شربت گلہ کی آنکھیں کیا کہہ رہی ہیں؟


\"barkat-kakar\"گذشتہ دو ہفتوں سے مجبوری، بے بسی، خوف، وحشت اور غربت کی مرقع تصویر ایک بار پھر منظر عام پر آنے لگی ہے۔ سرد جنگ کی جنگی اور سیاسی معیشت کا استعارہ ایک بار پھر گردش کرنے لگا ہے۔ پتہ چلا کہ شربت گلہ پھر محصور ہے۔ آغاز سے انجام تک، ان کی دیومالائی آنکھیں ہی ہیں جس کی وجہ سے وہ ہر بار بری طرح سے پھنستی ہیں۔

پہلی دفعہ جب وہ بارہ سال کی تھیں سٹیو مک کیوری نامی فوٹوگرافر نے ان کی مسحور کن اور حیرت کناں نیلی آنکھوں کی شوٹنگ کی تھی۔ یہ تصویر سال 1985 میں نیشنل جیوگرافک نامی رسالے کی سر ورق کے طور پر چھاپی گئی۔ شربت گلہ کی خوفزدہ آنکھیں فوٹوگرافر اور ان کے رسالے کے لئے اتنی دولت اور نیک نامی کا باعث ہو گی اس کا شاید کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ تصویر میں آخر تھا کیا؟ ایک بارہ سالہ مفلوک الحال لڑکی۔ افغان لڑکی کے سپاٹ چہرے پر گھورتی ہوئی نیلی آنکھیں، پھٹی پُرانی سُرخ میلی چادر اور اس سے جھانکتی ہوئی سبز قمیص۔ اس تصویر کے چھپنے کے بعد فوٹوگرافر اور رسالے کے اچھے دن تو ویسے بھی شروع ہو گئے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ کیمرہ بھی بنی اسرائیل کی گائے کی طرح مشہور ہونے لگا جس نے اس تاریخی لمحے کو قید کیا تھا۔ جنگ میں والدین اور پیاروں کو ہارنے والی خوفزدہ پناہ گزین لڑکی زندگی میں پہلی دفعہ کیمرے کی آنکھ میں جھانک رہی تھی۔ لہٰذا سب نے اپنے اپنے حصے کی نیک نامی اور انعام بٹورا۔ تصویر کی پزیرائی میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ شوبز کی دنیا میں بھی ان کی تصویر بولنے لگی۔

سرد جنگ کے تناظر میں اس تصویر کی اپنی سیاسی معیشت تھی۔ سرمایہ دارانہ بلاک کے اسلحے اور عربوں کی تجوریاں خالی کرانے اور جہادی سگرمیوں کو بڑھاوا دینے میں اسے پروپیگنڈے کے طور پر خوب اُچھالا گیا۔ ادیبوں، شاعروں اور چہرہ شناسوں نے ان کی آنکھیں پڑھنے کے لئے اپنے زائچے استعمال کیے۔ ایسا ہی محسوس ہوتا تھا جیسے کوہ بیستون میں ہخامنشی دور کے خط میخی میں لکھی گئی علامات کو پڑھنے اور ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔

سرد جنگ کے بعد تہی دست شربت گلہ پس منظر میں چلی گئیں۔ شربت گلہ کہاں گئیں، کیا کر رہی ہیں؟ ان کے تعلیمی سلسلے کا کیا بنا؟ غربت کی سطح سے اوپر زندگی بتا رہی ہیں یا نیچے، کیا وہ ابھی تک زندہ بھی ہیں یا جنگ کے اٹھتے ہوئے شعلوں، غربت اور بھوک کے بے رحم جبڑوں تلے مسلی جا چکی ہیں؟ یہ خیال سترہ سال تک کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔

جب 9/11 کا تاریخی واقعہ پیش آیا تو بُش انتظامیہ کو یہ تصویر ایک دفعہ پھر یاد آئی۔ انہوں اسی تصویر کو ایک اور ضرورت کے لئے استعمال کیا۔ اس بار شربت گلہ کی خوفزدہ آنکھیں افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں خواتین کی حقوق کی پامالی کا گلہ کر رہی تھیں۔ طالبان کو مطلق بُرائی اور نئی تہذیب کے لئے خطرہ بتانے والی حقوق نسواں کی تنظیموں نے بھی انہی خوفزدہ آنکھوں کا استعمال کیا۔

\"sharbat-gulla-12\"اِدھر امریکہ اور اتحادیوں نے تخت کابل سے طالبان کا صفایا کیا، افغانستان میں ایک اور طرح کی ہوا چلنے لگی، ہوائی اڈوں پر امریکی جہاز دوڑنے لگے۔ پھر ایک شام کو نیشنل جیوگرافک کے مدیر نے ٹھان لی کہ ہمیں ایک بار پھر کھلبلی مچانی چاہئے۔ نیلی آنکھوں والی شربت گلہ کا ایک بار پھر ڈھنڈورا پیٹنا ہے۔ ان کی آنکھوں کی گہرائی سے کئی دلچسپ کہانیوں جنم لے سکتی ہیں۔ یہ حقیقت جاننے اور چھاپنے میں بھی ایک سرور ہے کہ ذرا دیکھا جائے، کہ جو کہانی سترہ سال پہلے لکھی گئی تھی اس کے کردار زندگی کی بے رحم بساط پر آگے بڑھے ہیں بھی کہ نہیں؟ یہ دیکھنا چاہئے کہ جب وہ صرف بارہ سال کی تھی تو اس کی آنکھوں میں جنگ، خوف اور خون کے انگارے تھے، اب دیکھتے ہیں اس فصل لالہ کاری نے کیا رنگ نکالے ہوں گے؟ اس طرح سال 2002 میں رسالے کی ٹیم مک کوری کو ساتھ لے کر آئی اور پھر ناصر باغ ریفیوجی کیمپ میں نیلی آنکھوں والی افغان پناہ گزیں لڑکی کی تلاش شروع ہوئی۔ ایک امیر یورپی مجلے کی ٹیم جب پناہ گزینوں کے کیمپ پہنچ جائے تو کچھ لمحے کے لئے مکینوں کو اپنی حالت زار بدلنے کی امید جاگ جاتی ہے۔ کبھی کبھار آنے والے ساتھ چھوٹے موٹے کام کے لئے بھی یہاں کے مکینوں کو ساتھ لگا لیتے ہیں۔ معروف صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کی خدمات لیتے ہوئے ناصرباغ کیمپ میں خوب چھان بین کی گئی، کئی عورتیں دیکھی گئیں، آخر کار ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ شربت گلہ کو جانتا ہے۔ فوراََ زادِ راہ باندھی اور پاک افغان بارڈر کے اُس پار تورا بورا کے پہاڑوں سے شربت گلہ کو شوہر اور تین بیٹیوں سمیت زندہ سلامت لے آیا۔ ان کا ملنا تھا کہ میڈیا کی دنیا میں ایک اور بھونچال آگیا، سنسنی خیز انکشافات ہونے لگے۔ ان کی زندگی کے سترہ سال کیسے بیتے؟ دنیا کہاں سے کہاں پہنچی، لیکن تیس سالہ شربت گلہ کی زندگی میں کوئی قابل غور تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ آنکھیں ویسی کی ویسی حیرت کناں، خوفزدہ اور اپنی خوبصورتی سے بے زار و بیگانہ۔ وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کی تصویر ایک شہرہ آفاق تاریخی علامت بنی ہے، جس نے عالمی سیاست اور جنگی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

اب کی بار وہ ایک غریب گھریلو عورت کے طور پر زندگی گذار رہی تھیں، دمہ کی مریض تھیں۔ غربت، بے بسی اور عدم تحفظ ان کی دہلیز پر بن بلائے مہمانوں کے طرح وجود رکھتے تھے۔ البتہ شوہر کا سایہ اور تین خوبصورت بیٹیوں کا سہارا ان کی زندگی میں امید دلانے کے لئے کافی تھے۔

میڈیا چینلوں نے اس سٹوری کو بریک کیا، اس پر ڈاکیومینٹری بنائی گئی، تصاویر لی گئیں اور ایک عدد انٹرویو بھی لیا گیا اور پھر میڈیا کے دوکانداروں کی چاندی ہو گئی۔ شربت گلہ ایک دفعہ پھر پس منظر میں چلی گئی۔

پچلے ماہ اکتوبر کی 26 تاریخ کو شہرہ آفاق نیلی آنکھوں والی افغان مونالیزا کی تصویر تیسری دفعہ منظر عام پر آئی۔ ایف آئی اے والوں نے پشاور میں انہیں جعلی شناختی کارڈ بنانے کے جرم میں دھر لیا اور اب کی بار وہ ملزمہ ہیں، جیل میں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بیوہ ہیں، تین نوجوان بیٹیوں کی ماں ہیں اور دمہ کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔

ریاستی اہلکاروں نے کوئی استثنیٰ نہیں برتا، نہ صنف کو خاطر میں رکھا، نہ شہرت کا، اور نہ اس پہلو پر غور ہوا کہ آخر کسی زمانے میں انہوں نے گرم پانیوں کی راہ میں حائل ہو کر اپنے خون کے دریا بہائے تھے۔ روسی بمباری میں والدین کھو جانے کے بعد انہوں نے جس خطے کا رخ کیا تھا وہ ان کے لئے اسلام کا قلعہ تھا۔ شاید یہ ایک تاریخی جبر ہے کہ اپنے پڑوس میں رہنے والوں کے دلوں پر دھاک بٹھانے میں ہم تسکین محسوس کرتے ہیں۔ اگر انہیں باعزت افغان بارڈر چھوڑ دیا جاتا تو یقیناََ خطے میں پاک افغان تعلقات کی سرد مہری کی برف پھگلنا شروع ہو جاتی۔ پر یہاں قومی سلامتی کا سوال سامنے آ جاتا ہے، قاعدے قانون کی رٹ بھی تو لگانی ہے۔ اوپر سے وہ نہ تو امریکن شہری ہے اور نہ ہی سعودی شہزادی جو انسانوں یا بٹیروں کا شکار کر کے باآسانی قانون کے شکنجے سے بچ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments