میں نے اپنی بہن پر مضمون لکھا ہے


بہت دنوں سے ایک ہی معاملہ زیر بحث ہے کبھی سوشل میڈیا پر، تو کبھی محفلوں میں۔ بہت سوں نے مثبت سمجھا سوال کو اور کچھ  مخالفت میں بلاگز لکھ کر اپنی \"maimoona-saeed\"بھڑاس بھی نکال لی ۔ میں بات کر رہی ہوں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے فنکشنل انگلش کے امتحانی پرچے کے اس سوال کی جس پرعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ میں فرض کرتی ہوں کہ میں امتحانی سنٹر میں موجود ہوں تین گھنٹے کا وقت ہے سوال تبدیل ہونے کا آپشن بھی موجود نہیں ہے۔ مقررہ وقت کے دوران مجھے سوال لازمی حل بھی کرنے ہیں ۔ سوال پر اعتراض اپنی جگہ لیکن میں اس سوال کو حل نہ کر کے اپنا تعلیمی وقت ضائع نہیں کروں گی اور نہ ہی میرے پاس اتنی رقم ہے کہ بار بار فیس ادا کر کے امتحانی سنٹر میں پنہچوں تو پہلا کام پرچہ حل کرنا ہے ۔

ویسے تو ہم تین بہنیں ہیں اور میرا نمبر آخری ہے یوں تو میری دونوں ہی بہنیں مجھ سے عمر میں بڑی ہیں لیکن اگر بات صرف سب سے بڑی بہن کی جائے تو، 23 سال عمر، درمیانہ قد، صاف رنگت اور کالے بال جو  ان کی کمر تک آتے ہیں اور ان پر بھلے بھی لگتے ہیں ۔ نین نقش سادہ ہیں لیکن کچھ اپنی تراش خراش کر کے اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے سے وہ خوبصورت اور نفیس لڑکی دکھتی ہیں اگر ان کے جسمانی خدوخال کی بات کی جائے تو بالکل وہی پیچ و خم ہیں جو ایک مرد اور عورت کی آپس میں تفریق کو ظاہر کرتے ہیں تاہم ان کا شمار نہ تو کمزور افراد میں ہوتا ہے اور نہ ہی وہ موٹاپے کا شکار لگتی ہیں  مناسب جسم اور وزن یہی کوئی 50 کلو ، ان کے میل ملاپ کا حلقہ انتہائی مختصر ، انا پرست، غصیلی اور بولنا صرف اتنا جب ضرورت ہو، بی ۔ اے کر رکھا ہے اور ساتھ ٹیچنگ کا ایک پروفیشنل کورس بھی،

 یہ تو بات ہے 19 سال قبل کی، جب ان کی شادی نہ ہوئی تھی ۔ شادی کے بعد پہلے پانچ برس میں بہن نے 2 بیٹوں اور ایک بیٹی کو جنم دیا ۔ بچوں اور شوہر کو سنبھالنے کے ساتھ ساس، سسر کی ذمہ داری بھی نبھائی ۔ ہمارے گھر کا اور ان کے سسرال کا ماحول کچھ مختلف تھا جس میں ایڈجسٹ کرتے کرتے انہیں کچھ وقت بھی لگا تاہم ان سب کمپرومائز کے بعد وہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے قابل ہو گئیں  اس دوران جو مشکلات انہوں نے برداشت کیں وہ اگر کوئی عام انسان ہوتیں تو ہمت  ہار جاتی۔ شادی کے بعد سسرال کی جانب سے کئی بار جسمانی تشدد کا سامنا بھی رہا لیکن بچوں کا مستقبل بچانے کے لئے ہر بار اپنی انا کو قربان کیا اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو برداشت کیا ۔

ان حالات کے بعد جب بچے بڑے ہوئے تو ماں کا احساس کرنے لگے ہیں، اپنی ماں کو اب خیال رکھنے کا کہتے ہیں، تو کالے سے سفید ہوتے بالوں کو ایک بار پھر کالا رکھنے کے لئے میری بہن نے کسی ہیر کلر کا استعمال شروع کر دیا ہے ۔ پہلے جیسی خوبصورت نہیں رہیں، بچوں کی پیدائش میں خون کی کمی کا سامنا ہوا تو صاف رنگت گندمی میں تبدیل ہوئی ۔ وزن بھی بڑھ کر 75 کلو تک چلا گیا ہے اب وزن بڑھا ہے تو چربی بھی کہیں نہ کہیں جسم کے پیچ و خم ختم کر گئی ہے ۔ غصیلی طبعیت تبدیل ہوئی تو خاموش رہنا سیکھ لیا ہے ۔  چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رکھ کر ناراض ہو جاتی ہے اور ہمیں کئی روز تک اس کی ناراضی کی خبر بھی نہیں ہوتی لیکن پھر وہ بغیر منائے مان جاتی ہے۔  کوشش کرتی ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ۔ بات اپنے بچوں کی ہو، شوہر کی بہن، بھائیوں یا پھر والدہ کی، حساس اس قدر کہ فوراً آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں ۔ پچھلے ہی دنوں بیمار ہوئیں اور ایک ناکام آپریشن کی تکلیف بھی برداشت کی ہم سب نے مل کر انہیں سنبھالا اب چند ماہ بعد اسے ڈاکٹر تبدیل کر کے اس امید سے آپریشن کروانا ہے کہ اس بار کامیابی ملے گی  ۔ وہ سمجھتی ہیں ان کے بچے بڑے ضرور ہوئے ہیں لیکن ابھی اتنے سمجھدار نہیں کہ انہیں اس کی ضرورت نہ ہو۔ اس لئے ایک بار پھر، ہمت کر کے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں ۔ یہ تو تھی میری سب سے بڑی بہن، منجھلی لیکن مجھ سے بڑی بہن کی کہانی ابھی باقی ہے ۔

 

میمونہ سعید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

میمونہ سعید

میمونہ سعید جیو نیوز سے وابستہ ہیں۔ وہ ملتان میں صحافت کے فرائص سرانجام دیتی ہیں ۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف اوکلوہوما کی فیلو بھی رہ چکی ہیں ۔

maimoona-saeed has 9 posts and counting.See all posts by maimoona-saeed

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments