کیا مصطفی زیدی کو اخلاقی بے راہروی نے مار ڈالا؟


نامور شاعر اور سی ایس پی آفیسر مصطفی زیدی 12 اکتوبر 1970 کو کر اچی میں ایک ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ اس وقت ان کی عمر چالیس برس تھی۔ ایک خوبرو عورت شہناز گل کو پو لیس نے حراست میں لے کر شامل تفتیش کیا۔ یہ خاتون وہی شہنا ز تھی جو ان کی چند معروف نظموں کا عنوان ہے۔ مصطفی زید ی کی مو ت کے بارے میں دو آرا سامنے آئیں۔ اول یہ کہ شہناز گل نے انہیں زہر دیا اور دوئم یہ کہ نامور شاعر نے خودکشی کی تھی۔ لیکن اس پراسرار مو ت کی وجہ آج تک معلوم نہ ہو سکی۔ شہنا ز گل کو رہا کر دیا گیا۔ اس رات کو کیا ہو ا جب یہ نامور شاعر ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ کوئی گواہ یا ایسی شہادت نہ مل سکی جس سے اس راز سے پر دہ اٹھ سکتا۔ اسی کا کہا ہوا شعر اس پر صادق آیا۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

مصطفی زیدی ایک ایسے شاعر تھے جس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری جیسے بڑے شاعروں نے سراہا تھا۔ وہ ایک ایسا شاعر تھا جو محبت اور زندگی کے بارے میں خاص نکتہ نظر رکھتا تھا۔ اسے بطور شاعر اپنی اہمیت کا احساس تھا۔ کتا ب ’’ مصطفی زیدی شخصیت اور شاعری ‘‘ کے مصنف ظفراللہ خان نے لکھا ہے کہ ’’مصطفی زید ی محبت کا خوگر تھا اور اوائل شباب میں سات لڑکیو ں سے عشق رچا چکا تھا اور ان میں سے تین کے لیے تو خودکشی کرنے نا کام کوشش بھی کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ ایک امریکن ٹیچر کے عشق کے چکر میں بھی وہ خودکشی کرنے کی جانب راغب ہوا تھا۔ جب حکومت نے 303 آفیسرز کو بدعنوانی کے ضمن میں نوٹس جا ری کئے تو ان میں مصطفیٰ زیدی بھی شامل تھا۔ تب بھی اس نے خودکشی میں پناہ تلا ش کرنا چاہی۔ زیدی کی مو ت کے بعد شہناز گل نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ وہ مجھے شادی کے لیے مجبور کر تا رہا، میں اسے کہتی کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور دوبچوں کا باپ ہے اس لیے میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔ لیکن وہ باز نہ آیا اور ایک دن اس نے دھمکی دی کہ اگر میں مر گیا تو اس کی ذمہ دار میں ہوں گی۔ ‘‘ اس کے بہی خواہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے خیالات کو سوسائٹی نے کوئی اہمیت نہ دی اور حرف تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ حکومت نے اسے سروس سے معطل کر دیا، یہ تمام عوامل ایسے تھے جو اس کے اند ر جارحیت پید ا کرتے رہے جس کے نتیجے میں اس نے خودکشی کی تھی۔

10ا کتوبر 1930 کو مصطفی حسنین زیدی الہ آباد میں پید ا ہو ئے۔ تیغ الہ آبادی کے قلمی نام سے شاعری کا آغاز کیا۔ سترہ برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہو چکا تھا۔ 1952 میں گورنمنٹ کالج لا ہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اسلامیہ کالج کراچی اور پشاور یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پیشہ ورانہ امور کی تربیت کے لیے انہیں انگلینڈ بھیجا گیا۔ ڈپٹی کمشنر ہونے کے بعد ڈپٹی سیکرٹری بھی مقرر ہوئے۔ سترہ برس کی عمر میں اس کی شاعری نے سب کو حیران کردیا کہ اس کم عمری میں بھی اس کی شاعری میں پختگی موجزن تھی۔ ابتدا میں وہ فراق گھوکھپوری سے متاثر تھے اس کے بعد جو ش ملیح آبادی کی انقلابی فکر سے متاثر ہو ئے۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنی الگ راہ بنا نے میں کا میا ب ہو ئے۔ ان کے مجموعہ ہا ئے کلام میں ’’روشنی ‘‘۔’’شہر آذر‘‘۔’’مو ج میری صد ف صدف ‘‘۔’’ گریبان‘‘۔’’قبائے ساز‘‘اور ’’ کوہ ندا‘‘ شامل ہیں۔ مصطفی زیدی نے ایک جرمن خاتون ویرا سے شادی کی جن سے ان کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ان کی موت کے بعد ویرا زیدی اپنے وطن واپس لو ٹ گئیں۔

مصطفیٰ زیدی جب گوجرانوالہ آئے تو یہیں ان کی ملاقات شہناز سے ہوئی شہناز گُل ۔۔۔۔۔ وہ پری وش جو مصطفےٰ زیدی کی زندگی کے آخری ایام میں اس کی تنہائیوں کی رفیق اور زندگی کے آخری پُر اسرار لمحوں کے رازوں کی امین تھی

یحییٰ خان کا زمانہ تھا۔ جس نے اسکریننگ کر کے 303 افسران کو بیک جنبش قلم ملازمتوں سے فارغ کر دیا تھا۔ زیدی بھی اس کا نشانہ بن گئے۔ افسر شاہی ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ جرمن بیوی ویرا زیدی اور دونوں بچے جرمنی میں تھے، پاسپورٹ سرکار نے ضبط کر رکھا تھا، ایسے عالم میں ماسٹر ٹائر اینڈ ربر فیکٹری کے مالک فیاض ملک نے آگے بڑھ کر دوستی کا حق ادا کر دیا اور اپنے بنگلے کی انیکسی مصطفی زیدی کو رہائش کے لیے دے دی۔ اسی انیکسی میں ان کی ملاقاتیں ایک عرصے تک تو شہناز گل سے جاری رہیں، لیکن بعد میں یہ سلسلہ بوجوہ آگے نہ بڑھ سکا۔

ایک دن مصطفی زیدی نے حبیب بینک پلازہ کے سگنل پر رکی ایک کار میں دیکھا کہ ان کی محبوبہ شہناز گل معروف صنعت کار آدم جی پیر بھائی کے ساتھ بیٹھی ہے۔ مصطفی زیدی جیسا حساس اور زود رنج شاعر اس نظارے کو برداشت نہ کر سکا، وہ تو سمجھتا تھا کہ شہناز گل اس کی محبت میں گرفتار ہے، اس کی چاہتوں کی اسیر ہے۔

مصطفیٰ زیدی کی لاش دس اکتوبر 1970ء کو کراچی کے ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی۔ جبکہ شہناز گل بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔

(کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ زیدی مردہ حالت میں ہوٹل سمار کے ایک کمرے میں پائے گئے تھے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ ان کی لاش ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی۔ اس میں تضاد ہے)

جس پر بعد میں تحقیقاتی کمیشن بھی بنا تھا اور مقدمہ بھی عدالت میں گیا تھا۔ یہ مقدمہ اخبارات نے اس قدر اچھالا کہ مہینوں تک اس پر دھواں دھار بحث ہوتی رہی۔ ان دنوں ہمارے اخبارات اچانک ہی بالغ ہو گئے تھے کیونکہ عدالت میں شہناز گل کے دیئے گئے بیانات نے بہت سے لوگوں کو اپنے گھر آنے والے اخبارات کو روکنا پڑا تھا

اور ہفت روزہ چٹان میں شورش کشمیری نے ایک نظم لکھی۔ شورش کاشمیری منٹو کے تقی کاتب کے والد کی کچھ خصوصیات سے مملو تھے۔ اس ایک شعر سے اس نظم کے موڈ کا اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا۔

بانجھ ہو جائیں زمینیں، بیٹیاں پیدا نہ ہوں

یا خدا شہناز گل سیِ بیبیاں پیدا نہ ہوں

(مصطفیٰ زیدی اور شورش کاشمیری جیسے بیٹے پیدا ہونے میں کچھ مضائقہ نہیں۔۔۔ مدیر۔و۔م)

رضا علی عابدی نے مصطفی زیدی کے ساتھ نیم مردہ حالت میں پائی جانے والی خاتون شہناز کا احوال بھی اپنے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ پہلے یہ خبر بطور ایک چھوٹی خبر موصول ہوئی کہ ایک سرکاری افسر نے خودکشی کرلی ہے، جب خبر پھیلی کہ متوفی مصطفی زیدی ہیں تو تمام اخبارات اس خبر کی تفصیل کے پیچھے پڑ گئے اور بقول عابدی صاحب ایسی ایسی داستانیں نکال کر لائے کہ مصطفی زیدی اگر اس وقت بچ جاتے تو اب مر جاتے۔

عدالت میں حریت کے فوٹو گرافر نے شہناز گل کی ایک قد آدم تصویر کھینچ لی۔ رضا علی عابدی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد افتخار عارف نے ایک تقریب میں شہناز گل سے کہا کہ ’ابھی تو آپ پر دس بیس شاعر اور قربان ہو سکتے ہیں۔

عدالت نے طویل ردوکد کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ قتل نہیں بلکہ خودکشی تھی اور شہناز گل کو بری کر دیا۔ مصطفی زیدی کی وفات کا دکھ ادبی حلقوں ہی میں نہیں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں محسوس کیا گیا۔

جوش ملیح آبادی نے اس سانحے پر کہا \”زیدی کی موت نے مجھ کو ایک ایسے جواں سال اور ذہین رفیق سفر سے محروم کر دیا جو فکر کے بھیانک جنگلوں میں میرے شانے سے شانہ ملا کر چلتا اور مسائل کائنات سلجھانے میں میرا ہاتھ بٹایا کرتا\”

مصطفی زیدی کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔

شہناز گل کے لیے مصطفیٰ زیدی نے کئی غزلیں اور نظمیں کہی تھیں جن میں یہ غزل بہت مشہور ہے:

فن کار خود نہ تهی ،مرے فن کی شریک تھی

وه روح كے سفر میں بدن کی شریک تھی

اُترا تھا جس پہ باب حيا كا ورق ورق

بستر كے ایک ایک شکن کی شریک تھی

میں اک اعتبار سے آتش پرست تھا

وه سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی

وه نازشِ ستاره و طَنّازِ ماہتاب

گردش کے وقت میرے گہن کی شریک تھی

وه ہم جليسِ سانحہ زحمتِ نشاط

آسائشِ صلیب و رسن کی شریک تھی

ناقابل بیان اندھیرے کے باوجود

میری دُعائے صبحِ وطن کی شریک تھی

دُنیا میں اک سال کی مدت کا قُرب تھا

دل میں کئی ہزار قرن کی شریک تھی

(اس تحریر میں طاہر اصغر اور سلمان امین کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments