عمران خان کس کے وزیر اعظم ہیں؟


بلاول بھٹو زرداری نے برملا کہا اور شہباز شریف نے بالواسطہ اعتراف کیا کہ عمران خان ملک کے اور ہم سب کے وزیر اعظم ہیں ۔ شدید سیاسی مخالفت کے باوجود یہ دونوں اہم لیڈر عمران خان کو اپنا وزیر اعظم تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ حالانکہ بلاول بھٹو زرداری کی قومی اسمبلی میں کسی ہوئی پھبتی ہی کے نتیجہ میں آج تک عمران خان اپنے نام کے ساتھ نامزد کے لاحقے سے نجات حاصل نہیں کرسکے۔ سوال ہے کہ اس وسیع تر سیاسی اقرار کے باوجود عمران خان بھی کیا پورے ملک کے، ہم سب کے، حامیوں و مخالفین کے یکساں طور سے وزیر اعظم بن پائے ہیں؟

کورونا وائرس نے ہی وہ سیاسی صورت حال اور قومی سطح پر ایسا ماحول پیدا کیا تھا کہ سیاست دانوں کو باہمی چپقلش سے اوپر اٹھتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا تھا کہ موجودہ وزیر اعظم کے بارے میں سیاسی لحاظ سے چاہے کوئی بھی پھبتی کسی جائے، انہیں نامزد یا جعل سازی سے بنا ہؤا وزیر اعظم کہا جائے لیکن اگر ملک و قوم کو جب ایسے بحران کا سامنا کرنا ہے جو کسی سیاسی و سماجی تخصیص کے بغیر لوگوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ بن چکا ہو تو ملک میں ہم آہنگی اور یک جہتی کا ماحول پیدا کرنا بے حد ضروری ہے۔ عام طور سے حکومت کی طرف سے اس خیر سگالی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اپوزیشن حکومت کی نرمی کا جواب دست تعاون دراز کرکے دیتی ہے۔ لیکن پاکستان میں چونکہ ہر معاملہ کی گنگا الٹی بہتی ہے، اس لئے یہاں حکومت کی بجائے یہ نیک کام بھی اپوزیشن کے حصے میں آیا۔

 سندھ میں کورونا وائرس کے خلاف قابل ستائش حکمت عملی اختیار کرنے اور مراد علی شاہ کی طرف سے اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کے اظہار کے بعد پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو ’میرا وزیر اعظم‘ کہہ کر مخاطب کیا اور مراد علی شاہ نے کسی موقع پر ان رکاوٹوں کا شکوہ نہیں کیا جو وفاقی حکومت سندھ کے کام میں اٹکاتی رہی ہے۔ حالانکہ سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے اور کورونا متاثرین کو بہتر سے بہتر سہولت بہم پہنچانے کے لئے سرعت سے ایسے تمام اہم اقدامات کرنے کی کوشش کی جو دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اٹھائے گئے تھے۔ لاک ڈاؤن اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کرنا ہی دو ایسے طریقے ہیں جن کے بارے میں آفاقی اتفاق رائے موجود ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے یہ اہم ترین اقدامات ہو سکتے ہیں۔

عمران خان نے کسی بھی موقع پر سندھ حکومت کی بروقت مستعدی اور مراد علی شاہ کی قائدانہ صلاحیتوں کی توصیف کرنا تو کجا، اسے مسترد کرنے اور ان اقدامات کو غریب دشمن قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کیا عمران خان کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا تھا کہ مؤثر اور شفاف کارکردگی اور ذمہ دارانہ قیادت کی وجہ سے مراد علی شاہ، ان کی قیادت کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ عمران خان کا بدترین دشمن بھی اس بات کا تصور نہیں کرسکتا۔ مراد علی شاہ کسی صورت بھی براہ راست عمران خان کی قومی قیادت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اور نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی اشارہ دیا ہے۔ وہ تو عمران خان کی مخالفت اور وفاقی حکومت کی سرد مہری کے باوجود عمران خان کی تعریف سے ہی اپنی گفتگو کا آغاز کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ موجودہ بحران میں کارکردگی اور قائدانہ صلاحیتوں کا موازنہ کیا جائے تو مراد علی شاہ ملک کے وزیر اعظم کے مقابلے میں کوہ گراں دکھائی دیتے ہیں۔

کیا عمران خان واقعی اس خوف کا شکار ہوچکے ہیں کہ اگر انہوں نے مراد علی شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرلیا تو ان کی قومی قیادت کو اندیشہ لاحق ہوجائے گا۔ اور اسی الجھن میں انہوں نے قوم و ملک کو کورونا وبا کی وجہ سے لاحق بحران میں کسی حکمت عملی پر کام کرنے اور سب کا وزیر اعظم بننے کی بجائے، سندھ حکومت کو عتاب کا نشانہ بنانا ضروری سمجھا۔ کیا صرف اسی خوف کی وجہ سے سندھ میں تحریک انصاف کے بے نام لیڈر اپنے سیاسی قد کاٹھ سے بڑھ کر ایک مشکل صورت حال میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور قیادت پر الزامات کا طوفان برپا کرتے رہے ہیں۔ کیا اسی خوف کی وجہ سے ایک ایسے وقت میں جب مراد علی شاہ صوبے میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کی کوششیں کررہے تھے اور مذہبی لیڈروں سے اپیل کررہے تھے کہ وبا کے موسم میں دیگر اسلامی ملکوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مساجد کو بند رکھنے اور وہاں اجتماعات سے گریز کرنے کے طریقہ پر عمل کیا جائے، گورنر سندھ عمران اسماعیل مولویوں کو گورنر ہاؤس میں بٹھا کر یہ اعلان کروارہے تھے کہ نماز باجماعت پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ اب عمران اسماعیل خود کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہر درمند پاکستانی اور انسان دوست شخص ان کی جلد صحت یابی کی دعا کرے گا۔ لیکن کیا وفاقی حکومت اور خود گورنر سندھ اس سانحہ کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کی طرح اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے بارے میں مراد علی شاہ کی حکمت عملی عوام دوست اور کورونا سے بچاؤ کے لئے مؤثر اور قابل تعریف تھی۔

عمران خان کی سیاسی اور اصولی مخالفت سے قطع نظر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک مقبول لیڈر ہیں۔ پاکستانی عوام میں ان کا پاپولر پاور بیس موجود ہے اور منتخب وزیر اعظم کے طور پر انہیں ملک کی قیادت و سیادت کا حق حاصل ہے۔ تاہم حیرت تو اسی بات پر ہوتی ہے کہ عمران خان کو مراد علی شاہ سے سبق سیکھتے ہوئے جو کام ملک بھر میں شروع کرنے چاہئیں تھے، انہوں نے سندھ میں ان پر عمل درآمد سے ، اپنی لیڈر شپ کے لئے خطرہ محسوس کرنا شروع کردیا۔ اتنی مقبولیت اور اس اعلیٰ رتبہ کے باوجود عمران خان کی باتوں، حرکتوں اور ان کے ساتھیوں کے مضحکہ خیز بیانات سے کیوں یہ تاثر قوی کیا گیا کہ وفاقی حکومت اور وزیر اعظم ، سندھ میں ہونے والے مثبت کاموں کی وجہ سے خوف زدہ ہیں۔ اس کا علاج یہی تجویز ہؤا کہ وزیر اعظم ہر موقع پر اٹھارویں ترمیم کا حوالہ دے کر خود کو لاچار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ان کے ساتھی سندھ میں ہونے والے کاموں میں کیڑے نکال کر اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

صرف پیپلز پارٹی ہی نے نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر اور ملک میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے بھی پاکستان میں فلائٹ آپریشن بند ہونے سے پہلے لندن سے واپس آکر یہ واضح کیا کہ وہ اس بحران میں قوم کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ کسی کے پاس شواہد کی بنیاد پر ان کے اس بیان کی تردید کرنے کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا۔ لیکن اس کے جواب میں یہ خبریں عام کروائی گئیں کہ شہباز شریف دراصل اس بحران کا فائدہ اٹھا کر خود کو عمران خان کے متبادل کے طور پر پیش کرکے ، اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ واپسی کے ایک ہی روز بعد ایک ویڈیو پیغام میں شہباز شریف نے حکومت کو بحران سے نمٹنے کے لئے غیر مشروط تعاون کی پیش کش کی اور اب مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست دائر کرچکی ہے تاکہ مسلمہ جمہوری طریقہ کے مطابق عوامی نمائیندے مل جل کر کورونا وائرس کے علاوہ ، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مالی مشکلات سے نمٹنے کے لئے مناسب اور درست فیصلے کرسکیں۔ ابھی تک اجلاس بلانے کی مزاحمت کی جارہی ہے۔ اپوزیشن کے تعاون کو بدعنوانی سے بچنے کا طریقہ بتایا جارہا ہے اور ملک کا وزیر اعظم اصرار کررہا ہے کہ وہ تو صرف ایک گروہ کا وزیر اعظم بن کر ہی کام کرے گا۔ آخر خود پر اس عدم اعتماد کی کیا وجہ ہے؟

خود اعتمادی میں کمی کی اصطلاح عمران خان نے کورونا وائرس کے خلاف سندھ حکومت کے بروقت اقدامات کا مضحکہ اڑانے کے لئے استعمال کی تھی۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ چونکہ اعلیٰ درجے کی خود اعتمادی کا سمبل ہیں، اس لئے انہوں نے مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت کی اور شروع میں ہی یہ واضح کردیا کہ عوام اپنے برے بھلے کے خود ذمہ دار ہیں کہ اگر ملک میں وبا پھیل گئی تو حکومت کے پاس لوگوں کی دیکھ بھال کے وسائل موجود نہیں ہیں یا یہ کہ اگر لاک ڈاؤن کیا گیا تو لوگ وائرس سے پہلے بھوک سے مرنے لگیں گے۔ اگر یہ خود اعتمادی اور بلند نظری ہے تو عین اس وقت وفاقی دارالحکومت اور تحریک انصاف کے زیر انتظام صوبوں میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیسے عمل میں آیا تھا، جب عمران خان لاک ڈاؤن کو بزدلی اور ناکام پالیسی قرار دینے پر زور خطابت صرف کررہے تھے؟ اور جب وزیر اعظم معیشت کھولنے کا اعلان کرنے کی باتیں کررہے تھے تو سمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پر معیشت بند رکھنے کے فیصلے کون کررہا تھا۔

بروقت فیصلے کرنا دانشمندی کہلاتا ہے۔ اس کا تعلق خود اعتمادی سے نہیں بلکہ معلوم سائنسی حقائق کی بنیاد پر اقدامات کرنے سے ہوتا ہے۔ مراد علی شاہ اس میں کامیاب رہے ، عمران خان ناکام ہوئے۔ لیکن وہ اس غلطی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اپوزیشن کے اعتراف کرنےاور انہیں ملک کا وزیر اعظم تسلیم کرنے کے باوجود عمران خان نے خود کو پاکستان کا وزیر اعظم ثابت کرنے یا سمجھنے سے انکار کررہے ہیں۔ عمران خان کے پاس سنہرا موقع تھا۔ وہ پورے ملک کے وزیر اعظم بن سکتے تھے لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ وہ اس ’دلدل‘ میں پاؤں نہیں رکھیں گے۔ تو پھر وہ خود ہی بتادیں کہ وہ کس کے وزیر اعظم ہیں؟ اس ایک پیج کے، جس پر وزیر اعظم اپنی مرضی سے ایک لکیر کھینچنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments