آئین سے غداری اور ملک سے بغاوت کیا ہوتی ہے؟


یوں تو پاکستان میں آئین سے غدار ی کرنے والوں اور قوم فروشوں کی گنتی کی جائے تو شاید یہ تعداد اس کی آبادی سے بھی زیادہ نکل آئے ۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ایسا رجحان ملک میں فروغ پاچکا ہے کہ ہر اختلاف رائے کرنے والے کو ’غدار‘ کے نام سے نوازا جانا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اس صورت حال میں آئین، قانون، مجاز اتھارٹی کا حکم یا حکومت کی عمل داری بے معنی الفاظ ہوچکے ہیں۔ ملک میں صرف طاقت کو بالادست ’قانون‘ کی حیثیت حاصل ہے۔
یہ طریقہ ملک کی بیوروکریسی اور عسکری قیادت نے نظم حکومت کو اپنے زیر نگیں لانے کے لئے شروع کیا تھا تاہم اس کے تسلسل اور ایک کے بعد دوسری ہزیمت کے باوجود سول بالادستی کی ضرورت و اہمیت سے انکار نے قومی سطح پر ایک ایسا مزاج پیدا کردیا ہے کہ کوئی کسی قانون کو تسلیم کرنے اور کسی قاعدے کے مطابق چلنے پر آمادہ نہیں ہے۔ قانون، جسے ملکی انتظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے، اب طاقت ور کے ہاتھ میں مٹی کے کھلونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ فوج اپنی عسکری قوت کی بنیاد پر اپنے فیصلوں کو تسلیم کروانے پر اصرار کرتی ہے تو عدلیہ کے منصف اپنے عہدے کے بل پر مصر ہوتے ہیں کہ ان کے منہ سے نکلا ہؤا ہر حرف قانون اور حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی مزاج کا شاخسانہ ہے کہ عدالتی فیصلوں میں منتخب وزیر اعظم کو مافیا کاسرغنہ قرار دینے کو معیوب یا قابل شرم طریقہ نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ عدالت کا کام عوام کے حق انتخاب کی حفاظت کرنا ہے، اس پر ڈاکہ ڈالنا نہیں ہے۔
جب بدعنوانی نعرہ بن جائے اور ملک میں قانون و آئین کی پاسبانی کے ذمہ دار کسی الزام کو ثبوت و شواہد کی میزان پر تول کر انصاف کرنے سے گریز کرنے لگیں اور صرف ایک تاثر، عذر یا قیاس کی بنیاد پر منتخب وزیر اعظم کو ’بدعنوان اور بددیانت‘ قرار دیتے ہوئے آئین کی مشکوک اور غیر واضح شقات کے تحت نااہل قرار دینے کی روایت قائم کی جائے۔ اور اسے عین انصاف اور طاقت ور کے سامنے کلمہ حق کہنے کا نام دیا جائے تو یہ مزاج دراصل کسی بھی ملک میں لاقانونیت کو عام کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کسی بھی گروہ، عوام یا قوم کی کمزوری چونکہ کسی بحران کے دوران نمایاں ہوجاتی ہے لہذا کورو ناوائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران میں پاکستانی قوم اور اس کے مختلف طبقات کے رویوں میں یکسوئی کی بجائے انتشار، اطاعت شعاری کی بجائے بغاوت اور قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے حجت و عذر تراشنے کا ماحول سامنے آیا ہے۔ قانون کو نظر انداز کرنے کا رجحان اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اس کا اظہار کمرہ عدالت، علما کی مجلس اور گلیوں میں چلنے پھرنے والے لوگوں کے طرز عمل سے یکساں طور سے مترشح ہوتا ہے۔
منصف کسی دلیل یا حجت کے بغیر وزیر اعظم کے مشیروں پر انگشت نمائی کو معیوب یا غیر قانونی نہیں سمجھتا، عالم مسلمہ حکومتی حکم کو خود پر منطبق نہیں مانتا اور عام شہری حکومت کے اعلان کے مطابق مسجد میں جمع ہونے سے روکنے والے پولیس افسر پر ہاتھ اٹھانا غلط نہیں سمجھتا۔ کیسے افسوس کا مقام ہے کہ ایسے میں یہ دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ قانون پر عمل کی اپیل ایک خاتون پولیس افسر کررہی ہے۔ پیدا کرنے والے کے سامنے لبیک پکارنے والے اسی اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے جس کے لئے سجدہ ریز ہونے کے لئے وہ اتنے بیتاب ہیں کہ نہ بیماری سے ’ڈرتے‘ ہیں اور نہ قانون اور مجاز اتھارٹی کا حکم انہیں خوفزدہ کرتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں پتھر اور چہروں پر وحشت ایک ایسے معاشرے کی تصویر نقش کرتی ہے جہاں قانون شکنی ،طاقت ور ہونے کی علامت ، بالادستی کا اظہاریہ اور تسلیم شدہ اصول کی حیثیت اختیار کرچکی ہو۔
جب اس لاقانونیت کو ’احترام‘ دینا سیاسی مجبوری بن جائے تو اس تصویر کو راسخ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اور قانون توڑنے کو باعث فخر سمجھنا ہی مسلمہ طریقہ مانا جاتا ہے۔ گزشتہ روز ملک کے متعدد علما نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ’لاک ڈاؤن کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوتا۔ اب نماز پنجگانہ و جمعہ کے اجتماعات کا اہتمام بھی ہوگا اور رمضان المبارک کے دوران تراویح اور اعتکاف کا انتظام بھی کیا جائے گا‘۔ ملک میں قانونی حکومت کے احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھے ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ اسی سرکار کے وزیر مذہبی امور نے اس اجتماع میں شامل متعدد علما سے رابطہ کیا اور انہیں 18 اپریل کو ایک اہم اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ تاکہ مساجد میں نماز کی ادائیگی کے حوالے سے ’اتفاق رائے‘ پیدا کیا جاسکے۔ ایک روز پہلے وزیر مذہبی امور نور الحق قادری یہ بتا چکے ہیں کہ 18 اپریل کو چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے وزرائے اعلیٰ مل کر رمضان المبارک کے دوران مساجد میں عبادات کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔ اب وہی وزیر علمائے دین کو اس اجلاس میں یا اس اجلاس سے پہلے ’خصوصی مشاورت‘ کے لئے طلب کررہے ہیں تاکہ ان کے مشوروں کی روشنی میں صوبوں اور مرکز کی حکومتیں اپنے احکامات میں رد و بدل کرلیں۔
غنڈہ راج کی اس سے بدتر مثال تلاش کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اسے غنڈہ راج کی بجائے ملاّ راج کہنا بہتر ہوگا۔ غنڈہ کتنا ہی طاقت ور ہوجائے، وہ اسی وقت تک قانون کو مسترد کرتا ہے جب تک قانون کے رکھوالے اپنے مفادات کے لئے اسے ایسا کرنے کی اجازت دیں۔ پاکستان کے ملاّ کو ایسی کسی سرپرستی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ اس نے منبر رسولﷺ سے دین کا کاروبار کرکے عوام کے دلوں میں اتنا غبار بھر دیا ہے کہ کوئی حکومت ان کے سامنے پر مارنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ وفاقی وزیر سے رابطہ کے بارے میں مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمان کے ارشادات صورت حال کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کا فرمانا ہے کہ ’ مذہبی امور کے وفاقی وزیر نور الحق قادری نے ان سے رابطہ کرکے 18 اپریل کے اجلاس میں مدعو کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے علما کے مطالبوں کو ’متوازن‘ قرار دیا ہے‘۔ مفتی عثمانی نے واضح کیاکہ مساجد بند نہیں ہوں گی اور لاک ڈاؤن کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوسکتا۔ اس بارے میں مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ ’علما ملک میں انارکی پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ لیکن حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران مساجد جانے والے لوگوں کو گرفتار کرکے غلط کام کیا ہے۔ فیصلے عجلت میں کرنے کی بجائے دلیل کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ ہم مناسب تجاویز سننے کے لئے تیار ہیں لیکن اپنے اصولوں پر ڈٹے رہیں گے‘۔
ملک کے ملاّؤں کا عزم اور اعلان دوٹوک ہے۔ انہوں نے مساجد کھولنے کا اعلان کیا ہے اور وہ اس پر قائم ہیں۔ اب حکومت سراسیمہ و خستہ حال ہے۔ ایسے میں علما کے مطالبوں کو ’متوازن اور جائز‘ قرار دے کر قانون یا حکم کو تبدیل کرلے تو اس میں ہی اس کی بھلائی ہے ورنہ ملک کے علمائے کرام تو فیصلہ صادر کرچکے۔ حیرت ہے کہ وفاقی وزیر ایک ایسا اجلاس منعقد کرنے پر اصرار کررہے ہیں اور اسے اپنی اور حکومت کی کامیابی سمجھ رہے ہیں جس کی شرائط کراچی کے دو ملاّؤں نے پہلے سے واضح کردی ہیں۔ حکومت مساجد کھولنے کی بات مان لے تو ہم حکومت کے تابعدار ہیں ۔ اگر اس سے انکار کیا گیا تو ہم اپنے ’اصولوں‘ پر سودے بازی نہیں کرسکتے۔ قانون کے ساتھ ساتھ دین کو یرغمال بنانے کا ایسا طرفہ تماشہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہوگا۔
دو روز پہلے ملک کے چیف جسٹس نے کورونا بحران پر حکومتوں کے اقدامات کا جائزہ لینے کے لئے انسانی حقوق کی حفاظت کے مقصد سے ملنے والے عدالتی اختیار یعنی شق 184(3) جسے عرف عام میں سوموٹو اختیار کہا جاتا ہے، کے تحت تمام صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائیندوں کو جوابدہی کے لئے طلب کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے سندھ میں غریبوں میں راشن کی تقسیم میں خرد برد کا شبہ ظاہر کرنے کے علاوہ لاک ڈاؤن کی حکمت پر بھی سوال اٹھائے ۔ البتہ چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کی دیانت پر سوال اٹھانا بھی مناسب خیال کیا ۔ ملک کے منصف اعلیٰ کے اس ناقدانہ اظہار خیال کے بعد اب ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اسی شق 184(3) کے تحت چند وکلا نے ایک پٹیشن دائر کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی کی تعیناتی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے، نہ صرف انہیں عہدوں سے علیحدہ کرنے کی استدعا کی جائے گی بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا جائے گا کہ ان تمام لوگوں سے گزشتہ مدت کے دوران وصول کی ہوئی تنخواہیں اور دیگر مراعات کا معاوضہ وصول کیا جائے۔
کون جانے اس پٹیشن کا کیا اور کب فیصلہ ہوگا لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر سپریم کورٹ اس درخواست کو سماعت کے لئے منظور کرلیتی ہے تو حکومت کے نصف کے قریب ارکان منصبی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے عدالت میں حاضری لگوایا کریں گے۔ ملکی اداروں کا یہ طریقہ ماضی کی روایات کے عین مطابق ہوگا۔ ایسے میں کس کے پاس یہ غور کرنے کا وقت ہو گا اور کون یہ فیصلہ کرے گا کہ قانون کیا بیچتا ہے اور ملک و آئین سے غداری کیا ہوتی ہے۔ جس ملک میں سب ’غدار‘ ہوں وہاں ملک و آئین سے بغاوت کی توجیہ کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments