پنجاب (اسمبلی) نہیں جائوں گا


میرا نام چودھری نثار علی خان ہے برگیڈئیرفتح خان کے ہاں 31 جولائی 1954ء تھانہ چونترہ کے چکری (چکر نہیں) گاﺅں میں پیدا ہوا، آرمی برن ہال کالج اور ایچیسن کالج لاہور پڑھتا رہا، میں نے پارلیمنٹ میں آنکھ کھولی تھی کیونکہ میں صرف 31 سال کا تھا جب قومی اسمبلی کا الیکشن جیتا اور 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں بھی کامیاب ٹھہرا تھا۔ 1988 میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وفاقی وزیر، پہلی اوردوسری نواز کابینہ میں پٹرولیم اورقدرتی وسائل کا وزیر، پی پی پی کی گیلانی کابینہ میں وزیر برائے خوراک، زراعت، مویشی اور وزیر مواصلات، جون 2013ء میں نواز کابینہ کا وزیر داخلہ رہا،، 8 بار قومی اسمبلی کا رکن رہا ہوں، لہٰذا درج بالا تمام محکموں میں جتنی بھی ترقی ہے صرف اورصرف میرے دور کی ہے، تصدیق کے لئے فواد چوہدری وزیر سائنس وٹیکنالوجی حاضر ہیں۔

میرے حلقہ پی پی 10کے 2لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں، 10 یونین کونسل،  2 پولیس اسٹیشن، 3 چوکیاں، بوائے 4 اور گرلز کے 4 ہائی اسکول، لڑکوں کے پرائمری 15 اور لڑکیوں کے 13 اسکول جبکہ میرے پورے حلقہ میں صرف اور صرف ایک سرکاری تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال ہے، میں خود چراغ ہوں چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے تو مجھے اس کا نقصان نہیں، چھوڑیں حلقہ کی فکر، اوربھی دکھ ہیں زمانے میں حلقہ کی سیاست کے سوا۔ نازک مزاج ہوں، اسی لئے مجھے کبھی ن کی، کبھی تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کی یاد ستاتی ہے، ہجر کے گہرے زخم سہہ رہا ہوں۔ پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہماراجانے ہے، راحیل شریف کی مداخلت پر میرا نام سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے 14 افراد کے قتل کی ایف آئی آر میں موجود ہے۔ ووٹر کی فکر نہیں بس اپنی فکر ہے میری کچھ مجبوریاں تھی، کس کو بتاﺅں جدائی کا سبب، آج کا وزیر داخلہ کچھ بھی نہیں، وزیر داخلہ میں تھا جو تین گھنٹے سے مختصر پریس کانفرنس نہیں کر تا تھا۔ رات کی تاریکی میں عمران خان سے ملاقاتیں کیں، لیکن موجودہ وزیر اعظم کو دنیا کی کوئی طاقت رات کی کہانی ہضم نہیں کرا سکتی۔

میرے خلاف حکمراں جماعت کی رکن پنجاب اسمبلی مومنہ وحید نے اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی کہ ’میں‘ بطور ممبر حلف نہ اٹھا کر اپنے حلقہ پی پی 10 کے عوام اور پنجاب اسمبلی کے ایوان کی مسلسل تضحیک اور توہین کر رہا ہوں۔ لہٰذا رکنیت منسوخ کرنے کیلئے فی الفور قوانین اور قواعد اسمبلی پنجاب 1997 میں ترمیم کی جائے۔ اس قرارداد کو کئی ماہ ہو گئے لیکن اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی اور الیکشن کمیشن کو جرات نہیں کہ وہ میرے خلاف فیصلہ دیں اور حلقہ میں نئے الیکشن کرا سکیں، کسی کالم نگار، اینکر اورتجزیہ نگار کی جرات نہیں کہ وہ لکھیں یا بولیں کیونکہ سب کا لاڈلا ہوں۔ سیاست ممکنات کا دوسرا نام ہے اور پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے مجھ سے سب کو امیدیں ہیں کہ میں کسی وقت بھی کسی کے بھی کام آ سکتا ہوں، میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ سیاست میں نرمی (لچک) جمہوریت (مفادات) کے پہیہ کو چلاتی ہے۔ ناراضگی مسائل کا حل نہیں بلکہ ناراضگی مزید کشیدگی پیدا کرتی ہے ”اصول اور انا کا مقابلہ ہو تو پھر جیت شاید ہمیشہ انا کی ہوتی ہے، مجھے اصول بھی عزیز ہیں اور انا بھی لیکن میری تو ساری زندگی ’انا‘ پرکھڑی ہے، ریشمی آنکھیں، جھنڈے والی سرکاری گاڑی اور نیلی بتیاں سارے سیاستدانوں کی طرح مجھے بھی پسند ہیں۔

نواز شریف کو ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ میں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام بھی پیش کیا تھا اور بعض اوقات میں بطور وزیر داخلہ منظر سے غائب ہو جاتا تھا۔ یہ مجھ پر سراسر بہتان ہے، میں مرضی کا بندہ ضرور ہوں لیکن ن لیگ کے جاوید لطیف نے حال میں جو بیان داغا کہ وزیر اعظم عمران خان اورڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دھرنے کا سہولت کار میں تھا۔ اس کا جواب تو میجر عامر نے بھی دے دیا۔

اب تھوڑی سی بات الیکشن 2018 کی ہو جائے حلقہ میں میرا ذاتی ووٹ بنک تو تھا ہے اور رہے گا لیکن اتنا اثرورسوخ نہیں ہے کہ بغیر کسی دوسری جماعت کی سپورٹ کے یہاں سے جیت سکتا۔ میں نے قومی اسمبلی کے این اے 59 اور این اے 63 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 10 اور 12 سے الیکشن لڑا۔ این اے 59 سے ن لیگ نے راجا قمر الاسلام کو ٹکٹ دیا تو انہیں صاف پانی اسکینڈل میں نیب نے گرفتار کر لیا، میرے ساتھ ظلم ہوا کیونکہ میں نے’ بچوں کے نیچے سیاست‘ نہ کرنے کا کہا تھا راجا قمر الاسلام کے بچوں کے نیچے الیکشن لڑنا پڑا، دوسری طرف میرے مقابلے میں تحریکِ انصاف کے غلام سرور خان 89  ہزار 55 ووٹ لیکر جیت گئے مجھے 66 ہزار 369 ووٹ ملے اور میں ہار گیا راجا قمر الاسلام کو 21 ہزار 754 ووٹ جبکہ تحریک لبیک 14 ہزار 320 ووٹ لے گئی۔ راجا قمر الاسلام اور تحریک لبیک میرے ووٹ تھے حالات کی ستم ظریفی نے یہ وقت مجھے دکھایا ورنہ میرے ٹوٹل ووٹ 1 لاکھ 2 ہزار 443 تھے۔ یہی کچھ این اے 63 میں میرے ساتھ ہوا۔

پی پی 10 سے میں نے 53 ہزار 145 ووٹ حاصل کیے تحریک انصاف کی محترمہ نوید سلطانہ نے 22 ہزار 253 ووٹ حاصل کیے۔ ایک بات مجھے بار بار تنگ کرتی ہے مجھے (ن) جیسی پارٹی نہیں ملے گی اور شہباز شریف کو میرے جیسا دوست نہیں جو رات کی تاریکیوں میں نوازشریف کے لئے راہ ہموار کرتے تھے۔ بچے مجھے مفاد پرست سمجھتے ہیں لیکن میں اصول پسند ہوں، اس بات کا جواب ن لیگ کے بچے نہیں، شہباز شریف صحیح دے سکتے ہیں۔ ہوں سب کا لاڈلا نہیں آﺅں گا، پنجاب اسمبلی اگلے پانچ سال بھی کیونکہ میرا قد بڑا ہے پنجاب اسمبلی سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments