دشمن منہ زور ہے اور ہم ذرا مصروف ہیں


\"edit\"سرحدوں پر دشمن آگ برسا رہا ہے اور ملک میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نشانے پر لئے ہوئے ہیں۔ یہ ملک ایک جمہوری نظام کے تحت چل رہا ہے لیکن مباحث کا منبع پارلیمنٹ کی بجائے مختلف ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے ٹاک شوز ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ایک دوسرے کو اور ملک کے حکمرانوں کو موردالزام ٹھہرا کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ ملک کی خارجہ پالیسی کو ناکام اور حکومت کو نااہل قرار دیتے ہوئے کوئی ملک کی دفاعی پالیسی کے بارے میں لب کشائی کا حوصلہ نہیں کرتا۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے مختلف فوجی یونٹوں کے الوداعی دورے شروع کرکے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے سابقہ اعلان کے مطابق 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ گزشتہ دو برس کے دوران ملک کی جن سیاسی قوتوں نے جنرل راحیل شریف سے سیاسی اعانت کی امید باندھ رکھی تھی تاکہ نواز شریف کا دورِ اقتدار محدود کیا جا سکے وہ اب خاموشی سے نئے چیف کی تقرری کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ ازسرنو توقعات وابستہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ اس دوران ملک میں ایک ایسا سیاستدان بھی پھنکارتا پھرتا ہے جو فوج اور فوجی اداروں کا غیر سرکاری نمائندہ ہونے کا دعویدار ہے اور اعلان کر رہا ہے کہ فوج کا سربراہ بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سمندر کی لہروں میں مگرمچھ کروٹیں لے رہا ہے۔ یہ مگرمچھ کون ہے اور شیخ رشید کیسے اور کیوں کر اس سے مواصلت کرتے ہیں، اس کا جواب اس جمہوریت میں طلب کیا جا سکتا ہے جہاں جمہوری ادارے کام کر رہے ہوں یا ان پر اعتبار ظاہر کیا جائے۔

لائن آف کنٹرول پر آج دن بھر بھارت کی اشتعال انگیزی جاری رہی۔ اس سے زیادہ غیر انسانی حرکت کیا ہو سکتی ہے کہ بھارتی سرحدی چوکی کے نشانچیوں نے تاک کر ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا اور دس مسافر شہید ہو گئے۔ بس کے ڈرائیور راجہ گلفام نے بی بی سی کو بتایا کہ اس علاقے میں کوئی فائرنگ نہیں ہو رہی تھی لیکن جوں ہی بس سرحد پار نظر آنے والی بھارتی فوجی چوکی کے سامنے سے گزری بم کا گولہ بس کی چھت پر گرا۔ ڈرائیور تیزی سے بس کو آگے لے گیا لیکن چار مسافر فوری طور پر جاں بحق ہو گئے۔ 6 مسافر اسپتال پہنچتے ہوئے دم توڑ گئے۔ بعد میں آئی ایس پی آر ISPR کی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ بھارتی فوجوں نے زخمیوں کی مدد کے لئے آنے والی ایک ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا اور اس فائرنگ میں چار افراد زخمی ہوئے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ سے گزشتہ دو ماہ کے دران جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد 38 ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی فائرنگ کی زد پر آج تین پاکستانی فوجی بھی آئے جن میں سے ایک کیپٹن تھے۔ یہ تینوں شہید ہو گئے۔ ہفتہ عشرہ پہلے بھی بھارتی حملہ میں سات پاکستانی فوجی وطن عزیز پر قربان ہو گئے تھے۔ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کا فوری جواب دیا ہے۔ مزید سات بھارتی فوجی ہلاک کئے گئے ہیں۔

ملک کے وزیر دفاع کہتے ہیں کہ اشتعال انگیزی جس سطح پر پہنچائی جا رہی ہے وہ کسی بھی وقت بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ بھارت کی حکومت اور میڈیا اپنے لوگوں کو پاکستانی فوج کی بے قاعدگیوں اور بلااشتعال فائرنگ کے قصے سنا کر مشتعل کرنے میں مصروف ہے۔ ڈیڑھ ارب آبادی کے خطے میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ملک ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کے لئے تیار ہیں۔ دونوں طرف کے کوتاہ نظر سیاستدان صرف وقتی داخلی سیاسی مفادات کے پیش نظر فیصلے کرتے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ ان کے خلاف مقدمہ کی سماعت کر رہی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کرنسی نوٹ منسوخ کرنے کے اسکینڈل نما فیصلہ کے بعد عوام کے غم و غصہ کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے بھی اس غصہ کا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر اپنی سیاسی حیثیت کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ دونوں ملکوں میں مفاہمت، امن اور مل جل کر معاملات طے کرنے کی بات کرنے والی آوازوں کو تنہا کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس نفرت اور جنگ جوئی کے نعرے گلیوں، سڑکوں کے علاوہ ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے اسٹوڈیوز میں بھی سنے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ خطہ ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیا دونوں ملکوں کے لیڈروں کو احساس ہے کہ ایسی جنگ برصغیر میں آباد انسانوں کے لئے کیسی تباہی اور بربادی کا پیغام لے کر آئے گی۔

اشتعال انگیزی اور جنگ جوئی کے ماحول کے باوجود پاکستان نے روز اول سے مذاکرات کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان نے بھارت کی سفارتی مہم جوئی اور دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے سے جتن ضرور کئے ہیں۔ پارلیمانی وفود نے اہم دارالحکومتوں کا دورہ کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ستمبر میں اقوام متحدہ کے دورہ کے دوران کشمیر میں بھارت کی چیرہ دستیوں کا کھل کر اظہار کیا اور جس حد تک ممکن تھا اقوام متحدہ کی قیادت اور اہم ملکوں کے لیڈروں کو صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ بھارت اپنے طور پر پاکستان کی ہر دلیل کو مسترد کرکے اسے دہشت گرد ملک قرار دیتا ہے۔ اس کے سارے دلائل پرانے ہیں اور شکایتیں وہی ہیں جو گزشتہ 20 بر س سے سامنے لائی جا رہی ہیں۔ لیکن ان 20 برسوں میں بھارت نے اپنی معاشی قوت اور صلاحیت کی بنا پر اپنی سفارتی حیثیت و اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کے باصلاحیت سفارت کار ہوں یا پرجوش سیاستدان ۔۔۔۔ وہ دنیا میں جہاں جاتے ہیں، ان سے اظہار ہمدردی کے باوجود کوئی ملک بھارت کے خلاف محاذ قائم کرنے میں پاکستان کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کی وجوہات بہت واضح ہیں اور سب جانتے ہیں۔ امریکہ میں اب ایک انتہاپسند شخص صدر منتخب ہوا ہے۔ بھارت کے اتنے ہی انتہاپسند وزیراعظم کو یقین ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے آ جانے سے پروپیگنڈا کی جنگ میں اس کی قوت دوچند ہو جائے گی۔ اسی لئے وہ آنے والے مہینوں میں تصادم کی صورت حال کو ختم کرنے پر تیار نہیں ہوگا۔

ایسے میں پاکستان کے پاس کیا آپشن ہیں۔ حکومت کو تنقید کی سان پر لئے ہوئے اپوزیشن لیڈروں کے پاس بھی اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ پاکستان مسلمان آبادی کا ملک ہے۔ یہ گزشتہ تین دہائیوں سے کسی نہ کسی طرح جنگ اور تشدد کا مسکن بنا ہوا ہے۔ افغان جنگ کے بطن سے پیدا ہونے والی دہشت گردی نے گزشتہ ایک دہائی میں ملک کو ناقابل تلافی مالی اور جانی نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت پاکستان نے مختلف ادوار میں جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس کے صرف منفی پہلوؤں پر گفتگو کی جاتی ہے۔ کیوں کہ جس ملک میں بھی ایسے گروہ موجود ہوں گے جو ایک بے مقصد جنگ میں اپنے ہی لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہوں تو اس کے بارے میں یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ حالات بہتر ہو جائیں لیکن دنیا اس ملک اور حکومت کے مثبت اور قابل قدر اقدامات کی توصیف کرنے میں بخل سے ہی کام لے گی۔ اور جب مقابلے پر ایک طرف دہشت گرد ہوں اور دوسری طرف بھارت جیسا دشمن تو حالات کو سمجھنا اور تبدیل کرنا آسان نہیں ہو سکتا۔ حکومت پاکستان کو اسی مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ لیکن اپوزیشن کو اپنی سیاست کو تازہ رکھنے کے لئے حکومت کو ہر معاملے میں موردالزام ٹھہرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم از کم پاکستان جیسی جمہوریتوں میں اسی روایت کو گلے سے لگایا جاتا ہے۔ سو ہم اس کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔

پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو اس کے لئے مقابلہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ باوجود یکہ اس کا امکان کم ہے لیکن اس خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی سنگینی کو فراموش کیا جا سکتا ہے۔ پھر سرحد کے دونوں طرف جب ایسے سورما بھی موجود ہوں جو ایٹم بم کو شب برات کے پٹاخوں کی طرح استعمال کرنے کی باتیں کرتے ہوں اور نعرے باز سیاستدانوں کی عقل اور اختیار دونوں ہی محدود ہوں تو قوت فیصلہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو بموں اور توپوں کو اپنے کھلونے سمجھتے ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان میں قدرے زیادہ سنگین ہو سکتی ہے لیکن جنگ کے ماحول میں نئی دہلی کی سیاسی قیادت بھی اتنی ہی مجبور اور بے بس ہوگی جتنی اسلام آباد میں موجود منتخب حکومت کے سربراہ خود کو عاجز محسوس کرتے ہوں گے۔ لیکن یہ صورت حال سیاستدان خود پیدا کر رہے ہیں۔ جب بین الملکی معاملات کا فیصلہ سڑکوں، ٹی وی اسٹوڈیوز اور اخباروں کی شہ سرخیوں میں کرنے کی ٹھان لی جائے تو امن کی منزل دور اور ہوش و حواس کی باتیں عنقا ہو جاتی ہیں۔ برصغیر کے وہ لوگ جو ان اندیشوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں زبانیں دانتوں میں دبائے حیرت زدہ آنکھوں سے حالات کو بگڑتا دیکھ رہے ہیں۔

ان حالات میں پاکستان کیا کرے۔ پاکستان کیا کر سکتا ہے۔ حکومت کہتی ہے: مذاکرات۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے: حکومت دشمن کی ایجنٹ ہے، وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ سفارت کار کہتے ہیں: ہم دیوار سے سر ٹپکتے ہیں۔ فوج کے سربراہ بار بار متنبہ کر چکے ہیں: دشمن کا ہر جگہ ہر محاذ پر مقابلہ کیا جائے گا۔ ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے۔ وزیراعظم بیان دیتے ہیں: پاکستان بھرپور مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے….. یہ سارے بیان ایک عام آدمی پر ’’حملہ آور‘‘ ہوتے ہیں تو امن، ترقی و خوشحالی کی باتیں غیر اہم ہو جاتی ہیں۔ تباہی اور جنگ سے حاصل ہونے والی بربادی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ بس دل و دماغ میں جوش و جذبہ کا پٹاخہ پھوٹتا ہے اور معمولی تن و توش کا آدمی بھی محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ سارے کا سارا بم کا گولہ ہے جو دشمن پر گر کر اسے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنی ہر توہین اور ہزیمت کا انتقام لے سکتا ہے۔

ان سوالوں کے جواب کیا ہیں۔ بھارت مذاکرات سے انکار کرتا ہے۔ جس ملک کی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو دشمن کا ایجنٹ سمجھتی ہوں، اس کی سیاسی قوت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ سفارت کار سیاستدانوں کو دیکھتا ہے۔ فوج کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر ایک اچھے بیورو کریٹ کی طرح کاغذ پر ایک چوخانہ بناتا ہے اور اپنی کارگزاری اس کے اندر محدود رکھتا ہے۔ فوج کا کمانڈر سرحدوں پر مستعد اپنی فوجوں کو دیکھتا ہے اور ان کے خلاف کسی بھی کارروائی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ وزیراعظم بے چارگی سے نئے بیان کی تیاری کرتا ہے تاکہ آئندہ کسی موقع پر اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ملک کی حکومت کا سربراہ دشمن سے گھبراتا ہے اور جارحیت کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے۔

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب معاشرے کے سارے اہم ارکان اپنے اپنے ٹارگٹ کو نشانے پر لئے ہوئے ہیں تو ملک کا کیا بن سکتا ہے۔ پاکستان ان سب نشانچیوں کے بیچ بے بسی کی تصویر ہے۔ اگر یہ سارے ایک مقصد پر متفق ہو سکیں تو منہ زور دشمن کی توپیں پل بھر میں خاموش ہو سکتی ہیں۔ دنیا بھر سے چلنے والی بادمخالف کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ لیکن کوئی مقصد حاصل کرنے سے پہلے صف بندی کرنا، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا اور باہمی دشمنی کو پس پشت ڈالنا ضروری ہے۔ ابھی ہم مشترکہ مفاد اور مقصد کی اس تفہیم سے کوسوں دور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments