جمہوریت میں اختلاف کیسے کیا جاتا ہے؟


\"saeed-afzal\"

کل میں نے سوچا کہ سوشل میڈیا پر جا کر امریکی شہریوں کے صدارتی الیکشن کے حوالے سے تاثرات جانتا ہوں۔ لیکن اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر تو میری فرینڈ لسٹ میں سب پاکستانی ہیں ابھی میں اس پر سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میری نظر جارج ڈبلیو بش کے سٹیٹس پر پڑی جو میری نیوز فیڈ میں کچھ دوستوں کے لائک کرنے کی وجہ سے نظر آیا۔ اس پر ہزاروں امریکی شہریوں کے کمنٹس تھے۔ جن کو پڑھنا ایک دلچسپ تجربہ رہا۔

یہ سب کمنٹ کرنے والے ری پبلکن پارٹی کے حامی یعنی بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی تھے۔ لیکن سب کے کمنٹس انیس بیس کے فرق سے ملتے جلتے تھے۔ ان کو ایک بات پر بہت غصہ تھا کہ جونیر بش اور اس کی فیملی نے ووٹ کاسٹ کیوں نہیں کیا۔ وہ اس پر بار بار اپنی مایوسی کا اظہار کرتے اور بش کو یہ کہتے کہ ہم۔ نے تمہیں دو بار ووٹ دیا ہم نے تمہارے والد کو بھی ووٹ دیا لیکن تم نے ووٹ کاسٹ نہ کرکے ہمارا دل توڑ دیا۔

مزے کی بات یہ تھی کہ سب نے بش خاندان کی تعریف کرتے ہو ئے اسے زبردست امریکی صدر قرار دیا جس نے اپنے ملک کے لیے زبردست خدمات انجام دیں لیکن ووٹ نہ ڈالنے پر اسے مغرور قرار دیا اور کہا کہ وہ اشرافیہ سے تعلق کی وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں گیا۔ ہزاروں کمنٹس میں کہیں بھی کسی ایک بھی پارٹی ورکر یا ووٹر نے بش کو پارٹی کا غدار نہیں کہا۔ کسی نے اسے پارٹی سے نکالنے کی بات نہیں کی۔

اتنے تپے ہوئے امریکیوں سے میں نے یہ سیکھا کہ تنقید کیسے کی جاتی ہے۔ کسی پر تنقید کا مطلب ہر گز اس کی شخصیت کی نفی کرنا نہیں ہوتا۔ بات کسی بھی طرح سے کی جائے وہ اپنا اثر رکھتی ہے۔ جمہوریت کی خوبصورتی اس کا بہترین طریقے سے استعمال ہے۔ الیکشن ہارنے اور جیتنے کے بعد ایک دوسرے کو فون کر کے مل جل کر اپنے ملک کو آگے لے کر جانے کا جذبہ ہے۔ چار سال یا پانچ سال تک دوسرے کی حکمرانی کے حق کو تسلیم کرنے کے بعد اگلے الیکشن کی تیاری ہے۔ حریف کی غلطیوں کو نوٹ کر کے مہم چلانا ہے لیکن اسے سکیورٹی رسک قرار دینا نہیں۔ بغیر ثبوتوں کے ایک دوسرے کو جلسوں میں چور قرار دینا نہیں۔

جو انتخابی بخار الیکشن والے دن تک رہے اس کا فائدہ ساری قوم کو ہوتا ہے اور جس انتخابی بخار کی معیاد الیکشن کے بعد بھی رہے وہ قوم کے کیے تباہ کن ہوتا ہے۔ ایک الیکشن پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور اس سے پورے ملک کی چولیں ہل کر رہ جاتی ہیں الیکشن کے دن کے بعد ملک بھر میں معمول کی سرگرمیاں شروع ہو جانی چاہیں۔

کل تک ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنانے والے صدر اوباما نے آج ان کو وائٹ ہاوس بلا لیا ہے۔ جہاں ان کو بریفننگ دی جائے گی۔ یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments