سفر کربلا اور دور حاضر


سن 61 ہجری میں جب تمام عالم اسلام سے مسلمان اللہ کے گھر حج کرنے جا رہے تھے تب میرے پیارے نبی ﷺ کا پیارا نواسہ مکہ کو چھوڑ کر عالم اسلام کو بچانے کے لیے اپنے خانوادہ اور ساتھیوں کے ہمراہ سفر کربلا کو روانہ ہوئے۔ عجیب سفر تھا جس میں بوڑھے جوان بچے سب شامل تھے۔ چھ ماہ کے شہزادہ علی اصغر بھی بقا اسلام کے لیے سفر پہ روانہ تھے۔ مولا حسین علیہ السلام اس حق و باطل کی جنگ کا انجام با خوبی جانتے تھے مگر نانا کے دین کی خاطر سفر کربلا پر روانہ ہوئے۔

میں یہ سوچتا ہوں کہ میرے نبی ﷺ کے خانوادہ کا شکر کیسا تھا۔ حسین ابن علی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ کربلا کے میدان میں حسین علیہ السلام کی نسل کو شہید کیا گیا مگر مولا نے صبر کی بجائے اللہ کا شکر ادا کیا۔ سوچو تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ 72 افراد کے ایک لشکر نے لاکھوں کے یزیدی لشکر کا ڈھٹ کے مقابلہ کیا۔ یزیدی فوج کی طرف سے ہر طرح کے ظلم و ستم نبی کی آل پر ڈھائے گئے پانی کی بندش کر دی مگر حسین ابن علی ایک مضبوط چٹان کی مانند تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔

کربلا کا منظر یاد کرو تو روح تک کانپ جاتی ہے ایک چھ ماہ کے معصوم کی پیاس گلے میں تیر مار کے بجھائی گئی۔ یوم عاشور مولا حسین علیہ السلام نے ایک ایک کر کے اپنے بچوں، بھائیوں اور ساتھیوں کے لاشے اٹھائے، آخر میں حق کی جنگ کے لیے میدان کربلا کو چلے اور شہید ہو کر اسلام کو بچا لیا۔ نبی پاک جس حسین علیہ السلام کا گلہ چومتے تھے اسے کاٹ کر نیزے پہ چڑھا دیا گیا۔ یہ وہ پیارے حسین علیہ السلام جن کے رونے سے بھی میرے نبی ﷺ کو تکلیف ہوا کرتی تھی۔ مولا حسین نے تیروں، تلواروں کے سائے میں آخری نماز ادا کی اور سجدے میں سر کٹا دیا۔ تاریخ کا سب سے بڑا ظلم آل نبی کے ساتھ کربلا کے میدان میں ہوا۔ نبی کی شہزادیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ عجیب منظر تھا جنت کے مالکان کو شہید کر کے شہزادیوں کو قید کر لیا گیا۔

1380 سال گزر گئے مگر حب مولا حسین علیہ السلام آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ حسین علیہ السلام کے قاتلوں کا نام و نشان اس دنیا سے ختم ہو گیا ہے۔ حسین ابن علی سر کٹا کر دین اسلام کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئے۔

سوچ طلب بات یہ ہے کہ کیا ہم اس دین اسلام کے تابع ہیں جس کی سربلندی کے لیے نواسہ رسول ﷺ نے اپنے گھرانے کو شہید کروایا۔ ہم بحیثیت مسلمان تفرقات سے باہر نکل کر کب اس دین کی پیروی کریں گئیں جس کی خاطر علی اصغر علیہ السلام کو شہید کیا گیا، جس کی خاطر حضرت عباس علمدار کو شہید کیا گیا، جس دین کی خاطر علی اکبر ابن حسین اور قاسم ابن حسن نے جام شہادت نوش کی۔ ہم لوگ اس شریعت کی پیروی نہیں کر رہے جو میدان و کربلا میں بچائی گئی تھی۔ آج کل ہر شخص بیٹھا جنت دوزخ بانٹ رہا ہے، ایک دوسرے کو کافر کافر کہا جا رہا ہے، مگر شریعت کو اپنانے کو کوئی بھی تیار نہیں۔

ہمیں سب کچھ یاد ہے مگر ہم حسین علیہ السلام کا وہ سجدہ بول چکے ہیں، اللہ تو آل نبی پر راضی تھا وہ تو جنت کے سردار تھے مگر پھر بھی کربلا کے میدان پر حسین ابن علی کا سجدہ بتاتا ہے کہ اسلام کیا ہے۔ نماز تو کسی بھی حالت میں معاف نہیں مگر ہمارا دور دور تک اس سے کوئی تعلق نہیں، اس فانی دنیا کی رنگ رلیوں میں ہم اس دین کو بھول بیٹھے ہیں جو لازوال قربانیوں کے بعد ہم تک پہنچا۔

”ہر بندہ خدا بنا بیٹھا ہے یہاں“

دین اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے مل جل کر رہنے کا سبق بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر فرقے میں بیٹھے انتشار پھیلانے والے لوگ مسلمان کو مسلمان سے لڑوا رہے ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی بات کو سن کر اس کی تحقیق نہیں کرتا بلکہ اسی کو سچ مان کر اگلے کو گالیاں دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ کوئی بھی غور و فکر کرنے کو تیار ہی نہیں۔

ایسا نہیں ہے ہمارا دین، ہمارا دین تو صبر و شکر کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اہل کفار کے مقابلے میں سبقت لیں جائیں تو ہمیں آپسی بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا۔ ہمیں اس دین کی پیروی کرنی ہو گئی جو آل نبی نے شہادتیں دے کر بچایا ہے۔ واقعہ کربلا ہمیں سبق دیتا ہے کہ دین کی بالادستی کے لیے حسین علیہ السلام کی طرح ڈٹ جاو، باطل بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے مگر حق صدیوں تک لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔ یزید کی حکومت باطل تھی پوری دنیا نے دیکھا کہ اس کا نام بھی کوئی نہیں لیتا مگر مولا حسین علیہ السلام حق پر ڈٹے رہے اور آج بھی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی ہے حسین علیہ السلام کی۔ اللہ ہمیں تفرقات سے نکال کر دین حق کی سربلندی کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).