کرپشن: پاکستانی سیاست کا مقبول ترین مفروضہ


بعض لوگوں کی سیاسی وابستگی کی بنیاد، اس مرض کے خلاف سیاسی جدوجہد نصب العین، کسی رہنما یا قائد کی واحد خوبی کہ وہ کرپٹ نہیں، عقیدت کے لیے کافی۔ چار دفعہ ملک کا انتظام سنبھالنے فوجی حکمرانوں کا بھی پہلا جواز کہ کرپشن کے خلاف آئے ہیں۔ 1949 سے کرپشن الزامات پر برطرفیاں ہو رہی ہیں، پروڈا قانون کے تحت پنجاب اسمبلی برخاست ہوئی، 1954 میں ایبڈو قوانین ے تحت کئی برطرفیاں ہوئیں۔ نوے کی دہائی میں کسی حکومت نے مدت میعاد پوری نہیں کی، ساری کرپشن الزامات پر برطرف ہوئیں۔ ایک دلچسپ حقیقت بتاتا چلوں کہ دنیا کے کسی اور ملک میں کرپشن الزامات پر اتنی حکومتیں، وزرائے اعظم برطرف نہیں ہوئے جتنے پاکستان میں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ ملک ناروے، سویڈن، جرمنی نہیں؟ کرپشن کے خلاف اقدامات ان سب ممالک سے زیادہ۔ کیا وجہ ہے؟

پہلی بات یہ ہے کہ ہم عوام، پاکستانی ریاست کی ہئیت، کمپوزیشن کو نہیں سمجھتے، پاور اسٹرکچر سے واقف نہیں، اسٹیٹس کو اوراسٹیک ہولڈرز کی نوعیت سے ناواقف ہیں۔ ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کو نہیں سمجھتے۔ درحقیقت کرپشن کا الزام پاکستانی ریاست کا ہتھکنڈہ ہے، پاکستان کے اصل حکمران ( عسکری اشرافیہ، عسکری جوڈیشل نیکسس، ملا ملٹری نیکسس، پلوٹو کریسی اور عسکری، سول جاگیردار۔۔۔ یہ حکمران مقتدرہ کی سطحیں ہیں) اپنے دائمی اقتدار کے لیے ان کرپشن الزامات کا سہارا لیتے ہیں، ان کا پہلا نشانہ منتخب حکومت ہوتا ہے، منتخب حکومت اور عوامی ادارہ پارلیمنٹ اس مقتدرہ کے لیے ناقابل قبول ہیں۔

کیونکہ اس عوامی ادارے کے ساتھ ان کا پاور شئیرنگ کا جھگڑا ہے، وہ کبھی اقتدار منتقل نہیں کرتے، ریاستی ترجیحات کا تعین نہیں کرنے دیتے، پالیسی میکنگ میں شریک نہیں کرتے۔ اس لیے آج تک کسی منتخب وزیراعظم کو اپنی مدت میعاد پوری نہیں کرنے دی۔ زرداری، نواز شریف، بینیظیر کی جگہ حضرت عمر، شیخ عبدالقادر جیلانی یا رابعہ بصری بھی ہوتیں تو بھی کسی بہانے برطرف ہی ہونا تھا۔ ان کا انفارمیشن اسپیس پر مکمل کنٹرول ہے، اسپن ڈاکٹرز کی فوج ہے، لفظوں کے جادو گر ہیں۔

ہر وقت سیاست کو بے توقیرکرنا، تقسیم در تقسیم کرنا، پارلیمنٹ کو بے وقعت کرنا، دھرنے کروانا، پندرہ سو بندوں کے مجمع کو منتخب حکومت کے لیے مسئلہ بنا دینا۔ مقتدرہ کی لائن پر چلو تو سارے کیسز ختم، نہ چلو تو دنیا جہان کے کیسز۔ زرداری کے خلاف سارے کیسز، ریفرینسز ختم ہو گئے، جب وہ معتوب تھا تو کسی عدالتی ورڈکٹ کے بغیر گیارہ سال جیل میں۔ دو سال پانامہ پانامہ کرتے آخر میں اقامہ نکال لیتے ہیں، خود اسامہ رکھا ہوتا ہے۔

یہ بات نہیں کہ سویلین سیاستدان فرشتے ہیں، دنیا کو بلیک اینڈ وائٹ تناظر میں دیکھنا سطحی پن اور معصومیت ہے، لیکن وہ حقیقی کرپشن ہے ہی نہیں۔ لیاقت علی خان، بھٹو، بی بی اس لیے نہیں قتل ہوتے کہ وہ کوئی مجرم ہیں، بلکہ جب وہ حقیقی اختیارت کامطالبہ کرتے ہیں مارے جاتے ہیں۔ نواز شریف کو کسی کرپشن پر نہیں، اس کی بزنس تفصیلات تو ان کو تیس سال پہلے پتہ تھیں، بلکہ اس کے قدم جمانے، ریاستی ترجیحات پر اثرانداز ہونے کی کوششوں پر نکالا، بزنس تاجر طبقہ ہندوستان سے اچھے تعلقات کا خواہش مند ہے، جبکہ پاکستانی ریاست اور مقتدرہ زندہ ہی ہندوستان دشمنی پر ہے۔

اب اصل بد عنوانی اور کرپشن۔ اقتدار پر ناجائز قبضہ ( illegitimate head of state) وہ اصل جرم ہے بدعنوانی اور کرپشن ہے جہاں سے تمام مالی، معاشی، معاشرتی، سماجی، ثقافتی، انتظامی، عدالتی، قانونی آئینی علتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اداروں کا فطری ارتقا رک جاتا ہے، مچھلی اپنے سر سے گلنا سڑنا شروع کرتی ہے، اگر آپ صرف پیسوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو اقتدار پر ناجائز قبضہ ملک کے جی ڈی پی پر منفی اثرات چھوڑتا ہے۔ آسان الفاظ میں عوامی مینڈیٹ کو گھر بھیجنا کرپشن ہے، بڑی کرپشن ہے، اور اس ملک میں متعدد بار ہو چکی ہے۔ پاکستان سے زیادہ کرپٹ ممالک بہتر حالت میں ہیں، کیونکہ سیاسی آئینی اور معاشرتی استحکام ہے۔ ستر سال میں تمام سیاستدانوں کی مشترکہ کرپشن ایک ارب ڈالرنہیں ہو گی، جبکہ صرف اکیسویں صدی کے پہلے دس سالوں میں پاکستان کو سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے، جو براہ راست مادی نقصان ہے، ممکنہ بزنس اور معاشی فوائد کا تخمینہ اس میں شامل نہیں۔ آج اگر برسلز، برلن، یا ایمسٹرڈم میں نیا شادی شدہ جوڑا پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ہنی مون نہیں منانا چاہتا تو اس کی وجہ پاکستان میں کرپشن نہیں، تحفظ اور سیکورٹی ہے، کیونکہ یہ سیکورٹی اسٹیٹ ہے۔

گزشتہ دور حکومت میں جب مقتدرہ کے مہرے (قادری، عمران خان، شیخ رشید وغیرہ) پارلیمنٹ کو بے توقیر کرتے تھے، حکومت پر لزامات اور کرپشن پر واویلا کر رہے ہوتے تھے، تو انہیں ریاستی سرپرستی حاصل تھی، جب 126 روز لگاتار دھرنے جاری تھے تو ہر شام پرائم ٹائم لائیو براڈکاسٹنگ ہوتی تھی، دن کے وقت پانچ سو کے مجمع کو بھی نشر کیا جاتا تھا کیونکہ وہ اس ملک اس ریاست کی اصلی اور سب سے بڑی کرپشن (غیر منتخب کے حق میں ادارہ جاتی عدم توازن) کے مہرے تھے، ترجمان تھے۔

کرپشن الزامات کے مفروضے پر لائی گئی موجودہ حکومت گزشتہ دو برس میں 314 ارب ڈالر کے جی ڈی پی کو 264 ارب ڈالر پر لے آئی اور ستم ظریفی دیکھیے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے شفافیت انڈیکس پر پاکستان کی تنزلی بھی کر دی۔ اور آخری بات، مالی کرپشن سے زیادہ بڑی اور اہم چیز ادارہ جاتی کرپشن ہے، جو یہ ریاست ستر سال سے کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).