سینیٹ انتخابات کا گولڈن فگر!


وفاقی کابینہ نے سنیٹ انتخابات میں خفیہ رائے دہی کے قانون کے خاتمے کے لئے آئینی مسودے کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر با بر اعوان یہ بل جلد پارلیمنٹ میں پیش کریں گے۔ ذرائع کے مطابق سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت (ہارس ٹریڈنگ) روکنے کے لئے آئینی ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل سینیٹ انتخابات میں اراکین اپنا سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ خفیہ رائے شماری کے ذریعے کاسٹ کرتے تھے۔ اوپن ووٹ کے ذریعے معلوم ہو سکے گا کہ کس رکن اسمبلی نے کس امیدوار کو ووٹ دیا۔ اس مقصد کے لئے آئین کے آرٹیکل 226 اور انسٹھ 2 میں ترمیم کی جائے گی۔ شو آف ہینڈ کی تجویز کو پہلے ہی مسترد کی جا چکا ہے۔

06 مارچ 2021 میں سینیٹ انتخابات متوقع ہیں، لہذا اصلاحات کا عمل جلد از جلد اتفاق رائے سے منظور کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں مبینہ طور پر اراکین اسمبلی کی کھلی خرید و فروخت کا تماشا پوری دنیا میں دیکھا گیا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ محض تین نشست رکھنے والی ایک جماعت نے اپنے دو سینیٹر منتخب کرادیے تھے۔ وزیراعظم عمران خان اس امر کا انکشاف کرچکے تھے کہ انہیں بھی سینیٹ میں بہت بھاری رقم (بیس ارب روپے ) کی مبینہ پیش کش کی گئی تھی، انہوں نے تاحال اس شخصیت کا نام تو نہیں بتایا لیکن یہ ضرور کہا کہ رشوت کی پیش کش کرنے والا شوکت خانم ہسپتال میں بھاری رقم مبینہ طور پر عطیہ کرناچاہتا تھا۔

اسی طرح 05 مارچ 2018 کوعمران خان نے پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہر رکن صوبائی اسمبلی کو چار کروڑ روپے رشوت دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ جمہوریت کے حالیہ انتخابات میں جمہوریت کی نفی ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بھی پیسہ چلا اور اس سے بھی زیادہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی لوگوں نے اپنے آپ کو بیچا۔ انہوں نے کہا کہ رشوت دی بھی گئی اور لی بھی گئی، ہمیں یہ تو پتہ ہے کہ رشوت کس نے دی ’بدقسمتی کے ساتھ ہمارے پاس یہ ثبوت نہیں ہے کہ رشوت لی کس نے، کیونکہ رسید لے کر تو کوئی رشوت نہیں لیتا‘ لیکن رشوت لی تو ہے، بکے تو ہیں۔ انہوں نے تحقیقات کے بعد اپنی جماعت کے 20 اراکین اسمبلی کے خلاف کاوائی بھی کی تھی۔

سینیٹ میں اراکین کو منتخب کرانے کا طریقہ کار بڑا گنجلگ ہے اور اسی کا فائدہ اٹھا کر کروڑوں روپے رشوت دے کر سیاسی وفاداریاں خرید لیں جاتی ہیں۔ تاحال الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کے لیے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے گولڈن فگر کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اہم بات یہ کہ گولڈن فگر حاصل نہ کرنے کی صورت میں کسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار، اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پاتا ہے۔ دوسری صورت میں گولڈن فگر سے زائد حاصل کیے گئے ووٹ، اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں اور ایسے ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ووٹوں کے اس انتقال کے باعث سینیٹ انتخابات کو منتقل شدہ ووٹوں کا انتخاب بھی کہا جاتا ہے۔

پاکستان کے نظام و انصرام پر سینیٹ کے انتخابات میں امیدواروں کا چناؤ ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے، کیونکہ سینیٹرز عوام کے ووٹ کے بجائے سیاسی جماعتوں کی وابستگیوں کے تحت منتخب ہوتے ہیں او ر براہ راست عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ ویسے تو ملکی سیاسی و انتخابی عوامل عموماً متنازع رہتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج تک کا ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا۔ آمریت و جمہوریت کے ملاپ سے بنے نظام میں آئینی اداروں کو فروعی مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔ سینیٹ کے انتخابات کا مرحلہ حکمراں جماعتکے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باعث اپوزیشن بل مسترد کردیتی ہے، جیسا کہ گزشتہ دنوں ہوا۔ بل مسترد ہونے کی کئی وجوہ بیان کی جاتی ہیں تاہم حزب اقتدار و حزب اختلاف کی جانب سے الزام تراشیاں کوئی نئی بات نہیں۔

سینیٹ پارلیمان نظام کا ایک ایسا ادارہ ہے جہاں تمام صوبوں کو متناسب نمائندگی کے نام پر ایسے نمائندوں کو منتخبکرایاجاتا ہے جو بیورو کریٹ، ٹیکنو کریٹ، علما مشائخ سمیت اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں، تاہمبنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں سینیٹ میں اپنے منتخب نمائندوں کو کامیاب تو کرادیتی ہیں، لیکن کابینہ میں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ان کے انتخاب پر کم انحصار کیا جاتا ہے۔ غیر منتخب نمائندوں کو کابینہ میں شامل کرنے کی وجہ ان کی قابلیت و متعلقہ شعبے میں مہارت یا اثر رسوخ قرار دیا جاتا ہے، لیکن یہاں دوہرا معیار ہے کہ حکومت جب قومی اسمبلی کے انتخاب کے لئے امیدواروں کا انتخاب کرتی ہے تو ان کی قابلیت و کسی اہم شعبے میں مہارت کے بجائے عوام میں مقبولیت یا حلقے میں مورثی سیاست میں مضبوط گرفت کو مد نظر رکھتی ہے۔ اسی طرح ایوانوں سیبھی ایسے نمائندوں کا انتخاب نہیں کرپاتی جو کابینہ کا حصہ بن کر وزیراعظم کی اہم مشاورتی ٹیم کا حصہ بن سکیں۔ ان حالات میں جب انتخابات میں اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہوں تو اس امر کی توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کی واپسی مع منافع وصول نہیں کریں گے۔

سینیٹ کے انتخابات میں اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کا اپنی سیاسی جماعت سے ہٹ کر ایسے امیدوار (جس نے منتقل شدہ ووٹ کے لئے سرمایہ کاری کی ہو) کو ووٹ دینا اس کی حوصلہ شکنی و ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکنے کے لئے خفیہ رائے دہی کو ختم کرنا احسن اقدام ہوگا۔ پارلیمنٹ میں ہر سیاسی جماعت کو اپنے فروعی مفاد سے بالاتر ہو کر سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لئے بل کی منظوری کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی نذر کرنے سے گریز کرنا ہوگا، سینیٹ میں رائے دہی کے قوانین میں اصلاحات کا عمل تمام سیاسی جماعتوں کے حق میں ہے، دیکھا جا چکا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر کم اکثریت رکھنے والی جماعت کامیاب ہوئی اور اس کے سیاسی مضر اثرات سے وہ جماعتیں بھی محفوظ نہیں، جنہوں نے غیر جمہوری روایات کو فروعی مفادات کے لئے فروغ دیا۔

سینیٹ انتخابات میں اصلاحات کے علاوہ ہر سیاسی جماعت ایسے اراکین کو منتخب کرائے جو اہم شعبوں میں مہارت و گراں قدر خدمات رکھتے ہوں تاکہ غیر منتخب مشیروں، معاونین اور دوہری شہریت رکھنے والوں کی ضرورت نہ پڑے اور حکومت اپنے ایجنڈے کے تحت انہی نمائندوں کی کابینہ بنائے جو آئندہ ملک و قانون کو جواب دہ بھی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).