ناقص عسکری رپورٹ اور بلاول کی مثبت سیاسی پیشکش


بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو سے پیدا ہونے والی غلط فہمی دور کی ہے۔ ڈان ٹی وی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ’ اپوزیشن کے اجلاس میں کسی کو کسی کا نام لینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف متفق ہیں اور اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے‘۔ اس دوران کراچی واقعہ کے بارے میں آئی ایس پی آر کے بیان اور متعلقہ افسروں کی جذباتیت کے حوالے سے مسلسل حیرت و پریشانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔

سب سے پہلی پریشانی تو یہی ہے کہ پاک فوج کے ترجمان ادارے نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ وضاحت کیوں نہیں کی کہ پاک فوج آئین کی بالادستی اور اس میں فوج کے وضع کردہ کردار پر یقین رکھتی ہے اور اس سے تجاوز کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ پاک فوج کی طرف سے اپوزیشن کی حالیہ تحریک کے بعد سے کسی قسم کا کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔تکنیکی لحاظ سے فوج حکومت وقت کی وفادار ہے اور اس کے احکامات کی روشنی میں اقدام کرنے کی پابند ہے۔ البتہ اس کے عملی پہلوؤں کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف نے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لے کر انتخابی عمل میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ’ان دونوں کو اپنے اقدامات کا جواب دینا پڑے گا‘۔

فوج کے ان دونوں افسروں نے ذاتی طور پر یا فوج کی طرف سے اس الزام پر تبصرہ سے گریز کیا ہے۔ بلاشبہ یہ رویہ فوج کے وقار اور ملکی سلامتی میں اس کے کردار کے حوالے سے مناسب اور ذمہ دارانہ ہے۔ تاہم اس بیان سے شبہات کی جو فضا پیدا ہوئی ہے، اس کا دور ہونا بھی اہم ہے۔ کراچی میں ایک جعلی مقدمہ میں آئی جی پولیس پر دباؤ کے ذریعے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے جو صورت حال پیدا کی گئی تھی ، اس سے پیپلز پارٹی کی حیثیت تو متاثر نہیں ہوئی اور نہ ہی پی ڈی ایم میں کوئی انتشار پیدا ہؤا لیکن سیاست میں فوج کے کردار کے بارے میں شدید تحفظات نے ضرور سر اٹھایا تھا۔ یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ جب ملک میں متحدہ اپوزیشن ایک نکاتی ایجنڈے پر حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی ہے اور سیاسی احتجاج کا واحد نکتہ سیاسی و انتخابی عمل میں غیر منتخب اداروں کی مداخلت کا معاملہ ہے تو اپوزیشن کے جلسہ کے بعد مسلم لیگ کے ایک لیڈر کو سنسنی خیز طور سے گرفتار کرکے آخر کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی تھی؟

جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاشبہ اس موقع پر قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور اس واقعہ کی تہ تک پہنچنے کے لئے تحقیقات کا حکم دیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اس میں ملوث لوگوں کو سزا دی جائے گی۔ آرمی چیف کی مداخلت سے جس طرح گزشتہ ماہ پیدا ہونے والا ایک سنگین سیاسی بحران ٹالا گیا تھا ، اسی طرح اس واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ اور ذمہ داروں کی سرزنش کے ذریعے ملک میں سیاسی تصادم کو رفع کرنے کا کام بھی لیا جاسکتا تھا۔ البتہ آئی ایس پی آر کا بیان یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس بیان میں آئین سے فوج کی وابستگی کا اعلان اور یہ اقرار سامنے آنا چاہئےتھا کہ کوئی عسکری ادارہ کسی سول معاملہ میں مداخلت کا کوئی حق نہیں رکھتا ۔ اس اصول کی خلاف ورزی کرنے والا ہر شخص اپنے فعل کا ذمہ دار ہوگا۔ فوج کی طرف سے یہ اعلان کوئی نئی بات نہ ہوتی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ متعدد مواقع پر آئین سے وفاداری اور سیاسی عمل سے لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ تاہم ایک غیر قانونی واقعہ پر فوجی تحقیقات کے اعلان میں اس عہد کو شامل کرنے سے اپوزیشن کے شبہات رفع ہوسکتے تھے۔ فوج نے یہ موقع ضائع کردیا ہے۔ اس سے شبہات میں اضافہ ہوگا اور سیاست میں فوجی کردار کے بارے میں مزید قیاس آرائیاں ہوں گی۔

آئی ایس پی آر کے بیان پر دوسری پریشانی یہ ہے کہ اس میں رینجرز اور آئی ایس آئی کے اقدام کو ’جذباتیت‘ قرار دے کر اس کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیان میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’قائد اعظم کے مزار کا تقدس پامال ہؤا تھا اور اس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوگیا تھا۔ کراچی پولیس تساہل سے کام لے رہی تھی۔ صورت حال کے دباؤ میں رینجرز اور آئی ایس آئی کے افسروں نے جذباتی ایکشن لیا حالانکہ ایسے تجربہ کار افسروں کو تحمل و بردباری سے کام لینا چاہئے تھا۔ ان کے ایکشن کی وجہ سے اداروں میں غلط فہمی پیدا ہوئی‘۔ یہ نقطہ نظر ایک تو کراچی پولیس کے عدالت میں پیش کئے گئے چالان سے متصادم ہے جس میں اس مقدمہ اور الزام کو جھوٹا کہا گیا ہے۔ دوسرے عوامی دباؤ یا احتجاج کی اطلاعات بھی اس رپورٹ سے پہلے سامنے نہیں آئی تھیں۔ اس طرح یہ رپورٹ صورت حال واضح کرنے کی بجائے اسے مزید مشکل بنانے کا سبب بنی ہے۔ دو افسروں کو عہدے سے ہٹانے کے اعلان پر اگرچہ بعض اپوزیشن لیڈر ’اطمینان‘ کا اظہار کررہے ہیں لیکن بیان کا غیر واضح متن اس تاثر کو قوی کرے گا کہ کچھ چھپانے اور کسی کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سرکاری طور سے یہ بتانے کے بعد کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری عوامی غصہ و دباؤ کو کم کرنے کے لئے ضروری سمجھی گئی تھی، اب فوج کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ عوامی دباؤ موجود تھا۔ 19 اکتوبر کو کراچی میں اپوزیشن کے جلسے کا ہنگامہ تھا اور رات گئے تک اس جلسہ کے بارے میں ہی خبریں سامنے آرہی تھیں۔ جلسہ کے بعد رات گئے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے پہلے پاکستانی عوام کو خبر بھی نہیں تھی کہ مزار قائد پر اس روز کوئی نعرے بازی بھی ہوئی تھی ۔ اس کے برعکس یہ اطلاعات اور الزامات ضرور سامنے آچکے ہیں کہ اس معاملہ میں ایک وفاقی وزیر متحرک رہا تھا۔ تحریک انصاف کے لیڈر پولیس پر دباؤ ڈالنے کے لئے پولیس تھانے کے چکر لگاتے رہے تھے ۔ اور شکایت کنندہ جس نے بعد میں پولیس کو بیان دینے سے بھی گریز کیا ، پی ٹی آئی کے ایک لیڈر کا عزیز ہے۔ اس صورت میں فوج کی تحقیقاتی عدالت کو ان عناصر کا نام لینا چاہئے کہ کون لوگ آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسروں کو عوامی غم و غصہ کے بارے میں معلومات فراہم کررہے تھے۔

رینجرز اور آئی ایس آئی اگرچہ حاضر سروس فوجی افسروں کی نگرانی میں کام کرتے ہیں لیکن ان دونوں اداروں کے سربراہ تکنیکی لحاظ سے وزیر اعظم کو رپورٹ کرتے ہیں اور ان کے حکم کے پابند ہوتے ہیں۔ فوجی تحقیقاتی رپورٹ یہ بتانے سے قاصر رہی ہے کہ اس معاملہ میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے کیا ان اداروں کے مقامی افسروں نے وزیر اعظم سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس کی تھی۔ اپوزیشن جلسے کے فوری بعد شریف خاندان کے ایک رکن کی گرفتاری کے سیاسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر اعظم اس واقعہ کو چونکہ کامیڈی قرار دے چکے ہیں، لہذا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ خود اس معاملہ سے باقی پاکستانی عوام ہی کی طرح بے خبر تھے۔ پھر عسکری نظام کی منظم اکائیوں کے ڈسپلنڈ افسروں نے کون سی ہائی کمان کی اجازت سے اپنے جذبات کو کھلا چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یا یہ سمجھ لیا جائے کہ ان اداروں کے بعض افسر جذبات میں ادارے کے ڈسپلن کو فراموش کربیٹھے تھے؟

یوں تو یہ پہلو بھی عام لوگوں کے لئے پریشانی اور حکومت کے لئے شرمندگی کا سبب ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم کی نگرانی میں کام کرنے والے دو اداروں کے دو افسروں نے ایک غیر قانونی حرکت کی لیکن ا س کی تحقیقات کا وعدہ بھی آرمی چیف کو کرنا پڑا اور اس معاملہ پر تحقیقاتی رپورٹ بھی فوجی عدالتی انتظام میں تیار کی گئی ہے۔ وزیر اعظم اس معاملہ سے بے خبر اور لاتعلق رہے ہیں۔ البتہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد ان کے وزیر اطلاعات فوج کی ’خود احتسابی‘ کا کریڈٹ لینے کے لئے ضرور پریس کانفرنس منعقد کرچکے ہیں۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان سے جمہوریت، منتخب حکومت، اختیارات کی تقسیم، سول حکومت کے کردار اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے نت نئے سوالات اور شبہات نے جنم لیا ہے۔ آرمی چیف کے وعدے کی تکمیل تو ہوگئی لیکن جس مشکل سے نکلنے کے لئے انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا، آئی ایس پی آر کا بیان اس میں اضافہ کا سبب بنے گا۔ آنے والے دنوں میں نواز شریف کی ٹوئٹ میں اٹھائے گئے سوالوں کی گونج دیگر سیاسی حلقوں کی طرف سے بھی سنائی دے گی۔ اس پر مستزاد شبلی فراز اس واقعہ کو لے کر مسلسل اپوزیشن کے اتحاد میں رخنہ کی نوید دے رہے ہیں اور مطالبہ کرچکے ہیں کہ اب سندھ حکومت ’بغاوت‘ کرنے والے پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کرکے دکھائے۔

ویسے شبلی فراز تو بلاول بھٹو زرداری کے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کے بعد بھی پی ڈی ایم میں دراڑپڑنے اور اس اتحاد کے ختم ہونے کی خبر سناتے رہے ہیں۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے تازہ انٹرویو نے بی بی سی کے انٹرویو سے پیدا ہونے والی دھند اور غلط فہمی کو دور کیا ہے۔ ڈان ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں بلاول کا کہنا تھا کہ’ اے پی سی کے اجلاس میں کسی کا نام لینے کا فیصلہ نہیں ہؤا تھا لیکن اس میں کسی کا نام لینے سے منع بھی نہیں کیا گیا تھا‘۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین نے اصرار کیا ہے کہ تمام اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر آئین کی بالادستی کے نقطہ نظر سے متحد ہے اور پیپلز پارٹی اس کے ہر فیصلہ کی پابند ہے۔ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے معاملہ پر اتفاق رائے ہے اور اس مطالبہ کے لئے جد و جہد جاری رہے گی۔

بلاول بھٹو زرداری کے تازہ انٹرویو کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات اور حکومت کو پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کا انتظار کرنے کی بجائے بلاول کی اس تجویز پر غور کرنا چاہئے کہ’ موجودہ سیاسی کشیدگی کا حل جمہوری عمل سے ہی ممکن ہوگا۔ مکالمہ صرف جائز اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے پارلیمنٹ سب سے بہتر فورم ہے۔ وہیں پر مکالمہ کے بعد ٹروتھ کمیشن بنایا جاسکتاہے تاکہ دہائیوں کے دوران پیدا ہونے والی بے قاعدگیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے‘۔

بلاول بھٹو زرداری نے ایک ہوشیار سیاست دان کی طرح کراچی واقعہ پر فوج کی رپورٹ کو ’مثبت پیش رفت‘ قرار دینے کے بعد اب حکومت کو عملی طور سے مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک ٹھوس ایجنڈا فراہم کیا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali