میر علی کے قید خانے میں میرا پہلا دن: شہباز تاثیر


\"shahbaz-taseer-3\"

یہ میر علی میں میرا پہلا دن ہے۔ یہ کتنا حیرت انگیز ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ایک انسان کس طرح اپنے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی ناگوار اور غیر معمولی حالات کیوں نہ ہوں۔ آج سے میری خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی جد و جہد شروع ہوتی ہے۔ خود کو بھوک، درد، ذہنی اور لفظی ذلت اور خوف کا عادی بنانے کی جد و جہد، کیونکہ آنے والے دنوں میں مجھے یہی کچھ نصیب ہونے والا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ مجھے اس سب کو ٹھکرانا ہے جسے میں نارمل سمجھتا ہوں یا اس کی توقع کرتا ہوں تاکہ میں کسی طرح اس سب سے گزر کر زندہ رہ پاؤں جو کہ مجھے قید کرنے والوں نے میرے لئے سوچ رکھا ہے۔

مجھے قید کرنے والے مجھے مسلسل احکامات دیتے رہتے ہیں یا میری توہین کرتے رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ یہ سوچ سوچ کر مجھ سے نہایت ناراض ہوتے ہیں کہ مجھ میں ایک ”کافر“ ہونے کی وجہ سے وہ زبان سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے جو کہ درحقیقت میں زندگی میں پہلی مرتبہ سن رہا ہوں۔

میں ایک نہایت تاریک کمرے میں ہوں اور روشنی کی واحد کرن چھت میں موجود اس چھوٹے سے سوراخ سے آتی ہے جس میں سے سردیوں میں آتشدان کا دھواں نکالنے کا پائپ گزارا جاتا ہے۔ میری قوت شامہ پر سب سے پہلا حملہ ایک شدید بدبو نے کیا۔ عید آنے والی ہے اور مجھے اس کمرے میں بند کیا گیا ہے جس میں پہلے بھِیڑیں رکھی گئی تھیں۔ غلیظ فرش کی بساند اور گندے کمرے کی بدبو سے میرے نتھنے جل رہے ہیں۔ خود مجھ میں سے بھی بدبو آ رہی ہے۔ لاہور کی جھلسا دینے والی گرمیوں میں گھنٹوں فٹ بال کھیلنے کے باوجود بھی کبھی مجھ سے اتنی بدبو نہیں آتی ہو گی۔

میں نمدار کچے فرش پر بیٹھا ہوں۔ میں اپنے گھر میں اپنے آرام دہ بستر کے بارے میں سوچتا ہوں۔ میں اپنے ہاتھ اٹھاتا ہوں اور اپنی کلائیوں کے گرد موجود زنگ آلود زنجیروں کو دیکھتا ہوں۔ یہ میری فیورٹ اور بہترین انداز میں بنائی گئی رولیکس کی چین سے کتنی مخلتف ہیں۔ میں اپنے پیٹ کو زخمی کر دینے والی بھوک کو نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے صرف درد اور خوف کا احساس ہے۔ کیا میں آج زندہ رہوں گا؟ کیا اس ہفتے کے اختتام تک میں زندہ ہوں گا؟ میں خود کو قید کرنے والوں کے چہروں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ وہ عفریت جو کہ رقم حاصل کرنے کی خاطر اگلے ساڑھے چار سال تک مجھ پر غیر انسانی تشدد کریں گے اور میرے جسم کو مسخ کر ڈالیں گے۔

\"shahbaz-taseer-latest-pics-after-release\"

میں اپنے جسم پر نظر ڈالتا ہوں اور ایک امیر اور پرتعیش انداز زندگی سے بگڑے ہوئے بازوؤں اور ٹانگوں میں قوت کی کوئی رمق تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں اس جگہ اپنی شناخت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ میں اب شہباز نہیں رہا ہوں۔ میں کسی کا بچہ، بھائی، شوہر یا دوست نہیں رہا ہوں۔ میں صرف ایک قیدی ہوں، ایک بندی، ایک محبوس ہوں۔ مجھے اس خیال سے ہی کراہت محسوس ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں جانتا ہوں کہ یہ وہ نرم ترین الفاظ ہیں جو وہ میرا ذکر کرتے ہوئے ادا کریں گے۔ لیکن وہ مجھے جو جی چاہے وہ کہہ سکتے ہیں۔ میں آزاد ہوں۔ میں آزاد ہوں۔

آج سے میری اپنی شخصیت کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اکٹھے کرنے کی خاطر اندرونی جنگ شروع ہو رہی ہے۔ میں قائم رہوں گا، میں کہیں نہ کہیں سے اس کے لئے قوت اور صبر لے آؤں گا۔ یہ کتنا حیرت انگیز ہے کہ انسانی جسم اور ذہن زندہ رہنے کے لئے کیا کچھ برداشت کر سکتا ہے۔

میں اپنے جسم میں انجیکٹ کی گئی دواؤں کی وجہ سے نیم مدہوشی کے عالم میں ہوں اور میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے۔ پسلیاں، ٹانگیں، ہاتھ، چہرہ، غرض کہ بدن کے ہر حصے میں ہی بے تحاشا درد و کرب ہے۔ میری آنکھ کے نیچے ایک زخم ہے جس سے ابھی تک خون رس رہا ہے۔ میری کلائیوں اور ٹخنوں میں زنجیریں دھنسی جا رہی ہیں۔ بے تحاشا گرمی ہے۔ اتنی زیادہ گرمی جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہے۔ ایک حقیقت مجھ پر افشا ہوتی ہے، خواہ کوئی بھِی موسم رہے، میں اب آرام سے کوسوں دور رہوں گا۔

میرے کمرے میں ایک سرخ بالٹی پڑی ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ میرا ٹائلٹ ہے۔ مجھے پانی کا ایک لوٹا ملتا ہے جو کہ پورا دن مجھے وضو، طہارت اور پینے کے لئے چلانا ہے۔ میں ابھی یہ بات نہیں جانتا ہوں اس لئے اسے منہ سے لگاتا ہوں اور ندیدوں کی طرح سارا پانی اپنے خشک منہ میں انڈیل لیتا ہوں۔ مجھے اس چیز کا علم مشکلات اٹھا کر ہی ہو گا اور جلد ہی اپنے پانی کا راشن مقرر کرنا سیکھ جاؤں گا۔ میری توجہ مچھروں کے شور کی وجہ سے ہی پیاس سے ہٹتی ہے۔ مجھے اس آواز سے آج تک نفرت ہے، اور جہازوں کی آواز سے بھی۔

ناشتے میں مجھے دودھ اور چینی کے بغیر کالی چائے دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ روٹی کا ایک ایسا ٹکڑا جو کہ کھائے جانے کے قابل نہیں ہے۔ میں کچھ دن میں چائے کو ٹھنڈا کر کے اسے اپنے پانی کی سپلائی میں اضافہ کرنے کے لئے استعمال کرنا سیکھ جاؤں گا۔ دن میں میرا واحد کھانا میگی نوڈلز پر مشتمل ہوتا ہے۔ میں اس کے دو حصے کرتا ہوں، پہلا دوپہر کے کھانے کے لئے اور دوسرا ٹھنڈا ہو کر ربڑ جیسا ہو جانے والا حصہ رات کے کھانے کے لئے۔ اگلے دنوں میں میری سب سے احمقانہ غلطی خود کو قید کرنے والوں کو یہ بتانا ہو گی کہ میں جسمانی طور پر خود کو یہ نوڈل مزید کھانے کے قابل نہیں پاتا ہوں۔ وہ میری درخواست کو قبول کرتے ہوئے میرا کھانا تبدیل کر دیں گے اور ہر روز چربی کا ایک ٹکڑا دینے لگیں گے جو کہ میں چبائے بغیر نگلنا سیکھ جاؤں گا اور پورا سال ایسے ہی گزرے گا۔

\"shahbaz-taseer\"

خوف بیان کیا جا سکتا ہے۔ کچھ مشکل کے ساتھ درد کے بارے میں بھی بتایا جا سکتا ہے۔ لیکن تنہائی ایک ایسی چیز ہے جس کو بیان کرنا ناممکن ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں خود اپنی صحبت اور مزاح سے لطف اندوز ہوتا ہوں، کم از کم میرا یہی خیال ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں، میں مسکراتا ہوں۔ ڈیڑھ سال بعد میں ایک ڈرون حملے میں شدید زخمی ہو جاؤں گا اور مجھے قید کرنے والا ایک ازبک مجھے اپنے گھر لے جائے گا جہاں اس کا دو سالہ بچہ میری طرف لڑکھڑاتا ہوا آئے گا اور مجھے ایسے انداز سے دیکھے گا کہ میں بے تحاشا ہنسنے لگوں گا۔ یہ کئی سال میں پہلا موقعہ ہو گا کہ میں ہنسوں گا۔ ایک ایسی ہنسی جو کہ کسی خوشگوار یاد کا نتیجہ نہیں ہو گی بلکہ اپنے تنہا دنوں کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے ایک حقیقی انسان کو پانے کی خوشی کا نتیجہ ہو گی۔ مسکرانا اور ہنسنا میری شخصیت کے گوشوں میں دفن ہو جائے گا، بہت سے ایسے دوسرے احساسات کی طرح جن کو میں نے ہمیشہ کے لئے اپنا اٹوٹ انگ سمجھا تھا۔

میرے قید خانے کا نگران پہلے دن بہت شائستہ اور مہربان لگا ہے۔ میں جلد ہی جان جاؤں گا کہ جہاں ایک طالبان کا غیض و غضب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے، وہاں سے ایک ازبک کا رحم شروع ہوتا ہے۔ اس قید خانے میں میرے پہلے دن کے بعد سب کچھ بدل جائے گا۔ میں ایک مختلف شخص بن جاؤں گا۔ میں زندہ رہنے کی کوشش میں ان سب جذبات، احساسات، آرام و آسائش کو تیاگ دینا سیکھ جاؤں گا جن کے بارے میں میں نے کبھِی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی تھی۔ میں اپنے ایمان میں ہی آرام اور فوق البشر قوت پا لوں گا۔ آرام اور سب سے قیمتی تحفہ امید ۔ اپنے پیاروں کے چہرے دوبارہ دیکھنے کی امید جو کہ آہستہ آہستہ دھندلاتے جا رہے ہیں۔

میں اپنے والد کے متعلق سوچتا ہوں اور اس چیز کے بارے میں جو کئی برسوں میں میں نے ان سے سیکھی تھی۔ استقامت۔ میں خود کو بتاتا ہوں کہ ایک دن میں اس سب کچھ کو پیچھے چھوڑ دوں گا اور اسے یاد کر کے اس پر مسکراؤں گا۔ اور یہی تصور مجھے کچھ طاقت دیتا ہے۔

(مترجم: عدنان خان کاکڑ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments