائرس سے لڑنے کے لئے اور شہریوں کو زندہ رکھنے کی خاطر خوراک کی ترسیل کو کچھ یوں ممکن بناتے ہیں :

الف) ملک میں گزشتہ ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخاب کے نتیجہ میں ”اول“ آنے والے نمائندگان کو ”پبلک ہیلتھ ایمرجنسی“ کے تحت نوے دن کی محدود مدت کے لئے بطور ایڈمنسٹریٹرز اور ”سیکنڈ“ آنے والے نمائندگان کو معاونین ایڈمنسٹریٹرز نوٹیفیکیشن کیا جائے۔

اس عمل کے تحت ایک یونین کونسل میں بغیر یونیفارم بنائے، بغیر ضرورت رضاکار کے اشتہارات چلائے 20 (بیس) افراد انسانوں کی خدمت کے لئے دستیاب ہو جائیں گے۔

ب) یونین کونسل میں موجود یونین کونسل آفس کے سیکریٹری کو کونسل افسر کا درجہ محدود مدت کے لئے ”پبلک ہیلتھ ایمرجنسی“ کے تحت دیا جائے۔

اس عمل سے کونسل افسر اپنے موجودہ ملازمین کی مدد سے مقامی ایڈمنسٹریٹرز کی موجودگی میں یونین کونسل کا ڈیٹا اکٹھا کرے گا کہ یونین کونسل میں کسانوں کی تعداد کتنی ہے، مزدوروں کی تعداد کتنی ہے، ملازم پیشہ افراد کتنے ہیں، روز دیہاڑی کرکے گھر کا چولہا چلانے ولے مزدور کتنے ہیں، گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد کتنی ہے، غرض کہ یونین کونسل کی باونڈری کے اندر بسنے والے تمام انسانوں کو بلا امتیاز (رنگ، نسل، مذہب اور ذات پات) کے گنا جائے اور پھر ڈیٹا کو انفارمیشن بنا کر متعلقہ ”واڑ“ کے ایڈمنسٹریٹرز کو دے دیا جائے تاکہ نگرانی اور ترسیل انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ممکن بنائی جا سکے۔

ج) یونین کونسل میں موجود تمام سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ کا ڈیٹا کونسل افسر مرتب کرے اور تعلیم و تدریس کا انتظام بذریعہ ”فاصلاتی نظام“ ممکن بنانے کے لئے مقامی ایڈمنسٹریٹرز کا سہارا لیا جائے۔

اس عمل میں اساتذہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر متعلقہ مضمون یا کلاس کے اسباق کی سرگرمیاں مرتب کریں گے اور اپنے اسکول کے ہیڈ تک پہنچا دیں گے اور ہیڈ مقامی کونسل افسر تک اور کونسل افسر مقامی ایڈمنسٹریٹرز کی معاونت سے متعلقہ اسکول میں زیر تعلیم بچوں کے گھروں میں اور یوں ”فاصلاتی نظام“ کے تحت تعلیم و تدریس کا عمل کورونا کی نظر ہونے سے بچ جائے گا اور بچے تعلیم سے دوری نہیں بنا سکیں گے۔

د ) یونین کونسل میں موجود ”بنیادی مرکز صحت“ کو ابتدائی قرنطینہ سنٹر کا درجہ دیا جائے اور صحت کی بحالی کی تمام تر ادویات سنٹرز تک پہنچائی جائیں تاکہ یونین کونسل میں موجود انسانوں کو بروقت طبی سہولت میسر آسکے۔

اس عمل سے یونین کونسل کے بسنے والے تمام تر انسان اعتماد میں رہیں گے کہ ہمیں طبی سہولت لینے کے لئے کہیں دور دراز شہری علاقے میں قائم سنٹرز پر جاکر دھکے نہیں کھانے ہوں گے بلکہ ہمارے قریبی ”بنیادی مرکز صحت“ پر ہی ہمیں طبی سہولت میسر ہو گی۔

ر) یونین کونسل میں موجود نمبردار، چوکیدار، پٹواری، نکاح رجسٹرار، امام مساجد اور پادری و پنڈت صاحبان کو عوامی شعور عام کرنے کی غرض سے کونسل افسر کے ماتحت کیا جائے۔

اس عمل سے کونسل افسر یونین کونسل میں بسنے والے تمام انسانوں میں امن و سلامتی اور معلومات عامہ کے فروغ کے لئے اہم اقدامات کر سکے گا۔

کونسل افسر مقامی ڈیٹا کی بنیاد پر خوراک کی انصاف پر مبنی تقسیم و ترسیل کو احسن انداز میں ممکن بنا سکے گا۔

ڑ) متعلقہ ”ممبر صوبائی اسمبلی ایم پی اے اور ممبر قومی اسمبلی ایم این اے صاحبان“ پبلک ہیلتھ ایمرجنسی ”کے تحت اپنے اپنے حلقے کی تمام تر یونین کونسلزکے کونسل ایڈمنسٹریٹرز اور کونسل افسر سے مضبوط رابطہ کاری اپنائے۔

اس عمل سے ممبر صوبائی اسمبلی ایم پی اے اور ممبر قومی اسمبلی ایم این اے صاحبان یونین کونسل کی سطح پر وسائل کی ترسیل اور درپیش مسائل کے حل کے لئے صوبائی اور قومی حکومتوں سے اقدامات کی پیش رفت کو یقینی بنائیں گے۔

اس عمل سے نمائندگان اپنے حلقے کی تمام تر واڈز کے مسائل اور وسائل سے بخوبی آگاہ ہو جائیں گے اور یوں پالیسی یا قانون بنانے میں آسانی بھی ہو گی اور پالیسی اور قانون عوامی بنے گا اور ہمیں بیرونی تجربہ کار بھی نہیں بلانے ہوں گے۔

ز) یونین کونسل میں موجود تمام تر ریٹائرڈ ملازمین (جو 20 بیس سال سروس کربعدریٹائرڈ ہوئے ) کو ”کورونا ایمرجنسی کے تحت متعلقہ یونین کونسل جس میں وہ رہائش پذیر ہوں واپس کام پر بلایا جائے۔

اس عمل سے یونین کونسل ایڈمنسٹریٹرز، کونسل افسر، اسکول ہیڈ، بنیادی مرکز صحت، معلومات عامہ کے فروغ، خوراک کی ترسیل کے بندوبست اور دیگر ضروری اقدامات کی مانیٹرنگ اور رپورٹنگ کے لئے ریٹائرڈ ملازمین سب سے موزوں ہوں گے۔

اس عمل سے ایمرجنسی میں کوتاہی برتنے والے اور وسائل کی یونین کونسل کی سطح پر تقسیم و ترسیل میں بے ضابطگیوں کا احتسابی عمل آسان ہو گا۔

س) یونین کونسل کی سطح پر سماجی و سیاسی کارکنان، طلبہ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی خدمات کو بطور رضاکار ”ٹائیگرز“ کونسل افسر کی ٹیم یا مانیٹرنگ ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔

اس عمل سے یونین کونسل میں موجود ریاستی مشینری کو تقویت ملے گی اور کام بخوبی سر انجام دینے میں ٹیم کے افراد وافر ہوں گے۔

جناب عالیٰ! میرے نزدیک درج بالا اقدامات اور حکمت عملی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے اور یوں ریاست کے ایک ایک انسان تک پہنچنا ممکن اور آسان ہو سکتا ہے۔ میری حکام بالا سے اپیل ہے کہ ریاست پاکستان میں بسنے والے تمام انسانوں کو یکساں نظر سے دیکھا جائے اس موضی مرض سے چھٹکارہ صرف اور صرف باہمی اتفاق سے ہی ممکن ہے۔

آئیں عہد کریں کہ ہم ایک قوم بن کر اس مشکل حالات میں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر مضبوط چٹان ثابت ہوں اور دنیا کو دیکھا دیں کہ کورونا تو کیا ہم کسی بھی وبا اور حالات سے مقابلے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments