تصادم کی بڑھتی ہوئی تپش اور مفاہمت کی ضرورت


’عمران خان استعفیٰ دے اور نئے انتخابات کروائیں جائیں‘ بمقابلہ ’احتساب ہوکر رہے گا اور مسلم لیگ (ن) ٹوٹنے والی ہے‘ کے گرما گرم ماحول میں اپوزیشن کے حال ہی میں قائمکیے گئے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں پہلا احتجاجی جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گو کہ یہ لڑائی بظاہر تحریک انصاف کی حکومت اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن کے درمیان دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا سب سے اہم فریق ملکی اسٹبلشمنٹ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی تصادم کی موجودہ فضا میں عسکری قیادت فریق بننے کو ترجیح دے گی یا حکومت اور اپوزیشن کو عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دے گی۔

تحریک انصاف کی تمام تر ناکامیوں کے باوجود یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ مڈ ٹرم الیکشن کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوں گے۔ نہ ہی ایسی روایت سے حکمران یا اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو کوئی دور رس فائدہ حاصل ہوگا۔ موجودہ منتخب حکومت کو پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ وہ اپنے منشور کے مطابق ملک میں اصلاحات نافذ کرسکے اور آئندہ انتخابات میں اپنی کامیابی و ناکامی کی بنیاد پر خود کو عوام کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔

تاہم پارلیمانی جمہوری نظام میں کوئی بھی سیاسی پارٹی پارلیمنٹ میں خواہ کتنی ہی طاقت ور ہو، اسے اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ مل کر ملکی معاملات طے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور سے متفقہ امور میں اپوزیشن کو ہمراہ لے کر چلنے سے حکومت کی شان میں اضافہ ہوتا ہے اور اپوزیشن بھی یہ جان کر خوش ہوتی ہے کہ اسے اہمیت دی جارہی ہے۔ اس طرح پارلیمانی جمہوریت کی یہ بنیادی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے کہ پارلیمنٹ میں عوام کی نمائیندگی کرنے والوں کا تعلق خواہ حکمران جماعت سے ہو یا ان کی وفاداریاں مختلف اپوزیشن پارٹیوں سے وابستہ ہوں، ان کی رائے کا احترام ہونا چاہیے اور اہم فیصلوں میں انہیں شریک کرنا چاہیے کیوں کہ ان میں سے ہر نمائیندہ اپنے حلقے سے عوام کے ووٹ لے کر ہی منتخب ہوتا ہے۔

عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ حکومت نے اپوزیشن پارٹیوں اور لیڈروں پر ’مافیا‘ کا لیبل لگانے کے بعد یہ اعلان کررکھا ہے کہ یہ لوگ نہ تو قابل اعتبار ہیں اور نہ ہی ملک و قوم سے ان کی وفاداریاں کسی شک و شبہ سے بالا ہیں۔ گو کہ ملک میں ایک دوسرے کو غدار اور دشمن کا ایجنٹ قرار دینے کی روایت نئی نہیں ہے لیکن اس رویہ کی بھاری قیمت بھی ماضی میں ادا کی جاچکی ہے۔

اس کے باوجود اب اس رویہ کو اس حد تک راسخ کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے ملنے، براہ راست مواصلت کرنے اور اپوزیشن قیادت کے ساتھ اہم قومی امور پر غور کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ حالانکہ ملکی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے ارکان سے لے کر نیب جیسے ادارے کے سربراہ کی نامزدگی تک کا معاملہ وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے طے کرنے کے پابند ہیں۔ عمران خان بطور وزیر اعظم اپنے عہدے کی یہ اہم ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ماضی کے ادوار میں تمام تر سیاسی مخالفت کے باوجود تکبر اور ضد سے مملو ایسا رویہ دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ سیاسی پارٹیاں حکومت یا اپوزیشن میں ہونے کی مناسبت سے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی حساب بھی برابر کرتی رہتی تھیں لیکن پارلیمنٹ کی حد تک ورکنگ ریلیشن شپ موجود رہتی تھی۔ ایسی صورت میں اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی انتہائی پوزیشن لیتے ہوئے کئی بار غور کرنے پر مجبور ہوتی تھی۔ پارلیمانی عمل میں حکومت کے نمائیندے نہایت ہوشیاری سے اپوزیشن کی اشک شوئی کرتے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے میں بھی کامیاب رہتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اس روایت کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ وزیر اعظم بڑے دھڑلے سے اپوزیشن لیڈروں کو چور اچکے قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول، ایسی ملاقاتوں میں اپوزیشن لیڈر کرپشن کے خلاف رعایت مانگتے ہیں جو وہ کسی صورت نہیں دے سکتے۔

تاہم حکومت میں تحریک انصاف کے دو برس مکمل ہونے تک واضح ہوگیا ہے کہ بدعنوانی محض سیاسی نعرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ نہ ملکی نظام میں بدعنوانی، رشوت ستانی، غیر قانونی ہتھکنڈے اور نوکر شاہی کی زور زبردستی ختم کرنے کا کوئی اصلاحی پروگرام شروع کیا گیا ہے اور نہ ہی حکومت میں شامل سب عناصر کے ہاتھ صاف ہیں۔ البتہ سرکار کاساتھ دینے والوں کے ساتھ نیب اور دیگر ادارے نرمی کا رویہ اختیار کرتے ہیں جبکہ اپوزیشن کے بڑے سے بڑے لیڈر کو بھی مناسب قانونی جواز کے بغیر کئی کئی ماہ تک قید میں رکھا جاتا ہے۔

احتساب بیورو کی نا اہلی اور ہتھکنڈوں پر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے ریمارکس اور فیصلوں کے علاوہ، اس ادارے کے طریقہ کار نے ملک میں احتساب کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ عمران خان اس کے باوجود یہ سمجھنے پر تیار نہیں ہیں کہ احتساب اس وقت تک ایک سیاسی نعرہ تھا جب وہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ وزیر اعظم کے طور پر اس نظام کو مؤثر، شفاف اور کسی شک سے پاک بناکر ہی حکومت نیب کے علاوہ اپنا وقار اور اعتبار بحال کرسکتی ہے۔ گزشتہ روز مکمل طور سے تفتیش شدہ ایک معاملہ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری نے حکومت کے اس ڈھونگ کا رہا سہا پول بھی کھول کررکھ دیا ہے۔

شہباز شریف کی گرفتاری سے مصالحت اور میانہ روی کی سیاست کا راستہ بند کیا گیا ہے۔ اب ان افواہوں کو نہیں روکا جاسکتا کہ وزیر اعظم، شہباز شریف سے خوفزدہ ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ عسکری حلقوں سے مواصلت و مصالحت کی بنا پر انہیں اقتدار سے محروم کرکے خود وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ اس لئے ان کے لئے شہباز شریف کی گرفتاری اور انہیں طویل سزا دلوانا اہم ہو چکا ہے۔ افواہ نما ایسے تجزیے اور تبصرے صریحاً بے بنیاد بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عمران خان کے چہیتے وزیر اور مشیر تواتر سے شہباز شریف کی گرفتاری اور طویل قید کی پیش گوئیاں کرکے ان ’بے بنیاد افواہوں‘ کو حقیقت بنانے میں مصروف رہے ہیں۔ شہباز شریف کی گرفتاری اور اس پر مریم نواز کی تند و تیز پریس کانفرنس کے بعد بھی غور و خوض کے لئے ’وقفہ‘ لینے کی بجائے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کی قیادت میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں کرپشن کے الزامات اور اپوزیشن کو برا بھلا کہنے کے سوا حکمت و مصالحت کا ایک لفظ کہنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔

اب اپوزیشن کے نوزائیدہ اتحاد پی ڈی ایم نے 11 اکتوبر کو کوئٹہ میں پہلا احتجاجی جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان اس گمان میں مبتلا ہیں کہ فوج ان کی پشت پر ہے۔ اس طرح ان کی حکومت کو کسی بھی احتجاج کو دبانے کے لئے ضروری صلاحیت حاصل ہے۔ لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ پاکستانی فوج تحریک انصاف کا ’عسکری ونگ‘ نہیں ہے بلکہ ریاست پاکستان کا ایک اہم شعبہ ہے جو ملکی دفاع اور سلامتی کے لئے استوار کیا گیا ہے۔

فوج کی ہمدردی اور وفاداری منتخب حکومت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے فوج کے ترجمان درست طور سے یہ کہتے ہیں کہ فوج حکومت کے فیصلوں کا احترام کرے گی۔ عمران خان اگر اس عسکری حمایت کو اپوزیشن کے خلاف اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل میں اہم ہتھیار سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں تو انہیں جان لینا چاہیے کہ فوج کبھی بھی سیاسی مقصد سے احتجاج کرنے والے عوام کے مدمقابل نہیں آئے گی۔ حکومت کو جلد یا بدیر یا تو اپوزیشن کی حیثیت تسلیم کرکے اس کی قیادت کے ساتھ سیاسی معاملات طے کرنا ہوں گے یا حالات خراب ہونے کی صورت میں اس کی سیاسی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں اپوزیشن کے کوئی خاص مفادات داؤ پر نہیں ہیں البتہ تحریک انصاف اس وقت مرکز اور تین صوبوں میں حکمران ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کی تقریر اور اس کے بعد انکشافات کے علاوہ واقعات کی ترتیب نے فوج کو مشکل صورت حال سے دوچار کیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپوزیشن لیڈروں سے عمران خان کی ضد و عناد کی وجہ سے 16 ستمبر کو پارلیمانی سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی تھی تاکہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر اتفاق رائے پیدا کیاجاسکے۔ یہ مشاورت کرنا اور اس اہم معاملہ پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا دراصل وزیر اعظم کی ذمہ داری تھی۔

وہ بوجوہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے گریزاں تھے جس کی وجہ سے آرمی چیف نے دست تعاون دراز کیا۔ تاہم شیخ رشید جیسے ترجمان کے ذریعے اس ملاقات کو اپوزیشن کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش نے فوجی قیادت کے لئے بھی مشکل صورت پیدا کی ہے۔ اسی وجہ سے مولانا عبدالغفور حیدری فوجی قیادت سے ملاقات کے کچھ درون خانہ راز افشا کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس بیان کے بعد سے چھاجانے والی خاموشی فوج کی اس مجبوری کا پتہ دیتی ہے کہ وہ ملک کے سیاسی دنگل میں براہ راست فریق نہیں بن سکتی۔

نواز شریف اور اپوزیشن کی اے پی سی عمران خان کی بجائے انہیں اقتدار میں لانے والے عناصر کے خلاف جد و جہد کا اعلان کر چکے ہیں۔ لیکن تجربہ کار سیاسی لیڈر ہونے کے طور پر تصادم کے اس ماحول میں اپوزیشن قیادت عسکری اداروں کی بجائے تحریک انصاف اور عمران خان کو ٹارگٹ کرکے دراصل وہ سپیس فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے جس میں فوج اپنی عزت بچا سکتی ہے۔ یہ یقین کیا جانا چاہیے کہ فوجی قیادت اس صورت حال میں ایک سیاسی مطالبہ کرنے والے اپوزیشن اتحاد کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کرے گی۔

البتہ عمران خان کی حکومت صورت حال کی نزاکت کو سمجھنے اور متبادل سیاسی حکمت عملی بنانے کی بجائے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا تہیہکیے ہوئے ہے۔ اسے حکومت کا اعلان جنگ سمجھنا چاہیے۔ حالانکہ ملک کے سارے تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ یہ وقت میدان جنگ سجانے کی بجائے مفاہمت اور ہوشمندی سے معاملات طے کرنے کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali