شبلی فراز کا بہترین انتخاب۔ چند تجاویز


وفاقی وزیر اطلاعات و نشریا ت جناب شبلی فراز کی وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پہلی پریس کانفرنس دیکھ سن کر بے حد اطمینان ہوا کہ موجودہ حکومت کو ایک بہترین اور باصلاحیت ترجمان میسر آ گیا۔ شبلی صاحب جس اعتماد اور بردباری سے حکومتی موقف کو بیان کیا وہ قابل ستائش عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمار ے وزراء صحافیوں کے سوالات پہ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ اور غیرضروری بحث میں الجھ کے خود اپنے نکتہ ء نظر کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔

لیکن شبلی فراز صاحب نے جس خندہ پیشانی اور حوصلے کے ساتھ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کیا اور مہذب لب و لہجے میں جو جوابات دیے، وہ ایک خوش آئند بات ہے۔ شبلی صاحب نے کابینہ میں زیر بحث آنے والے جن معاملات کا ذکر کیا ان میں خصوصی طور پر ماضی کے حکمرانوں کی طرف سے مختلف محکموں میں میرٹ سے ہٹ کر تقریر وں کا ذکر شامل تھا۔

ہم جناب شبلی صاحب کی توجہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں پاکستان کے سب سے بڑ ے نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل کی غیر قانونی، غیر حقیقی اور غیر اخلاقی تقرری کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ریڈیو پاکستان میں سب ایڈیٹر یا پروڈیوسر بھرتی ہونے کے لئے کم از کم تعلیم ایم اے ہونا ضروری ہے۔ پھر امیدوار کو تحریری امتحان دینا پڑتا ہے۔ جس کو پاس کرنے کے بعد پانچ سات افراد پر مشتمل انتہائی تجربہ کار اور زیرک براڈکاسٹرز کے سامنے انٹرویو دینا پڑتا ہے، جو ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے۔ ان مراحل کے بعد براڈکاسٹنگ اکیڈمی میں تین سے چھ ماہ کی ٹریننگ ہوتی ہے جس کے بعد کامیاب امیدواروں کو ریڈیو پاکستان کے کسی بھی ریڈیو سٹیشن پر تعینات کیا جاتا ہے۔

لیکن دوسری طرف قانون کی پامالی کا عالم دیکھئے کہ ایک شخص، جس کی تعلیمی قابلیت محض ایف اے ہے، جو نائب قاصد کی تقرری کے مطابق تعلیم ہے، اسے ڈائریکٹر جنرل بنا دیا جاتا ہے۔ اتنے بڑے عہدے کے لئے اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے کہ فی الحال محکمے میں قحط الرجال ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ اور براڈکاسٹنگ میں پچیس سالہ تجربے کا حامل شخص درکار ہے۔ اس کے بعد چھانٹی ہوتی ہے۔ پھر انٹرویو ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو کمال ہو گیا۔ تعلیم نہ مالی اور انتظامی تجربہ، نہ علمی و مالی خدمات، بس ایک حربہ کہ شہنشاہ عالم کا فرمان ہے کہ طبلچی کے بیٹے کو فلاں ریاست کی حکمرانی سونپ دو۔

ہماری شبلی صاحب سے استدعا ہے کہ ریڈیو پاکستان میں غیر قانونی تقرریوں کا جائزہ لیا جائے اور بڑی بڑی غیرقانونی تنخواہیں پانے والوں سے رقم واپس لی جائے او ر اسے ریڈیو ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے استعما ل کیا جائے۔

ریڈیو پاکستان ملک کا سب سے بڑا نشریاتی ادارہ ہے جہاں سے تقریبابتیس ملکی، غیر ملکی اور علاقائی زبانوں سے خبریں، تبصرے اور دینی، تعلیمی اور تفریحی پروگرام نشر ہو تے ہیں۔ اور ریڈیو کا عملہ تمام تر مشکلات کے باوجود بڑی جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔

ایک اہم مسئلہ ریڈیو کے بورڈ آ ف ڈائریکٹرز ہے جس میں تقریباً تمام غیرمتعلقہ افرا د بھرے ہوتے ہیں جن کا براڈکاسٹنگ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹرزکی تشکیل نو کی جائے اور ریڈیو کے سابقہ تجربہ کار افسروں کو اس بورڈ کا حصہ بنایا جائے تاکہ ریڈیو کی ماضی کی اعلی روایات کو دوبارہ اجاگر کیا جا سکے۔

ایک اہم مسئلہ ریڈیو کی زمینوں کا ہے۔ ملک بھر کے بڑے شہروں میں ریڈیو پاکستان کے ہائی پاور ٹرانسمیٹر کی ایکڑوں زمین موجود ہیں۔ اسلام آباد میں ریڈیو کے ملازمین کے لئے رہائشی منصوبہ شروع کیا جانا تھا جس کے لئے زمین کی پیمائش اور دیگر امور طے ہو گئے تھے۔ ریڈیو ملازمین کا یہ دیرینہ خوا ب سرخ فیتے کی نذر ہو گیا۔ شبلی صاحب اس کی طرف توجہ دیں جس سے تقریباً پانچ ہزار گھرانوں کو رہائشی سہولتیں میسر ہو جائیں گی جو ریڈیو ملازمین کا حق ہے۔

ریڈیو پاکستان کی اکیڈمی شدید زبو ں حالی کا شکار ہے۔ اکیڈمی کی بڑی عمارت ایک سکول کو دے دی گئی جس سے بہت قلیل آمدنی ہوتی ہے۔ جب کہ اس عمارت سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

قبل ازیں ریڈیو کے پروڈیوسروں اور ایڈیٹروں کے لئے بیرون ملک تربیت کا نہایت مناسب انتظام تھا لیکن لائق ناعاقبت اندیش افسرون کی ملی بھگت سے اس اہم کام کو نظر انداز کر دیا گیا۔ شبلی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ریڈیو افسروں کی بیرون ملک تربیتی کورسوں کا اجراء کریں جس پر حکومت کا کوئی پیسہ خر چ نہیں ہوتا بلکہ

بین الاقوامی معاہدے کے تحت مختلف ملکوں کے ریڈیو اسٹیشن، ریڈیو پاکستان افسروں کو تربیت دینے کے علاوہ اچھا خاصہ مشاہرہ بھی دیتے ہیں۔

ریڈیو پاکستان کے نیوز پروگرام، انجینئرنگ اور ایڈمنسٹریشن کے ڈائریکٹر صاحبان کی میرٹ پہ تقرری کی جائے اور خصوصاً ڈائریکٹر جنرل کے لئے ریڈیو ہی کے آدمی کو موقع دیا جائے۔ اگر پریس انفارمیشن سے کسی شخص کو رکھا جائے تو اس کے تجربے اور براڈکاسٹنگ سے متعلق کچھ نہ کچھ تجربے کو ملحوظ رکھا جائے۔

آخر میں ایک بات شبلی صاحب! آپ والد محترم عظیم شاعر، دانشور اور ترقی پسند انسان جناب احمد فراز کا تعلق بھی ریڈیو پاکستان سے تھا، وہ ریڈیو پاکستان کا سنہری دور تھا۔ ملک کے چوٹی کے ادیب، شاعر، دانشور، مذہبی سکالر، موسیقار، فنکار اور گلوکار اس سے وابستہ رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کو دوبارہ وہ مقام ملے۔ اس سلسلے میں آپ سے بہتر کوئی اور خدمات انجام دے نہیں سکتا۔ یہ وقت بڑے فیصلے کرنے کا ہے۔ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اس میں جمہوری فیصلے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments