بیوروکریسی سے اب کوئی امید نہ رکھیں


کرنٹ ایشو تو وزیراعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں کا ہے۔ موڈ بھی کچھ اس پر ہی لکھنے کا تھا کیونکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا تعلق بھی میرے علاقہ ضلع رحیم یار خان سے ہی ہے۔ رحیم یار خان کے دوستوں سے خبریں اور معلومات ملتی رہتی ہیں مگر دو تین دنوں سے طبیعت شدید بے چین سی ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ 50 سال میں ہمیں ایک بھی ایسا لیڈر، سیاستدان، بیوروکریٹ، جنرل یا کوئی علامہ، مولانا نصیب نہ ہوسکا جو قوم کو سیدھے راستے پر لے آتا۔

ہم نے تو جیسے تیسے گزار ہی لی، ہماری آنے والی نسلیں کیسے اس ملک میں زندہ رہ پائیں گی۔ کچھ روز ہوئے ایک بہت ہی پیارے انسان جو کہ میرے محسن بھی ہیں سے ملاقات ہوئی، موصوف قابل ترین ڈی ایم جی افسر ہیں مگر آج کل افسر بکار خاص بنے ہوئے ہیں۔ بہت عرصہ ہوا ان سے ملاقات کا وقت ہی نہ مل سکا، بہت کوشش کی مگر وقت نہ نکال سکا، بس ایک دن فون کیا تو فوراً بولے آج کیسے یاد آئی، بہرحال ملنے کا وقت مانگا تو فوری مہربانی کردی۔

ہم صحافیوں کی بہت بری عادت ہے ہر وقت کھوج میں رہتے ہیں۔ ملاقات میں حال احوال پوچھنے کے بعد فوراً سوال کر دیا جناب حکومت ناکامی کی طرف کیوں جا رہی ہے۔ وہی افسر، وہی بیوروکریٹس، وہی نظام، وہی قوانین مگر تبدیلی خان سے ڈلیور کچھ نہیں ہورہا۔ مہربان بولے یہ حالات ایک دن میں یہاں تک نہیں پہنچے، پانچ دہائیوں کا سفر طے ہوا ہے پھر یہ نوبت آئی ہے۔ کسی نے آج تک اس پر غور ہی نہیں کیا۔

کہنے لگے پاکستان نے جتنی ترقی کی وہ 1968 تک کی ہے۔ اس کے بعد ترقی کے پہیے کو زنگ لگنا شروع ہو گیا۔ ڈیم 1968 سے پہلے بنے اس کے 62 برس بعد ہم کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکے، 5 سالہ منصوبے کا پروگرام بھی اس دور میں بنا، جنوبی کوریا ہمارے پانچ سالہ منصوبے پر عمل کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ پی آئی اے بنی جس نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی، امارات ائر لائن ہم نے بنا کر دی، تعلیم کا نظام بہت مضبوط تھا وغیرہ وغیرہ۔

میں نے پھر سوال کر دیا پھر 1968 کے بعد کیا ہوا تو جواب ملا کہ ملک چلانا بیوروکریسی کا کام ہوتا ہے۔ حکومتیں پالیسیاں بناتی ہیں جس کو عملی جامہ بیوروکریسی پہناتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت جو بیوروکریسی تھی وہ انگریز کی تربیت یافتہ تھی۔ وہ بیوروکریٹس انڈین سروس کے بیوروکریٹس تھے۔ انتہائی ذہین، محنتی افسر تھے۔ سیاسی مداخلت نے بیوروکریسی کو رفتہ رفتہ کمزور کر دیا۔

انہوں نے واقعہ سنایا کہ آمریت کے دور میں اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے وفاقی سیکرٹری تعلیم کو بلایا اور کہا کہ نصاب میں میری شان میں مضامین شامل کیے جائیں مگر اس بیوروکریٹ نے انکار کر دیا کہ یہ ممکن نہیں، بچوں کو تعلیم دینا ہے ناکہ ان کو سیاسی بنایا جائے۔ انکار پر جنرل صاحب ناراض ہو گئے اور فوری وفاقی سیکرٹری کا تبادلہ کر دیا۔ دوسرا سیکرٹری لگایا، اسے بھی جنرل نے بلوایا اور وہی فرمائش کردی۔ اس سیکرٹری نے بھی انکار کر دیا کہ جناب یہ ممکن نہیں۔ اسے بھی ہٹا دیا، پھر نیا لگایا وہ بھی نہ مانا پھر چوتھا لگایا مگر بات نہ بنی۔ آمر تبادلے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ بالآخر پہلے والے صاحب کو دوبارہ سیکرٹری تعلیم لگا دیا، یہ تھے بیوروکریٹس جس کام سے ایک افسر انکار کردیتا تھا تو دوسرا بھی نہیں کرتا تھا۔

پھر بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تو بیوروکریسی کو قابو میں رکھنے کے لئے سروس رولز تبدیل کیے۔ پھر یہ کام آگے بڑھتا گیا۔ پھر جنرل مشرف نے احتساب کے نام پر نیب بنایا جس نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سلمان غنی بہت اچھے بیوروکریٹ تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے دس سال ایک کیس کھول دیا گیا جو آج پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اب بتاؤ اس ماحول میں کیسے کام کیا جاسکتا ہے؟

پرتکلف چائے پینے کے بعد اجازت لی اور چلا آیا۔ ان کی باتیں سن کر طبیعت بوجھل ہے کہ اس ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جو بھی حکمران اقتدار میں آتا ہے، اختیار کے نشے میں اندھا ہوجاتا ہے۔ کرپشن کرپشن کا جتنا راگ الاپا گیا ہے اس سے کرپشن کا سانپ تو مرا نہیں بلکہ راگ الاپنے سے ارد گرد کا ماحول بھی خراب ہو گیا ہے۔

مشرف حکومت کے بعد زرداری اور نواز حکومتوں میں بھی نیب کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ دس، دس سال سے نیب انکوائریاں کر رہا ہے مگر کچھ ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے جو ذرا مخالفت میں بولا فوراً نیب طلب کر لیتا ہے اگر آج حکومت یہ سب کر ارہی ہے تو کل کو اس حکومت نے بھی اپوزیشن میں آنا ہے پھر کیا ہوگا۔

مہذب معاشروں میں کرپشن کو اس طرح ختم نہیں کیا گیا جس طرح ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ یورپی ممالک میں جب کسی تحقیقاتی ایجنسی کا اہلکار کسی ملزم کی کلائی آ کر پکڑتا ہے تو ملزم سمجھ جاتا ہے کہ ان کے پاس میرے سارے ثبوت آ گئے ہیں اب میرا بچنا ممکن نہیں، میں نے بہت سے لوگوں سے نیب تحقیقات کے بارے میں سنا ہے کہ نیب افسران نے جس افسر کو پکڑا ہوتا ہے اس کے ساتھیوں کو آ کر ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ ہمیں کوئی ثبوت دو، یہ کیا طریقہ ہے تحقیقات کرنے کا۔

چند روز قبل یہ خبر بھی آئی ہے کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کی چھانٹی ہو رہی ہے، جن پر کرپشن کیسز ہیں، جس جن کی اے سی آر اچھی نہیں ان کو ریٹائر کر کے گھر بھیج دیا جائے گا۔ ہر حکمران نے بیوروکریسی کو دبانے کے ہتھکنڈے استعمال کیے موجودہ حکومت بھی یہ شوق پورا کر لے۔ اگر بات نہ بنے تو ٹائیگر فورس سے کام چلا لیں۔

قابل ترین بیوروکریٹس کرپشن کے کیسز میں آج پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ وہ افسران جن کے کمرے سے باہر نکلتے ہی زمین ہلتی تھی، نیب کے معمولی اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ کوئی خان صاحب کو سمجھائے کہ جناب جب بیوروکریٹ اپنے ساتھی کا حشر دیکھ رہے ہیں تو وہ کیسے کام کر کے آپ کو ڈلیور کریں گے۔ اوپر سے وزیراعظم اب بھی کنٹینر والی بڑھکیں مارتے ہیں جو افسر بات نہ مانے اسے گھر بھیج دیا جائے، یا جو افسر کام نہیں کرے گا اسے فارغ کر دیا جائے گا۔ ان حالات میں بیوروکریسی کیسے کام کرے؟

یہ ایک معمولی سی بات ہے جو کہ ایک چائے کے کھوکھے والا بھی سمجھتا ہے۔ کھوکھے والا چائے دینے والے چھوٹے کو بھی عزت سے بلاتا ہے۔ اگر وہ عزت سے نہ بلائے تو چھوٹا آدھے کپ ایک ہفتے میں توڑ ڈالتا ہے۔

خان صاحب کرپشن روکنے کے لئے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو ذلیل نہ کریں، قوانین موجود ہیں۔ احتساب کریں جیسے احتساب کرنے کا حق ہوتا ہے۔ بیوروکریسی، افسران کو وہی عزت دیں جو کہ 1968 سے قبل ان کو دی جاتی تھی پھر دیکھیں کام کیسے ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے بیوروکریسی کو کرپٹ ثابت کرنا ہے تو پھر اس بات کی امید نہ رکھیں کہ بیوروکریسی کچھ ڈلیور کر کے دکھائے گی۔ ویسے بھی آپ کو بیوروکریسی سے کیا کام لینا ہے۔ آپ کا ہر کام کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ ادارے کے ریٹائرڈ افسر ہی بہت ہیں جن کو آپ آئے روز تعینات کر رہے ہیں کیونکہ سول افسران کو تو ٹرینڈ ہی نہیں کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments