تھرڈ ایمپائر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے


\"edit1\"حکومت اور فوج کی قیادت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ معاملات معمول کے مطابق ہیں اور ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں مصروف عمل ہے۔ بنیادی طور پر یہ بیان ہی غلط ہے۔ اس ملک کے سب ادارے وہ کام کر رہے ہیں جو انہیں تفویض نہیں کیا گیا۔ فوج سیاست میں حکومت کو شکست دینا چاہتی ہے۔ اپوزیشن پارلیمنٹ میں قانون سازی کے عمل میں حصہ لے کر ملک کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے دھرنوں، ٹاک شوز میں دھؤاں دھار بیان جاری کرکے اور احتجاج کی دھمکیوں کے ذریعے حکومت کو معذور اور کمزور دیکھنا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ ملک کا نظام عدل سنوارنے اور عام لوگوں کی دادرسی کے لئے نچلی سطح کی عدالتوں میں اصلاحات کے لئے غوروغوض کرنے کی بجائے وزیراعظم کا احتساب کرنے کا ’’قومی فریضہ‘‘ ادا کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں حکومت کی حالت اس بازی گر کی سی ہو چکی ہے جو تنے ہوئے رسے پر چل کر کامیابی سے دوسری طرف اترنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں کامیاب ہونے کے بعد داد وصول کرتا ہے۔ حکومت کی صورت میں صرف یہ فرق ہے کہ اگر حکومت سیاسی مشکلات کی وجہ سے پیدا شدہ بحران میں سے نکلنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو بھی اسے داد دینے والا کوئی نہیں ہو گا، بلکہ اسے ایک نئے بحران کی نوید دی جائے گی۔

نوازشریف کی حکومت کو اس وقت سہ طرفہ مشکلات کا سامنا ہے۔ فوج ڈان میں شائع ہونے والی خبر پر ناراض ہے اور ’’انتقام‘‘ لینے کے لئے دانت پیس رہی ہے۔ اپوزیشن کے متعدد لیڈر اس بات پر ناراض ہیں کہ انہیں وزیراعظم بننے کا موقع کیوں نہیں ملتا۔ کیوں کہ سیاسی منظر نامہ میں آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کے سوا کسی سیاسی پارٹی کی کامیابی کے امکانات روشن نہیں ہیں۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لئے سیاسی کام کرنے، پارٹی کی تنظیم کرنے اور عوام سے براہ راست رابطہ مہم کے ذریعے انتخابی کامیابی کا راستہ ہموار کرنے کی بجائے، آسان طریقہ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کیا جائے، لوگوں کو سڑکوں پر نکل کر امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کی کوشش کی جائے یا الزام تراشی کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں حکمران جماعت کے خلاف فضا سازگار ہو، جمہوری عمل کو غیر ضروری سمجھ لیا جائے اور کسی ماورائے عقل و فہم اقدام کے ذریعے آئندہ انتخابات کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے، کسی شارٹ کٹ کے ذریعے منزل مقصود یعنی برسراقتدار آنے کی آرزو پوری کر لی جائے۔ اس مقصد کے لئے وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کا سب سے کارگر ہتھیار تو فوج کی معاونت حاصل کرنا ہوتا ہے جسے تھرڈ ایمپائر کا دلکش نام دے کر امیدیں وابستہ کی گئی ہیں کہ یہ تھرڈ ایمپائر لشتم پشتم چلتی حکومت کو ’’آؤٹ‘‘ کرنے کے لئے انگلی کھڑی کر دے گا۔

اس میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس کھیل میں فرسٹ اور سیکنڈ ایمپائر کون ہیں، جن کے فیصلے کو مسترد کروانے کے لئے تھرڈ ایمپائر سے رجوع کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ فرسٹ ایمپائر عوام ہیں جو ووٹوں کے ذریعے لوگوں یا پارٹیوں کو منتخب کرکے اقتدار تک پہنچاتے ہیں۔ لہٰذا تیسرے ایمپائر سے توقعات وابستہ کر لینے والوں کے بارے میں یہ بات حتمی یقین سے کہی جانی چاہئے کہ وہ فرسٹ ایمپائر یعنی عوام کے حق رائے اور اس کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے طریقہ کو تسلیم کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لگتا ہے کہ اس کھیل کا سیکنڈ ایمپائر الیکشن کمیشن اور وہ نظام ہے جس کے ذریعے عوام کو حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جو لوگ عوام کے ووٹوں کے فیصلہ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ اس کا براہ راست حوصلہ کرنے کی بجائے اس نظام کو مورد الزام ٹھہرا کر کام چلانا چاہتے ہیں جس کے ذریعے لوگ ووٹ دے کر نمائندے منتخب کرتے ہیں یعنی’’الیکشن کمیشن‘‘ اور اس کے ساتھ تعاون کرنے والے ادارے، پہلے اور دوسرے ایمپائر کے فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کے عذر کا نام دھاندلی رکھا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جو نہ کبھی ثابت ہو سکتا ہے اور نہ اس علت کو پاکستان جیسے ملکوں کے نظام انتخاب سے مکمل طور پر دور کیا جا سکتا ہے۔ دھاندلی یا انتخابی بے قاعدگیوں سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ طویل اور صبر آزما ہے۔ اس کے لئے سماج میں ذات برادری کے گٹھ جوڑ، معاشی و معاشرتی اثرات، جہالت اور تعصبات جیسی لعنتوں کو معاشرے سے مٹانا ضروری ہو گا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس مقصد کے لئے جمہوری عمل کا تسلسل بے حد ضروری ہے۔ بار بار اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح ووٹ کی طاقت پر عوام کا اعتبار کمزور ہوتا ہے اور بعض لوگ یا ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ جب لوگوں کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ خواہ وہ کسی کو بھی منتخب کریں، ان کے کامیاب یا ناکام ہونے کا فیصلہ ان لوگوں کی کارکردگی کی بجائے بعض نادیدہ قوتوں کو کرنا ہے تو فطری طور سے یہ خفیہ طاقت مقبول اور منتخب ہونے والے لوگ بہرحال غیر مقبول ہوں گے۔

انتخابی عمل میں کارکردگی کی بنیاد پر عوام آئندہ انتخابات میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ بار درست فیصلہ کیا تھا یا اس میں کمی رہ گئی تھی۔ اس تجربہ ہی کی روشنی میں آئندہ درست فیصلے کرنے اور نئے لوگوں کو منتخب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب لوگ اس عمل کے عادی ہو جاتے ہیں تو انہیں اچھے اور برے میں فرق کرنے کا طریقہ بھی آ جاتا ہے۔ اس لئے جمہوری عمل ان سماجی علتوں کے لئے مہلک ہو سکتا ہے جو کسی انتخابی نظام کے آغاز میں مشکلات کا سبب بنتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون لوگ اور کون سی قوتیں اس نظام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ لوگ ووٹ دینے اور ووٹوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے مجاز ٹھہرنے والے لوگوں سے انتخابی عمل کے ذریعے جوابدہی کرنے کے عادی نہ ہوجائیں۔ کیوں کہ یہ عمل اگر معمول بن گیا اور لوگ ووٹ کی قوت پر بھروسہ کرنے لگے تو نہ تو سیکنڈ ایمپائر غیر ضروری مداخلت کے ذریعے اصل منصف یا مجاز قوت یعنی عوام کی مرضی کو روندنے کا حوصلہ کر سکے گا اور نہ تیسرے ایمپائر کی ضرورت باقی رہے گی۔

اس تناظر میں تھرڈ ایمپائر کو ’’منصف اعظم‘‘ قرار دینے والوں سے پوچھنا ضروری ہے کہ اسے کس حیثیت میں فیصلے کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ تھرڈ ایمپائر ہمیشہ شور مچانے والوں کی بات پر کان دھرنے یا انہیں قابل اعتبار سمجھنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس صورت میں دھرنے کا سجا ہوا اسٹیج اداس اور ویران ہو جاتا ہے اور دھاندلی کی بجائے کسی نئے عذر کی تلاش جاری رہتی ہے۔ ایسے میں اگر سادہ لوحی سے پوچھ لیا جائے، ’’میاں وہ تھرڈ ایمپائر کا کیا ہوا، تم تو کہتے تھے انگلی اٹھنے والی ہے‘‘ ، تو بے نیازی سے جواب دیا جاتا ہے کہ تھرڈ ایمپائر تو عوام ہیں۔ مٹھی بھر لوگوں کو بہکا کر سڑکوں پر لانے اور انتظامیہ اور حکومت سے بھڑانے والے ان عناصر کی یہ بات سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اگر وہ عوام کو ہی اصل ایمپائر مانتے ہوں تو انتخاب میں ان کی دی ہوئی رائے کا احترام کریں اور اپنے طرز عمل و طرز تکلم سے یہ واضح کریں کہ لوگ انہیں منتخب کریں یا نہ کریں، وہ ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے زیادہ محنت کریں گے۔ جو لوگ بھی اس عمل میں خلل ڈالنے کا سبب بنتے ہیں اور جیتنے کی صورت میں نتیجہ کو قبول اور ہارنے کی صورت میں دھاندلی قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں، ان کی جمہوریت سے وابستگی مشکوک ہے اور اس پر سوالیہ نشان لگانا ضروری ہے۔

تاہم پاکستان میں انتخابی سیاست کی مختصر تاریخ میں کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں ہو پاتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کو ان کے حق انتخاب سے محروم کرنے کے لئے متعدد عناصر اور قوتیں برسرعمل رہتی ہیں۔ ان میں نیا اضافہ اب جوڈیشل ایکٹوازم کی صورت میں اپنی رائے مسلط کرنے کی خواہش رکھنے والے جج صاحبان کا بھی ہو چکا ہے۔ اسی لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے حال ہی میں کہا تھا کہ تھرڈ ایمپائر اور کوئی نہیں، عدالتیں ہیں۔ حالانکہ انہیں تو یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ ملک کی سیاست نہ کرکٹ کا میدان ہے اور نہ جج حضرات عوام کی رائے کو پرکھنے اور تولنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کا کردار تو عوام کے منتخب نمائندوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے۔ لیکن جب ملک کے چیف جسٹس بھی انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر سیاست اور سماجیات کے بارے میں دوٹوک رائے دینے میں مضائقہ نہ سمجھتے ہوں تو یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ تھرڈ ایمپائر کی پوزیشن کے لئے بھی زبردست میچ جاری ہے اور عدالتیں روایتی طور سے اس پوزیشن پر قابض اتھارٹی سے یہ اختیار چھین لینا چاہتی ہیں لیکن ابھی اس کا مناسب طریقہ وضع نہیں ہو سکا ہے۔ اسی لئے صورت حال غیر واضح ہے۔

ان حالات میں اصلی تو وڈا تھرڈ ایمپائر جو مقبول بھی ہے ۔۔۔۔۔ یعنی جس کے نام کے چرچے ہیں اور گلیوں شاہراہوں میں جس کی توصیف میں وقفے وقفے سے بینر آویزاں ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اور صاحب اختیار بھی، اپنی اس حیثیت کو بار بار منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بھی شاید مطلق قوت کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنا اظہار چاہتی ہے۔ گو کہ سب اسے تسلیم کرتے ہیں یعنی جمہور کے نمائندے بھی اور وہ بھی جو عوام کی اعانت کے بغیر کھیل میں جیت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو درپردہ اختیار کے استعمال سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی رپورٹ یا خبر یہ موقع فراہم کر دے کہ اس کا علی الاعلان اظہار ضروری سمجھا جائے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ خبر کو کہانی قرار دینے کے بعد کہانی کار کی تلاش کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے اور وزیر داخلہ حکومت کی طرف سے اس کار سعید میں پیش پیش ہیں۔

ایک وزیر کی قربانی اور تین مرتبہ معافی….. یعنی وضاحت و تردید ناکافی ہونے کے بعد اب 7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جا چکی ہے۔ ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج اس کے سربراہ ہیں۔ انتظامیہ اور ایجنسیوں کے نمائندے، اس کے ارکان ہیں اور اسے مبینہ طور پر 30 روز کے اندر اس گھر کے بھیدی تک پہنچنا ہے جسے وزیر داخلہ ایک ماہ کی تگ و دو کے باوجود تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ فوج اپنی تمام تر قوت اور صلاحیت کے باوجود جس کا سراغ لگانے میں ناکام ہے۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ وہ شخص وزیراعظم سے لے کر کسی محکمہ کے سیکریٹری تک کی حیثیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ وہ ان دس بارہ لوگوں میں شامل ہے جو وزیراعظم ہاؤس کے حساس ترین اجلاسوں میں شریک ہو سکتا ہے۔ اب سات رکنی کمیٹی جس کے سربراہ ہائی کورٹ کے ایک سابق جج ہیں، اس رتبہ و حیثیت کے لوگوں کو مشتبہ کی کرسی پر بٹھا کر ان کی باری باری چھان پھٹک کریں گے۔ آج تک تو ایسی کسی تحقیق کا کوئی نتیجہ نکلا نہیں۔ البتہ اس بار شاید کسی کی انا کی تسکین ضرور ہو سکے۔

کمیٹی کی تحقیق کے لئے تیس دن کی مدت بھی معنی خیز ہے۔ کہ اس ماہ کے آخر میں کمان تبدیل ہونے والی ہے۔ شاید اس ملک کے وزیراعظم ایسے بخت آور ہوں کہ اس تبدیلی کے بعد وہ اس ہزیمت اور شرمندگی سے بچ جائیں جو کور کمانڈروں کی موجودہ پلٹن ان کے سر منڈھنے پر مصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments