گلگت بلتستان میں صاف شفاف انتخابات ناگزیر


پاکستان مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان میں اپنی پانچ برس کی مدت اقتدار مکمل کرچکی اور اب 15 نومبر کو قانون ساز اسمبلی کے 23 حلقوں میں سیاسی جماعتوں و آزاد کھڑے ہونے والے 330 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ عمومی طور پر مقامی سیاسی قیادت وفاقی حکومت میں برسر اقتدار سیاسی جماعت کو ہی کامیاب کراتی آئی ہے، تاہم حالیہ انتخابات میں صورتحال قدرے تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان کے انتخابات کو سنجیدگی سے لیا اور مرکزی قیادت نے بھرپور انتخابی مہم چلانے کے لئے بلند بالا پہاڑوں اور ٹھنڈے موسم میں ڈیرے ڈالے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی انتخابی مہم میں بھرپور شرکت کی۔ قبل از انتخابات پی ایم ایل (ن) کو دھچکا اس وقت لگا، جب نصف درجن سے زائد رہنماؤں نے سیاسی وفاداری تبدیل کرلی، کچھ نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، تو کچھ آزاد حیثیت سے انتخابی میدان میں کھڑے ہو گئے، پی ٹی آئی میں شمولیت کرنے والوں میں نون لیگ کے سابق اسپیکر اسمبلی بھی شامل ہیں۔ لیکن شہباز شریف کی کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا، گو کہ مریم نواز شریف نے مرکزی قیادت کی کمی کو پورا کرنے کی حتیٰ امکان کوشش کی۔

پاکستان تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کو مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی طرح اہمیت نہیں دی، ان کے وفاقی وزرا ء نے بلند بانگ دعوے تو کیے لیکن مقامی سیاسی پنڈتوں کے مطابق پی پی پی و پی ایم ایل (ن) نے متاثر کن انتخابی مہم چلائی۔ فیصلہ تو چند دن بعد ہی سامنے آ جائے گا تاہم دونوں جماعتوں نے قبل از وقت انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات، وفاقی حکومت پر لگا دیے۔ خیال رہے کہ گلگت بلتستان میں انتخابات کے حوالے سے عسکری قیادت نے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کر کے یقین دلایا تھا کہ یہاں صاف و شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا۔

گلگت بلتستان میں سات لاکھ 45 ہزار کے قریب ووٹرز ہیں، جو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ ہونا تو یہ چاہے کہ سیاسی جماعتیں کو ایسا موقع نہیں دیا جائے کہ وہ انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھائیں، لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور وفاقی وزرا ء نے انتخابی جلسوں سے براہ راست خطاب اور ریلیوں میں شرکت کی اور بڑے بڑے منصوبوں کے علاوہ وزیر اعظم نے بھی گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کا زبانی اعلان بھی کر دیا۔

انتخابی ضابطہ اخلاق کے مطابق حکومتی شخصیات کسی انتخابی جلسے میں شرکت، دورے، تبادلے سمیت ایسے اقدامات نہیں کر سکتی جس سے عوامی رجحان میں یہ تاثر پیدا ہو کہ سرکاری وسائل کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ عمومی تاثر ہے کہ وفاق پر حاکم جماعت کا ساتھ دینے کی صورت میں انہیں فنڈز و مراعات ملنا سہل ہوتا ہے، لیکن مجموعی طور پر پی ٹی آئی ان ڈھائی برسوں میں عوام میں ایسا مثبت تاثر چھوڑنے میں فی الوقت کامیاب نہیں ہو سکی، جس سے ان کے کسی وعدوں یا دعووں پر یقین کیا جاسکے۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کمزور ترین معیشت، بدترین مہنگائی، انتہائی بے روزگاری سمیت دیرینہ عوامی مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، حزب اختلاف کی جماعتیں پی ٹی آئی کو ان ایشوز پر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں تو جواباً انہیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص پی پی پی کی سندھ حکومت میں کارکردگی پر نکتہ چینی وتیرہ بن چکا، دوسری جانب پی ایم ایل (ن) جس سیاسی بحران کا شکار ہے، ان حالات میں تو قریبا تمام قیادت اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، حکومت/ریاست مخالف بیانیہ کے ساتھ مریم نواز اس وقت اپنی جماعت کی مکمل قیادت کر رہی ہیں، اس لئے گلگت بلتستان کے انتخابی جلسوں میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر عوامی رجحان کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کراچی آئی جی واقعے رپورٹ پر نواز شریف کا سخت ردعمل، ریاست مخالف بیانیہ کے تسلسل پر پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو تحفظات ہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابات صرف اس خطے کے لئے ہی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ اس کا براہ راست اثر پی ڈی ایم کی تحریک پر بھی پڑ سکتا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی کامیابی سے حکومت کو سیاسی دباؤ کا سامنا ہوگا کیونکہ گلگت بلتستان کے انتخابات پر پاکستان ہی بلکہ بھارت سمیت پوری دنیا کی توجہ مرکوز ہے، انہی حالات میں پی ٹی آئی کی حکومت کو جنوری میں ’رخصت‘ کرنے کے دعوے کرنے والی پاکستان ڈیمو کر ٹیک موومنٹ کو دونوں جانب سے فائدہ ہی ملے گا، اگر انتخابات میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو پی ٹی آئی کی ’نا اہلی‘ کا بیانیہ زور پکڑے گا، گر ناکام ہو جاتے ہیں تو دھاندلی کا شور تو پہلے ہی مچا دیا گیا، لہذا آنے والوں جلسوں میں پی ڈی ایم کے بیانات مزید جارحانہ ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں، اس حوالے سے دیکھا جائے تو جیت یا شکست پر پی ڈی ایم کو بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاسی کامیابی ہی ملے گی، تاہم پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جیتنے پر سرکاری وسائل کا استعمال کے الزامات، دھاندلی اور انتخابی جلسوں میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے باعث شفاف انتخابات کا بیانیہ کمزور ہو جائے گا، شکست پر سیاسی دباؤ بڑھ جائے گا اور پی ڈی ایم کے جارحانہ اقدامات کا دفاع کرنے کے لئے نئی حکمت عملی کی ضرورت پڑے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان میں انتخابات کے بعد جو بھی ’نتائج‘ سامنے آئیں، سیاسی جماعتوں کو اپنے جذباتی و سخت بیانات میں ریاستی اداروں کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کرنا ہوگا، کیونکہ گلگت بلتستان کے انتخابات کا اثر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنے والے کشمیریوں پر پڑے گا، عالمی برداری میں نتائج پر ریاست مخالف بیانیہ سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ٹھیس پہنچے گی، مودی سرکار کے منفی بیانیے سے عالمی برداری کو گمراہ کرنے کا موقع ملے گا۔

لہذا سیاسی مخالفت کے باوجود شفاف و غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے، عالمی مبصرین کو یہ موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ یہ سمجھیں کہ گلگت بلتستان کی عوام کی منشا کے بغیر قانون ساز اسمبلی کے اراکین ’سلیکٹ‘ کیے گئے۔ صاف شفاف انتخابات سے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے کشمیری مجاہدین کو ہمت و تقویت ملے گی کہ پاکستان میں شمولیت کے بعد ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، گلگت بلتستان میں عوام جس جماعت کو بھی منتخب کرانا چاہتے ہیں انہیں مکمل آزادی حاصل ہو، انتخابی نتائج کو صاف و شفاف ہونا چاہیے تاکہ کسی کو بھی پوائنٹ اسکورنگ کا موقع نہ ملے، کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).