اطالوی ناول نگار فرانسسکا میلاندری کا ”تمہارے مستقبل اٹلی“ سے خط


مشہور اطالوی ناول نگار فرانسسکا میلاندری نے، جو کہ کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے سبب گزشتہ تین ہفتوں سے لاک ڈاؤن میں ہیں، اپنے ساتھی یورپیوں کو ایک خط لکھا ہے، ”تمھارے مستقبل کی جانب سے“ جس میں ان تمام جذبات کا ذکر کیاہے جن سے آنے والے ہفتوں میں لوگ گزریں گے۔


میں اٹلی سے تمھیں خط لکھ رہی ہوں یعنی میں تمھارے مستقبل سے تمھیں لکھ رہی ہوں۔ ہم وہاں ہیں جہاں کچھ دن بعد تم ہو گے۔ اس وبا کے نقشے ہم سب کو ایک متوازی رقص میں لپٹا ہوا دکھا رہے ہیں۔

ہم وقت کی راہگزر پر تم سے کچھ ہی قدم آگے ہیں، بالکل ویسے جیسے چند ہفتے پہلے ووہان ہم سے آگے تھا۔ ہم تمہیں بالکل وہی کچھ کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں جو ہم نے کیا۔ تم سب بھی وہی دلائل دے رہے ہو جو کچھ وقت پہلے ہم دے رہے تھے۔ تم میں سے کچھ وہ جو ابھی بھی کہتے ہیں ”یہ ایک فلو ہی تو ہے، اتنا شوروغل کیوں؟“ اور کچھ وہ جو پہلے ہی سمجھ چکے ہیں۔

جیسا کہ ہم تمہیں یہاں سے، یعنی تمہارے مستقبل سے، دیکھ رہے ہیں، تم میں سے بہت سے جن کو گھروں میں مقید ہونے کو کہا گیا، جارج آرویل اور ہابز کے حوالے دینے لگے۔ مگر جلد ہی تمھاری مصروفیت تمہیں ایسا کرنے سے روک دے گی۔

سب سے پہلے، تم کھاؤ گے۔ صرف اس لیے نہیں کہ یہ ان چند چیزوں میں سے ایک ہو گی جو تم ابھی بھی کر پاؤ گے۔ تمہیں درجنوں ایسے سماجی رابطوں کے گروپ ملیں گے جو تمہیں سکھائیں گے کہ اس فارغ وقت کو بہترین طریقے سے کیسے گزارا جا سکتا ہے۔ تم ان سب کا حصہ بن جاؤ گے اور پھر چند ہی دن بعد ان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دو گے۔ تم اپنی الماریوں سے تباہی کے بارے میں الہامی کتابیں نکالو گے مگر جلد ہی جان لو گے کہ تم یہ پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔

تم پھر سے کھاؤ گے۔ ٹھیک سے سو نہیں پاؤ گے۔ اپنے آپ سے پوچھو گے کہ آخر جمہوریت کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔
تمہاری میسنجر، واٹس ایپ، سکائپ اور زوم پر ایک نہ ختم ہونے والی آن لائن سماجی زندگی ہو گی۔

تم لوگ اپنے بالغ بچوں کے لیے یوں اداس ہو گے جیسے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ احساس کہ تم انھیں کبھی دیکھ بھی پاؤ گے یا نہیں، تمہارے سینے پر ایک کاری ضرب بن کر لگے گا۔

پرانی ناراضگیاں اور خفگیاں غیر متعلق لگنے لگیں گی۔ تم ایسے لوگوں کو کال کرو گے، جن سے کبھی بات نہ کرنے کی قسم کھائی تھی، صرف یہ پو چھنے کے لیے کہ وہ کیسے ہیں۔ بہت سی بیویاں اپنے گھروں میں پٹیں گی۔

تم یہ سوچ کر حیران ہو گے کہ ان سب لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے جو گھروں پر نہیں رک سکتے، کیونکہ ان کا تو کوئی گھر ہی نہیں۔ ویران گلیوں میں خریداری کے لیے جاتے ہوئے تم اپنے آپ کو کمزور محسوس کرو گے، خاص طور پر اگر تم عورت ہو۔ تم اپنے آپ سے سوال کرو گے کیا معاشرے یونہی تباہ ہوتے ہیں؟ کیا ایسا اتنی ہی تیزی سے ہوتا ہے؟ پھر تم ان سوچوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دو گے اور گھر پہنچنے پر پھر سے کھاؤ گے۔

تمہارا وزن بڑھ جائے گا اور تم صحت کے بارے میں آن لائن تربیت کے طریقے ڈھونڈو گے۔

تم ہنسو گے۔ بہت ہنسو گے۔ تم پھانسی گھاٹ جیسا مزاح دکھاؤ گے جو اس سے پہلے تم میں کبھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی، جو ہر چیز کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں، زندگی، کائنات اور اس سب کی مضحکہ خیزی کے بارے میں سوچیں گے۔

تم سپر مارکیٹ کی قطاروں میں لگے ہوئے اپنے دوستوں اور چاہنے والوں سے ملاقات کا وقت طے کرو گے، تاکہ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی انھیں رو برو دیکھ سکو اور یہ سب کرتے ہوئے سماجی فاصلے کے اصول برقرار رکھو گے۔

تم وہ سب چیزیں شمار کرو گے جو تمھاری ضرورت نہیں۔

تمھارے اردگرد موجود لوگوں کی اصل فطرت مکمل طور پر کھل کر سامنے آ جائے گی۔ کہیں مہرتصدیق ثبت ہو گی اور کہیں حیرت ہو گی۔

پڑھے لکھے دانشور جو خبروں پر سدا چھائے ہوئے تھے، غائب ہو جائیں گے اور ان کی آرا بے معنی ہو جائیں گی۔ ان میں سے کچھ عقلیت میں پناہ ڈھونڈیں گے مگر یہ ہمدردی سے اس قدر خالی ہو گی کہ لوگ ان کی بات سننا چھوڑ دیں گے۔ بلکہ وہ لوگ جنھیں تم نظر انداز کرتے تھے، اب پر یقین، سخی، قابل بھروسا، عمل پسند اور غیب بین لگیں گے۔

وہ لوگ جو تمھیں اس بکھیڑے کو اس سیارے کی تجدید کے موقع کے طور پر دیکھنے کی دعوت دیں گے، وہ اس سارے معاملے کو ایک بڑے تناظر میں دیکھنے میں تمھاری مدد کریں گے۔ تم ان سے بھی اکتا جاؤ گے۔ ٹھیک ہے، ہمارا سیارہ بہتر طور پر سانس لے رہا ہے کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم ہو گیا ہے مگر تم اگلے مہینے کے بلز کیسے بھرو گے؟

تم سمجھ نہیں پاؤ گے کہ ایک نئی دنیا کو وجود پاتے دیکھنا ایک عالی شان معاملہ ہے یا خستہ حال۔

تم اپنے گھر کی کھڑکیوں اور باغیچوں سے موسیقی بجاؤ گے۔ جب تم نے ہمیں اپنی بالکونیوں سے اوپیرا گاتے ہوئے دیکھا تو سوچا ”آہ، یہ اطالوی لوگ!“ مگر ہم جانتے ہیں تم بھی ایک دوسرے کے لیے حوصلہ افزا گیت گاؤ گے۔ جب تم اپنی کھڑکیوں سے ”میں زندہ رہوں گا“ بجاؤ گے تو ہم تمہیں دیکھیں گے اور سر ہلائیں گے بالکل ویسے ہی جیسے ووہان کے لوگوں نے فروری میں اپنی کھڑکیوں سے گایا اور ہمیں دیکھتے ہوئے سر ہلایا۔

ہم میں سے بہت سے یہ ارادہ کرتے ہوئے سو جائیں گے کہ لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی پہلا کام طلاق کی درخواست دائر کرنا ہو گا۔

بہت سے بچے اس دنیا میں آنے کی تیاری پکڑیں گے۔ تمہارے بچوں کو آن لائن تعلیم دی جائے گی۔ وہ تمہارے لیے ایک ناگوار مصیبت بن جائیں گے۔ وہ تمہارے لیے بے پناہ خوشی کا سبب ہوں گے۔ بزرگ لوگ جھگڑالو نوجوانوں کی طرح تمہاری حکم عدولی کریں گے اور تمہیں ان کے باہر جانے، وبا کا شکار ہونے اور مرنے سے روکنے کے لیے ان سے جھگڑا کرنا پڑے گا۔

تم کوشش کرو گے کہ آئی سی یو میں تنہا موت کا شکار ہوتے لوگوں کے بارے میں نہ سوچ سکو۔
تم چاہو گے کہ تمام میڈیکل ورکرز کی راہوں میں پھول بچھا دو۔

تمہیں سمجھایا جائے گا کہ تمام معاشرہ ایک مشترکہ معاشرتی کوشش میں متحد ہے اور تم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہو۔ یہ درست ہو گا۔ یہ تجربہ ہمیشہ کے لیے تمہارا نظریہ بدل دے گا کہ تم اپنے آپ کو ایک عظیم تر کامل منصوبے کے ایک انفرادی حصے کے طور پر کیسے دیکھتے ہو۔

تاہم، طبقاتی فرق ایک بہت بڑا فرق ہو گا۔ ایک خوبصورت باغیچے والے گھر میں مقید ہونا اور ایک گنجان آباد رہائشی منصوبے میں مقید ہونا ایک جیسا نہیں ہے۔ نہ ہی گھر سے کام کرنا اور اپنے کام کو ختم ہوتے ہوئے دیکھنا ایک جیسا ہے۔ وہ کشتی جس میں تم اس وبا کو شکست دینے کے لیے سوار ہو گے، سب کو یکساں نہیں لگے گی اور نہ ہی یہ یکساں ہے۔ نہ ہی کبھی تھی۔

کسی مقام پر تمہیں لگے گا یہ بہت مشکل ہے۔ تم خوف محسوس کرو گے۔ اپنے پیاروں سے اس خوف کا اظہار کرو گے یا پھر انہیں اس اضافی تکلیف سے بچانے کے لیے اسے خود تک محدود رکھو گے۔

تم پھر سے کھاؤ گے۔

ہم اٹلی میں ہیں اور تمہارے مستقبل کے بارے میں یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم جانتے ہیں۔ مگر یہ بہت محدود پیش گوئی ہے۔ ہم بہت کمتر درجے کے غیب دان ہیں۔

اگر ہم مستقبل بعید کی طرف نظر ڈالیں، ایک ایسا مستقبل جو تمہارے اور ہمارے، دونوں کے لیے انجان ہے، تو ہم تمہیں اتنا بتا سکتے ہیں : جب یہ سب کچھ اختتام پذیر ہو گا تو دنیا پہلے جیسی نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments