امریکا کے مسلمان ۔۔۔ تین روز باقی ہیں


\"hannaامریکہ کے الیکشن میں فقط تین دن باقی ہیں۔ چوتھے دن یعنی نومبر 8 بروز منگل، ہلیری اور ٹرمپ سمیت بہت سے (کم) بختوں کا فیصلہ ہو گا۔ یہ الیکشن یوں بھی عجیب نوعیت کا ہے کہ اس میں دلائل کا کوئی کردار نہیں۔ ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی نے جو سیاسی دھینگا مشتی کے جوہر دکھائے ہیں، اخبارات، جریدوں اور صحافیوں سمیت پوری قوم انگشت بدنداں ہے۔ امریکہ کے سیاسی منظر نامے میں بد کردار سیاتدان تو ہمیشہ سے تھے ہی پر اس بار جو برہنہ گفتاری کے نمونے ساری دنیا نے سماعت کیے ہیں، خدا کی پناہ۔

تمھی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

اس الیکشن میں امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں پہ خاص لطف و کرم ہے، جبکہ بیچارے ہسپانوی اور سیہ فام امریکی بھی اس نفرت انگیز الیکشن میں ٹرمپ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم رہتے بھی ایسی ریاست میں ہیں جہاں زیادہ تر لوگ ٹرمپ کے حامی ہیں۔ اس کے پیش نظر خدا ہی ہمارا حامی و ناصر ہو!

میں اگر اپنے گھر کے باہر کھڑے ہو کر اچانک اللہ اکبر کا نعرہ بلند کردوں تو میرے پڑوسی حواس باختہ ہو کر پولیس بلا لیں۔ یہاں مسلمانیت کا جاگنا خطرے سے خالی نہیں۔ چونکہ تمام پڑوسی عیسیٰ کے ماننے والے شدید عیسائی ہیں، یعنی ٹرمپ کے شیدائی ہیں، شبہ ہوا کہ ”تلاش میں ہے پولیس، بار بار گذری ہے“۔ والا معاملہ نہ ہو جائے!

امریکہ کے تمام سابق صدور میں سے ایک بھی ٹرمپ کا حمایتی نہیں، اس کی وجہ ٹرمپ میں سیاسی شعور کا فقدان بتایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق جارج بش سینئر اور جونیئر بھی اس بار ہلیری کو ووٹ دیں گے جو اپنے آپ میں ایک اچنبھے کی بات ہے۔ اس کی وجہ ٹرمپ کے سیاسی منشور سے اختلاف بھی ہو سکتی ہے۔  ویسے، خود ٹرمپ بھی منشور سے اگاہ نہیں ہے۔  البتہ ان کے منشور میں یہ ضرور ہے:

 کروں گا اور بھی پتلی قبائیں نازنینوں کی

مدارس میں رہیں گی چھٹیاں بارہ مہینوں کی

\"Democraticکچھ عرصہ پہلے ہلیری نے ٹرمپ کے حامیوں کے بارے میں رائے دی کہ Basket of deplorables (گندے انڈون کی ٹوکری) ہیں تو اس پس منظر میں یہ سمجھئے کہ ہم اسی نا پسندیدہ ٹوکری کے عین وسط میں ہیں۔ کہیں بھی گاڑی پارک کرتی ہوں تو اگلی گاڑی پہ ٹرمپ کا چسپاں اسٹیکر میرا منہ چڑاتا ہے۔

بچوں کے اسکول میں بھی یہی حال ہے۔ جن اساتذہ کی قابلیت پر بھروسہ کر کے حصول تعلیم کے لیے بچوں کو ان کی تحویل میں دیا، وہ بھی اس ناہنجار کی اندھی تقلید میں مگن ہیں۔ ایک شام ذہانت بھری آنکھوں میں آنسو لیے میرے بیٹے نے مجھ سے سوال کیا، ”ماما اگر ٹرمپ جیت گیا تو کیا ہمیں ملک چھوڑنا ہو گا، ہم کہاں جائیں گے؟“ اس معصوم کا سوال تیر کی طرح چبھا۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ اول تو یہ بدزبان شخص جیتے گا نہیں، اور خدا نخواستہ ایسا ہوا تو ہم اور زیادہ محنت سے کام کریں گے اور تم اور زیادہ محنت سے پڑھائی کرو گے۔ یہ ہمارا ملک ہےاور کوئی ہمیں یہاں سے نہیں نکال سکتا!“۔

قابل فکر بات یہ ہے کے مسلمانوں پہ تشدد کے واقعات میں سرعت سے اضافہ ہوا ہے۔ نائن الیون کے بعد بھی حالات ایسے خراب نہ تھے۔ جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ اس کے پیش نظر مسلم فلاحی اداروں، مساجد آور والنٹیر تنظیموں نے لاکھوں کی تعداد میں نئے مسلمان ووٹر رجسٹر کیے ہیں۔ مجموعی طور پر اس وقت مسلمانوں پر ہیجانی کیفیت طاری ہے۔ الیکشن کے دن خاص طور سے بسوں کا انتظام بھی کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو پولنگ سٹیشن تک پہنچایا جائے۔ سننے میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت ٹرمپ کی گرویدہ ہے۔ جی تو چاہتا ہے ان کا نفسیاتی تجزیہ کرایا جایے، پھر یاد آیا؛

مسلمانوں کے سر سے بوے سلطانی نہیں جاتی

ایک اہم نکتہ یہ کہ مسلمان یہاں اقلیت میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی مسجد کی بے حرمتی کرتا ہے تو پولیس اسے پکڑتی ہے اور عدالت اسے سزا سناتی \"CEDARہے۔ اس کو قومی ہیرو کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ اس کے برعکس جب ہم پاکستان میں اقلیتوں سے کیے جانے والے سلوک کو دیکھتے ہیں تو سخت تکلیف اور دلی ندامت محسوس ہوتی ہے۔ آپ دیکھیے کہ ہلیری نے جناب خضر خان صاحب کو نہ صرف ڈیموکریٹک کنونشن کا حصّہ بنایا بلکہ ان کو اپنی اشتہاری مہم میں بھی شامل رکھا۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ محض سات منٹ میں ان کی پراثر اور جذبات سے لبریز تقریر نے دنیا کو ہلا کے رکھ دیا اور ٹرمپ کے پرخچے اڑا دیے۔ وہ سات منٹ حاصل کنونشن تھے۔ کیپٹن ہمایوں خان کی بہادری اور قربانی کو نظر انداز کرنا یوں بھی مشکل ہے کہ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں مسلمان امریکی ملٹری کا حصّہ ہیں اورساری دنیا میں فخر سے پچاس ستاروں والے جھنڈے کی حفاظت کر رہے ہیں۔

اعداد و شمار کی بات چل نکلی ہے تو یہ بھی جان لیجئیے کہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ میں دس فیصد ڈاکٹر مسلمان ہیں، سمیت میرے سرتاج کے۔

ایک بار ان کے ایک مریض نے جنوبی امریکہ میں بولے جانے والے نہایت ٹھیٹھ لہجے میں دریافت کیا، “ ڈاکٹر محمد علی کیا آپ مسلمان ہیں؟“، یہ غیر متوقع سوال سن کر ان کے دل میں جو خیال گذرا وہ یہ تھا کہ ”محمد علی“ نام کا کونسا حصّہ ایسا ہے جسے آپ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ، ”تمہارا نام کیا ہے بسنتی“ کے مترادف سوال تھا۔

امریکی الیکشن کا حتمی فیصلہ سوئنگ اسٹیٹ پر منحصر رہتا ہے۔ سوئنگ اسٹیٹ یا ٹاس اپ اسٹیٹ وہ ریاست کہلاتی ہے جو الیکشن میں کبھی ایک اور کبھی دوسری پارٹی کا ساتھ دیتی ہے، گویا خالص پاکستانی نظریہ سے دیکھیں تو ”لوٹا ” اسٹیٹ ہوتی ہے۔ لوٹا اور وہ بھی بے پیندے کا۔ ابھی تازہ ترین شوشا ٹرمپ نے چھوڑا ہے کہ خدا\"hillary-clinton\" جانے وہ الیکشن کا نتیجہ قبول کریں گے بھی یا نہیں۔ نیٹ سلور کا کہنا ہے کہ چند سوئنگ ریاستوں میں ہلیری آگے ہے اور کچھ میں پیچھے۔ مجموعی طور پر نہایت دبلی پتلی سبقت ہلیری کو فی الوقت حاصل ہے۔ لہذا؛

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام!

ادھر ایف بی آئی کے جیمز کومی صاحب نے نئی پھلجھڑی چھوڑ دی ہے ای میل سے متعلق۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ آپ کا پرنسپل آپ کو فون کر کے کہے، رزلٹ آ نے والا ہے، اور فون بند کر دے۔ الیکشن کے اتنے قریب ایسی افواہوں سے ایف بی آئی نے ہمیشہ احتراز کیا ہے مگر یہ الیکشن ہے ہی کچھ وکھرا، کچھ سے جدا۔

یعنی ایک بددماغ امیرزادہ، سر پہ سنہری جھاڑی سجائے پھرتا ہےاور ڈنکے کی چوٹ پر اقرار کرتا ہے کہ انکم ٹیکس کے نام پر اس نے ایک کوڑی امریکی حکومت کو نہیں دی، وہ شخص سفید محل کا امیدوار ہے! یوں تو انسان صرف چند سیکنڈ کے لیے اپنی سانس روک سکتا ہے مگر امریکی مسلمان 16 ماہ سے دم سادھے بیٹھے ہیں۔ پرائمری الیکشن، کنونشن، تقاریر، ڈبیٹس اور خدا جانے کیا الم غلم اور اب یہ آخری تین دن بہت طویل معلوم ہو رہے ہیں۔ ایک مرگ ناگہانی اور ہے، یعنی یوم الیکشن۔

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

مگر یاد رہے کہ ٹرمپ کو تو محض ٹویٹر پر بھی اکسایا اور بھڑکایا جا سکتا ہے لہٰذا ان کو نیوکلیئر کوڈ سے دور رکھنے میں ہی بنی نوع انسان کی عافیت ہے۔ ہلیری کے جیتنے سے دنیا ٹویٹر نیوکلیئر وار سے بچ سکتی ہے۔ اگر ہلیری پہلی خاتون صدر منتخب ہوتی ہیں تو شاید امریکہ دنیا کے باقی ترقی یافتہ ممالک سے آنکھ ملا پائے۔

 آپ رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو: “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں، اور تفرقے میں نہ پڑیں“

اور براہ کرم اپنی معاشرتی ذمہ داری نباہتے ہوئے ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیں۔ ورنہ ۔۔۔ تین روز باقی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments