لاک ڈاؤن نرم، کرونا سرگرم


کرونا کا جن پوری طرح سے بے قابو ہو گیا ہے۔ مئی کا مہینہ خطرناک ترین ثابت ہوا۔ اس تلخ حقیقت کو جلد سے جلد تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمیں اب اس مہلک بیماری کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا۔ دوسری بیماریوں کی طرح یہ وائرس بھی اب ہماری زندگیوں کا حصہ ہے۔ کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں ہوش روبہ اضافہ ہوگیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس ناگہانی آفت کا شکار ہو رہے ہیں۔ پچھلے تین روز کے درمیان اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے جو کے ایک طرح سے ہم سب کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔

ڈھائی ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد عید پر حکومت کی جانب سے نرمی کا فیصلہ کیا گیا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شاپنگ کی غرض سے مارکیٹوں کا رخ کیا۔ حکومت نے جن ایس او پیز کے ساتھ مشروط اجازت دی تھی وہ تمام احتیاطی تدابیر کی عوام نے نفی کر دی۔ بازاروں میں ایسی صورتحال دیکھنے میں آئی کہ کرونا کا بھی دم نکل جائے۔ لوگ سماجی فاصلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے بغیر ماسک کے بازاروں میں امڈ آئے۔ حکومت کی جانب سے بازاروں کے اوقات کار مقرر کر دیے گئے۔ صبح نو بجے سے لے کر رات دس بجے تک تمام دکانیں کھلی رہیں گئی۔

عید تو گزر گئی مگر ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ کیا لاک ڈاؤن ہوگا یا نہیں؟ حکومت لاک ڈاؤن کی میعاد بڑھائے گئی؟ اگر اضافہ ہوا تو کاروبار کے اوقات کار کیا ہوں گئے؟ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کا شمار پسماندہ ممالک میں میں ہوتا ہے جہاں زیادہ تر طبقہ دیہاڑی دار ہے۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی بہت سی مشکلات میں گہری ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ مزید لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جدھر معیشت پر برا اثر پڑا وہیں ساتھ ساتھ ٹیکس کولیکشن بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ پاکستانی معیشت اس چیز کی متحمل نہیں کہ لوگوں کو مزید رقم دی جا سکے۔ امیر طبقہ تو پوری طرح لاک ڈاؤن کے حق میں ہے مگر غریب اور دیہاڑی دار طبقہ میں مزید لاک ڈاؤن کو برداشت کرنے کی سکت نہیں۔

کرونا کی صورتحال کے پیش نظر قومی رابطہ کمیٹی کی ایک اہم بیٹھک وزیر اعظم کی صدارت ہوئی۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں مزید لاک ڈاؤن نہیں کیا جائے گا۔ مارکیٹوں کو تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ مخصوص اوقات میں کھولنے کا حکم دیا گیا۔ ہفتہ کے پانچ دن صبح نو بجے سے لے کر شام سات بجے تک تمام ایس او پیز کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں جا رہی رکھنے کا حکم دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کے شعبہ کو بھی احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولنے کی مشروط اجازت دی گئی۔ وزیراعظم کی جانب سے تمام اوورسیز پاکستانیوں کو بھی جلد سے جلد واپس لانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ یہ تمام فیصلہ پاکستان کے غریب طبقے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے۔

پاکستان میں ایک ایسے طبقے کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو کرونا وائرس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ تین ہفتے قبل صرف لاہور شہر میں اس وائرس سے مشتبہ افراد کی تعداد تقریباً سات لاکھ کے قریب ہونے کا اندازہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روز بروز اموات کی تعداد ہمیں اس خطرناک وائرس کے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ پاکستان طب کے شعبہ میں ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ ہمارے ہاں اس وائرس کے ٹیسٹوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

لوگوں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے یہ جان لیوا بیماری خطرناک حد تک پھیل رہی ہے۔ حکومت اس کی روک تھام کے لیے دن رات کوشاں ہے مگر اس کے ساتھ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہمیں بھی اس بیماری سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کو اپنانا ہو گا۔ مشکل کے اس وقت سے ہمیں ایک قوم بن کر اس سے لڑنا نہیں بچنا ہو گا۔ ہمیں تمام ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے سماجی فاصلے کو یقینی بناتے ہوئے ماسک کے استعمال کو عادت بنانا ہو گا۔ کیونکہ اس مہلک بیماری کی ویکسین تا حال نہ ہونے کی وجہ سے اس خطرناک جان لیوا مرض سے بچاؤ کا واحد راستہ احتیاط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments