میں بے وفا نہیں، برا بھی نہیں، بس صحافی ہوں


\"sanjay-sadhwani-humsub\"بات اگر رشتوں کی ہو تو کہتے ہیں دوستی کا رشتہ خون کے رشتوں سے بڑا ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ دوست اگر اچھا ہو اچھے سے مراد کوئی خاصیت نہیں بلکہ وفا کرنے والا ہو تو وہ رشتہ خون کے رشتوں پر بھی بھاری ہوجاتا ہے۔ مٹھی میرا آبائی شہر ہے۔ میری پیدائش صحرا کی ہے توجوانی بھی ریتلے ٹیلوں پر گزری ہے۔ تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی ہے مگر گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے حیدرآباد میں رہائش پذیر ہوں۔ میں حیدرآباد آیا تو بڑے خواب لے کر آیا تھا، خیر وہ بات پھر کبھی۔ چند روز پہلے گاؤں میں میرے کزن کی شادی تھی تو انھی ایام میں میرے دوست کی بھی شادی تھی۔ اب معاملہ ایسا سنگین ہوگیا تھا کہ میں خود پریشان ہوگیا۔ جانا تو دونوں ہی شادیوں میں تھا مگر الکٹرونک میڈیا کی ایسی ڈیوٹی ہے، جس میں ہم جیسے چھوٹے رپورٹر کے لیے چھٹی حاصل کرنا اور زیادہ چھٹیاں کرنا، ایسا ہے جیسے اپنی نوکری سے کھیلنا ہو۔ کچھ صحافی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے چھٹی کرنا تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے، مگر ہم جیسے چھوٹے نمایندے قطعی ایسا نہیں کر سکتے۔

ہاں تو ذکر تھا، کزن کی شادی کا اور دوست کے ولیمے کا۔ مجھے بارات میں جانے کا چاؤ ہوتا ہے، اور بچپن سے رہا ہے مگر کیا کروں نہ بارات میں جا سکا نہ ہی کزن کے ولیمے کی دعوت میں شرکت کی۔ بس چوری چھپے دوست کے ولیمے میں پہنچا ایک سیلفی لی اور فورا ہی کزن کے پاس اس کی مہندی کی تقریب میں گیا۔ حال احوال پوچھے گئے گپ شپ کی۔ کزن نے زور دیا تو دو نوالے کھانے کے لیے۔ کزن کہتا رہا کہ کل صبح بارات میں لازمی شامل ہونا، بارہ بجے سے پہلے یہاں پہنچ جانا۔ کیا تھا کہ میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتا گیا اور ایسے ہی چل دیا۔ دوست کو سمجھایا کہ معذرت تیری بارات میں نہیں چل سکتا، کیوں کہ کل کی اسائنمنٹ بہت ساری ہیں۔ کل فلاں سیاسی رہنما آ رہا ہے۔ دن میں اْس کی پریس کانفرنس ہے۔ رات میں وہ آئے گا، پھر پولیس کی کارروائیاں، کورٹ کی خبریں سب کور کرنی ہیں۔ بس یار مجھے جانا ہوگا۔ ہوسکے تو معاف کردینا۔ دوست سے معذرت کرکے اسے ناراض کرکے کزن کو دلاسا دے کر نکلا کہ بھائی آپ بے فکر ہوجائیں کل صبح جلدی ہی پہنچ جاوں گا۔ تمھاری بارات میں تمھارے ساتھ ہوں گا۔ یہ یقین دہانی کرانے کے بعد وہاں سے نکلا۔ جب بہت دنوں بعد گاوں جانا ہوتا ہے تو کئی پرانے دوست، بچپن کے پیارے یار مل جاتے ہیں۔ دوست اور کزن سے رخصت لیے مجھے رات کے دو بج گئے تھے۔ وہاں سے نکلا تو دو اور دوست ساتھ تھے۔ ہم ایک جگہ بیٹھے تھے۔ وہ کہتے ہیں ناں آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا۔ یک دم سے ایک گاڑی کی روشنی آنکھوں پر پڑی۔ میں دور ہی سے دیکھتے سمجھ گیا تھا کہ آنے والا یہ دوست بھی ناراض ہوگا۔ میں ابھی منہ چھپاتا ہی کیا اتنے میں گاڑی کی بریک لگ گئی۔ رات کے دو بجے تھے اور وہ دوست گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہی کہنے لگا کہ بھائی سلام ہو۔ تو نے بتایا تک نہیں کہ آیا ہے۔ میں اْس دوست کو دیکھ کر شرمندہ ہوا۔

دو دن پہلے ہی کی بات تھی، وہ دوست حیدرآباد آیا تھا مگر میں صرف اسے دس منٹ ہی دے سکا۔ حیدرآباد میں اْس نے ملتے ہی کہا تھا کہ بندہ کھانے کا پوچھ لیتا ہے۔ میں \"hyderabad-press-club\"وہاں بھی شرمسار ہوا اور مٹھی میں بھی۔ آنکھیں اْس دوست سے ملا نہیں پایا۔ نہ یہ سب میں نے جان بوجھ کر کیا اور نہ ایسا کرنا چاہا مگر کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو نہ چاہتے بھی ہو جاتی ہیں۔ کون ہوگا جو اپنے دوستوں سے نہیں ملنا چاہے گا یہ بھی بتلا دو بھلا کہ کون سا ایسا شخص ہوگا جو چا ہے گا، اپنے بچپن کے دوست کی شادی میں شرکت تک نہ کرے؟ یہ ہمارے طالب علمی کے دور کی بات ہے۔ شہر میں کوئی دعوت ہوتی تھی، سب سے پہلے پہنچ جاتے تھے۔ آخر میں جب گھر والے کہتے تھے بھائی کہیں بستر کرواؤں کیا؟ تب نکلتے تھے مگر بدقسمتی سے اب صرف دوستوں کی خوشی میں شامل ہونے کے بجائے منہ دکھانے تک ہی محدود ہوگئے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ میں جان بوجھ کر رہا ہوں؟ نہیں ایسا بھی نہیں ہے اور نا ہو سکتا ہے کیوں کہ ہم یاروں کے یار ہیں مگر بدقسمتی سے ایک ایسے شعبے میں آگئے ہیں، جہاں بقول وسعت اللہ خان صاحب کہ صحافت اسٹرپ ٹیز بن گئی ہے، جہاں ننگا ناچ عام سی چیز بن گیا ہے۔ ننگا ناچ کوئی صحافی اپنی مرضی سے کرنا نہیں چاہتا وہ مجبور ہوجاتا ہے، اپنی نوکری بچانے کے لیے۔ اپنے پورے خاندان کو پریشانی سے بچانے کے لیے کیوں کہ جو ریٹنگ کی دور چینلوں میں چل رہی ہے، وہاں ناچنے والوں ہی کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی نوجوان صحافی بغیر ناچے صحافت کرنا چاہے گا تو نہ ادارہ اْسے قبول کرے گا اور نہ شہر کے بڑے صحافی۔ کیوں کہ چھوٹے صحافی کی قدر تبھی ہوتی ہے جب اْس کے پاس خبر ہوتی ہے، اور ٹی وی کی صحافت میں بغیر ناچے نوجوان صحافی خبر حاصل نہیں کر سکتا۔

وسعت اللہ خاں صاحب کو پڑھ ہی کے ہم صحافی بنے تھے۔ آج تک اْن کے تمام کالم ذہن و قلب سے گزرتے ہیں۔ ہمیں دیکھ کر لوگ تبصرے کرتے ہیں کہ بھائی بڑا آدمی بن گیا ہے۔ بڑا آدمی نہیں بلکہ سائیکو ہوگئے ہیں۔ اب تو دماغ کی ایسی دہی بنی رہتی ہے کہ سوائے خبروں کے کوئی بات یاد نہیں رہتی۔ مگر ان دنوں ایک نیا چینل مارکیٹ میں آنے کے بعد ایک بات خبر کے علاوہ بھی یاد رہتی ہے وہ یہ ہے کہ بھائی تم فلاں چینل میں جا رہے تمھیں فلاں چینل کی مبارک ہو، بس اس سے زیادہ ہمارا دماغ نہ کہیں کام کرتا ہے نہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگ دیکھتے بھی ہیں اور ناراض بھی ہوتے ہیں، کئی دوست ساتھ بیٹھتے اور ساتھ رہنے میں پریشان ہوجاتے ہیں۔ کچھ دوست تو یہ بھی تبصرے کرتے ہیں کہ اتنی کال آتی ہیں کوئی طریقہ ہوتا ہے بندے خود کو بھی سمجھنا چاہیے، اب ہم کیا سمجھائیں ہماری روزی روٹی انھی دھکوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ یہ فون کالیں ہی ہمیں روزگار دیتی ہیں۔ کئی لوگوں کوآدھی رات کے وقت فون کالیں تنگ کرتی ہوں گی مگر ہمیں کبھی کسی کال نے تنگ نہیں کیا سوائے ایسی کالوں کے جو یہاں نہیں لکھنا چاہتا۔

\"sanjay-sadhwani\"صحافی کی زندگی بھی عجیب ہے۔ جب چھوٹے شہر میں رپورٹر تھے اور کوئی بڑے شہر کا صحافی ہمارے فون نہیں اٹھاتا تھا تو طرح طرح کی باتیں ذہن میں آتی تھیں کہ کتنا بڑا آدمی ہے ہمارا فون تک نہیں اٹھاتا مگر بعد میں یوں ہوا کہ اب ہمیں بھی لوگ گالیاں دیتے ہیں، واقعہ کچھ یوں بھی ہے جب آپ اکیلے رپورٹر ہوں کئی شہروں کی ذمہ داری آپ کے کندھے پر ہو، آپ اپنا جنم دن بھی نہ منا پائیں اور آپ کے علم میں بھی ہو دو دن بعد آپ کا ایسا دوست آپ کے پاس آنا ہے جس کی وجہ سے آپ صحافی بنے ہیں، جس نے آ پ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس نے آپ کو انٹرویو میں جانے کے پیسے دیئے ہوں بھلا کوئی بتائے اْس دوست سے کون نہیں ملنا چاہے گا مگر پھر بھی آپ اْس سے نہ مل سکیں تو اْس کی نظروں میں آپ ہی قصوروار ہوں گے۔ اب بھلا اْس دوست کو کوئی کیسے یقین دلائے کہ بھائی قصور وار میں نہیں اور نہ ہی میری غلطی ہے۔ میرا پروفیشن ہی ایسا ہے۔

تمام لوگ نہیں جانتے کہ صحافی کیسے چلتے ہیں۔ لوگ تو باہر سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ تو کوئی بڑا سیٹھ ہو گا۔ اس کا فلاں ایم این اے دوست ہے اس کا تو فلاں وزیر سے واسطہ ہے مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ ابتر ہوتی ہے۔ کہتے ہیں صحافی ہونے کے بعد لوگوں کے رابطے بڑھتے ہیں دوستوں کی بھرمار ہوتی جاتی ہے یہ بات درست بھی ہو سکتی ہے مگر میں نے تو صحافت کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد اپنے کئی دوست گنوا دیئے ہیں۔ کچھ ایسے دوست بھی ناراض ہیں جن کی وجہ سے میں صحافی بنا۔ جس نے میری غلطیاں نکال کر ہمیں خبر لکھوانا سکھائی، آج بد قسمتی سے وہ ناراض ہیں اور وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں اب اسے ہمارے ناراض ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر ایسی بات نہیں آج بھی مجھے اْن کی ضرو رت ہے یہ تو ایک بات ہوئی۔ کئی ایسے دوست ہیں اور تھے جنھوں نے ناتا صرف اس لیے توڑا کہ اْن کے گھروالے خوف زدہ ہو گئے۔ کچھ نے بات کرنا بند کی تو کچھ دور ہوگئے کسی نے کہا دوستی رکھی ہے تو نبھانی ہے کوئی چپکے سے مل رہا ہے تو کوئی موبائل فون کی حد تک محدود ہوگیا، مگر اْن کے والدین آج بھی پریشان رہتے ہیں کہ کیسے لڑکے سے دوستی رکھی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صحافی ہی سب کچھ ہوتا ہے، اصل میں صحافی کچھ نہیں ہوتا، صحافت اور قلم ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ آپ کا قلم جتنا تیز چلے گا اتنے ہی لوگ آپ کے دشمن بنتے جائیں گے۔ لوگوں کی دشمنی سے کبھی مایوس نہیں ہوا نہ کبھی کسی مافیا سے ڈر لگا ہے۔ دکھ جب بھی ہوا ہے دوستوں کی ناراضی پر ہوا ہے۔ تمام اْن دوستوں سے معذرت چاہتا ہوں جن کے لیے دکھ کا باعث بنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments