کسان پنجاب حکومت سے تعاون کریں اور ڈھول بجائیں


بزرگوں سے ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہی کچھ چھوٹی کلاس سے لے کر ہائر کلاسوں تک بچوں کو پڑھایا گیا کہ پاکستان کی معاشیات میں زراعت کا اہم اور کلیدی کردار ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے ہمیشہ گزرتے وقت کے مطابق پالیسیاں بنائی کسی بھی ملک کا انحصار صرف زراعت نہیں ہے بلکہ کوئی ملک جہاز سازی کی صنعت سے کما رہا ہے تو کوئی اسلحہ سازی کے ذریعے کما رہا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے زراعت کے شعبہ پر انحصار تھا اور ہمیشہ رہے گا۔

ہماری معاشیات کا 70 فیصد انحصار شعبہ زراعت پر ہے۔ وہی شعبہ زبوں حالی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ زراعت کے شعبے کو صنعت کا درجہ دینے کے اعلانات تو کیے جاتے ہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں موجود صنعت کار اور سرمایہ دار اپنے مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔ زراعت کا شعبہ کل بھی مسائل کا شکار تھا۔ آج بھی اس کی حالت نہیں بدلی جا سکی۔ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں اقتدار میں آنے والے حکمران خواہ وہ فوجی تھے جس عوامی ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوئے تھے،سب نے عوام کی حالت زار کو تبدیل کرنے کے نعرے لگائے لیکن معاملات کاغذی پالیسیوں تک محدود رہے ہمیشہ کسان اور کاشتکار کی قسمت بدلنے کے لئے بیوروکریسی نے حکمرانوں کو منصوبے بناکر دیے جو درحقیقت منصوبے ہی ثابت ہوئے۔ ہر سال اربوں روپے کے فنڈز کسانوں کے نام پر قومی خزانے سے جاری ہوتے ہیں لیکن 73 سال گزرنے کے باوجود پریشان حال کسان خوشحال نہ ہوسکا۔ حکومت کی جانب سے شروع کیے جانے والے منصوبوں سے ہمیشہ اقتدار میں موجود مخصوص طبقہ فیض یاب ہوتا رہا ہے اور کاشتکار کے لئے بنائے گئے منصوبوں سے حقیقی کسان کو کوئی فائدہ نہ ہوسکا۔

پاکستان پر طویل عرصے تک برسر اقتدار رہنے والی شریف فیملی نے اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ زراعت کو صنعت کا درجہ دینے اور کاشتکاروں کے لئے فلاحی منصوبے شروع کرنے کے دعوے کرتے ہوئے منصوبے شروع کیے لیکن پاکستانی قوم نے دیکھا کہ پورے پاکستان اور خصوصاً پنجاب بھر میں پولٹری، ڈیری اور اسی طرح کی دیگر سکیمیں جو کسانوں کے نام پر شروع کی گئی لیکن ان سکیموں کے ذریعے سب سے زیادہ فائدہ شریف خاندان اور ان کے حواریوں کو ہوا۔

کسان آج بھی اپنے مسائل میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ ہمیشہ ہمارے حکمرانوں نے اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کو بحالی اور خوشحالی کے نام پر جھوٹے دلاسے دیے عملی طور پر کوئی قدم نہ اٹھا۔ 25 جولائی 2018 ء کو اقتدار کی غلام گردشوں میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف داخل ہوئی یہ وہ پارٹی ہے جو اپنی تحریک کے روزاول سے کسانوں کے مسائل کے حل کے لئے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھاتی نظر آتی تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد زراعت کے شعبے کے حوالے سے مختلف ٹاسک فورس اور کمیٹیاں بنائی گئیں زیادہ تر کمیٹیوں کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین کو سونپی گئی جس نے اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں کسانوں اور کاشتکاروں کی بحالی کے علاوہ زراعت کو صنعت کا درجہ دلانے کے لئے عملی طور پر اقدامات شروع کر دیے اور مختلف نوعیت کے فلاحی منصوبے شروع کیے گئے جس سے گراس روٹ لیول پر ڈائریکٹ کاشتکار کو فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔

گزشتہ کئی ماہ سے جہاں پورا ملک کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں مبتلا ہے۔ وہیں کسانوں کی رہی سہی کمر ژالہ باری سے ٹنل فارمنگ کی فصل کو شدید نقصان پہنچنے سے ٹوٹ گئی جس کا خمیازہ تاحال پورا نہ ہوا تھا کہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کی بندش نے ٹنل فارمنگ سے تیار باقی ماندہ سبزیاں ملک کے کونے کونے تک پہنچنے کی بجائے مقامی منڈیوں میں اونے پونے فروخت ہونے لگیں بلکہ بعض اوقات سبزیوں کی خریداری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی چنوائی کروانے کے بعد جانوروں کو بطور چارہ ڈالنے کی نوبت آئی۔

اس ساری صورتحال میں موجودہ حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف /امدادی پیکج سامنے نہ آیا۔ ابھی کسانوں کے یہ زخم تازہ ہی تھے کہ کپاس، مکئی، دھان، چارے، باغات سمیت دیگر کاشت کی گئی ہزاروں ایکٹرز پر مشتمل فصلوں پر ٹڈی دل کا حملہ ہوگیا جس سے تباہ حال کاشتکار ایک نئی مصیبت میں مبتلا ہو گیا۔ ٹڈی دل نے ہمارے دیہی علاقے کے علاوہ پورے جنوبی پنجاب میں یلغار کرتے ہوئے کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیا ٹڈی دل کا مسئلہ کئی ماہ سے سامنے آیا ہوا تھا لیکن بزدار سائیں کی پنجاب حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں بروقت اقدامات نہ کیے گئے۔ اب ٹڈی دل کے حملے میں شدت آ گئی ہے جس سے کسانوں کو لاکھوں روپے نقصان کے علاوہ دوبارہ کاشت کرنی پڑ رہی ہے جب کہ بعض علاقوں میں تیسری مرتبہ بھی کاشت کی نوبت آ چکی ہے لیکن حکومتی اور بیوروکریسی کے اعلیٰ دماغ کسانوں اور فصلوں کے بچاؤ کے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔

ٹڈی دل سے بچاؤ کے لئے کسان اپنی مدد آپ کے تحت ڈھول اور برتن بجانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ ساری صورتحال میں سائیں حکومت کا کردار کہیں بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکمرانوں کی مانند فوٹو سیشنز تک محدود ہے بلکہ بزدار سائیں کی جانب سے کاشتکاروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور کاشت کی گئی فصلوں کو بچانے کے لئے مسلسل ڈھول بجائیں۔

سوال یہ ہے کہ حکومت اور زراعت عملہ موجودہ صورتحال میں کیا حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے؟ کیا سب کچھ کسان نے خود کرنا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیا صرف فرضی اور کاغذی اعداد و شمار عوام کے سامنے پیش کر کے اپنے حق میں ڈھول بجوانا چاہتی ہے؟ سائیں سرکار فوری طور پر خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور محکمہ زراعت میں محنتی اور درد دل رکھنے والا اعلیٰ افسر تعینات کرے اور اسی طرح تباہ حال کاشتکار کی بحالی کے لئے کمیٹی کمیٹی کا کھیل شروع کرنے کی بجائے ریلیف پیکج کا اعلان کرے اور مالیہ، آبیانہ سمیت زرعی ٹیکس کے خاتمے کا اعلان کرے تاکہ کسانوں کی صحیح معنوں میں دادرسی ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments