اقتدار کی ہوس


مرکزیت کی کمزوری اور ارباب اقتدار کی خرابیوں کی تقلید سے قوموں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اگر ان خرابیوں کی اصلاح کر دی جائے تو قوموں میں پیدا شدہ بگاڑ کا ازالہ خود بخود ہونا شروع ہوجاتا ہے کیوں کہ اگر ارباب اختیار کے قدم درست راستے پر ہوں تو قوم بھی ان کے نقش قدم پر ازخود چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اکابرین کی تقلید کی خرابی کی ایک شکل ارباب اختیارکے اختیار کی حد کا تعین نہ ہونا ہے جس کے نتیجے میں عوام بھی ردعمل میں لاقانونیت پر اتر آتے ہیں اور اس باہمی نفاق اور ابہام کے باعث مملکتوں کا نظم و نسق تباہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے سامنے مغربی جمہوریت کی مختلف اشکال ہیں۔ جمہوریت کی مختلف شاخیں اپنی توجیہات اور دلائل کے ساتھ ارتقائی منازل سے گزر رہی ہیں جس میں حتمی اختیارات کو جانچنے کے تمام پیمانوں پر کسی بھی فریق کے منطقی اختیار کو تسلیم کرنے کا عمل بہت کم پایا جاتا ہے۔

ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حتمی اختیار کے تعین کے بغیر نظام مملکت کے کسی بھی ادارے کو چلانا ممکن نہیں۔ بعض ممالک میں بادشاہوں، مذہبی پیشواؤں نے باہمی سمجھوتے کے تحت ایک ایسا نظام واضح کیا جسے انسان کی عملی زندگی میں دائر اقتدار بانٹنے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ مذہبی دائرے میں تھیوکریٹ، دنیاوی معالات میں بادشاہت۔ انداز و اسالیب حکومت کے انداز چاہے کسی بھی شکل میں تبدیل ہوں لیکن اس کے لئے ایک نظریہ شروع سے آخر موجود رہتا ہے اور وہ نظریہ ”انسان کی انسانوں پر حکومت کا“ ۔

اس نظریے کو سیکولر انداز حکومت سے متصادم بھی قرار دیا جاتا ہے کہ انسان کی ذاتی زندگی کے مذہبی اور دنیاوی معاملات کو مذہب اور معاملات میں اس کی منشا کے مطابق گزارنے کے بجائے انسان سے انسانی احکامات کو منوانے کے لئے ہر جائز و ناجائز عمل کا سہارا لیا جائے۔ ”انسان کی انسان“ پر حکومت کے تابع ان حکمرانوں کے ہاتھوں ہی ”انسانیت“ جس بربریت کا شکار ہوئی اس کے تصور سے ہی انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔

”انسانوں پر انسان“ کی حکومت کے خلاف کچھ مفکرین نے ”نظریہ میثاق“ کے نام سے ایک ایسا معاہدے کا تصور دنیا کے سامنے رکھا کہ چونکہ ہر انسان اپنی مذہبی و شخصی آزادی کو بلا شرکت غیرے برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن تمدنی زندگی میں یہ مشکل امر ہے لہٰذا حکومت افراد کے نمائندگان پر مشتمل ہونی چاہیے اور اگر نمائندوں میں اختلاف پیدا ہو جائے تو فیصلہ اکثریت پر چھوڑ دیا جائے۔ اس عمل کو ڈیموکریسی یا جمہوریت کہتے ہیں۔

شخصی حکومتوں کے ڈسے عوام نے اسے نعمت سمجھ کر ستائش کے قصائد کشید کیے اور اس کے نفاذ پر مسرت اور شادمانی کے جشن منا کر سمجھ لیا کہ انسانیت نے آزادی کے گم گشتہ کو پھر سے پا لیا گیا ہے۔ دنیا کی قریب قریب تمام اقوام نے اس نظام کا خیر مقدم کرتے ہوئے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور کرہئی ارض، جمہوریت جمہوریت کے نعرے سے گونج اٹھا لیکن اس نظام نے اپنی فریب انگیزی سے انسانوں پر انسانوں کی حکومت کے تصور سے زیادہ نقصان دیا اور عوام کو اقتدار اعلیٰ کا منبع سمجھنے کی تقلید میں اکثریت کے ان تمام فیصلوں کو بھی درست قرار دیے جانے لگا جو کہ زمینی حقائق و مفاد عامہ کے خلاف تھے۔ غلط یا صحیح کا معیار بھی شخصیت پرستی میں گم ہو گیا۔ اکثریت کی سوچ شخصیت کی خوشنودی کے تابع ہو گئی۔

اقتدار اعلی کا تصور کیا یہ ہے کہ کسی ایسی جماعت کے ہاتھ میں اختیارات کی باگ ڈور دے دی جائے جیسے عوام کی مجموعی اکثریت مسترد کر چکی ہوتی ہے؟ کیا اقتدار میں آنے والی جماعت کے مقابلے میں مخالفت میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد کئی گنا زیادہ نہیں ہوتی؟ ہم جمہوریت میں اکثریت کے اصول کو پہلے ہی مرحلے میں اس لئے مسترد کر دیتے ہیں کیونکہ قوم سیاسی، مذہبی بنیادوں پر بنائی جانے والی پارٹیوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔

بادشاہت ہو یا سیکولر طرز حکومت میں جمہوریت کی بازگشت خود فریبی اور فسوں گری کے سوا کچھ نہیں۔ تو پھر ایسا کیا کیا جائے کہ عوام کو اپنی فانی زندگی کے تفکرات سے نجات اور راحت کے کچھ لمحات میسر آسکیں۔ یقینی طور پر ہرنظام کا ماننے والا اپنے نظام کی تشریح میں دلائل دیتے ہوئے خود کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اگر انسان بحیثیت انسان یہ سمجھنے کے لئے خود کو تیار کرلے کہ حق حاکمیت اسی کا ہے جس کے زمین و آسمان ہیں تو آئین مملکت بھی اسی کا ہونا چاہیے اور اس آئین میں انسان کی حیثیت متعین کردہ حدود میں ہو تو پھر معاشرے میں کوئی بھی بگاڑ پیدا نہیں کر سکتا۔

حتمی اختیار کے لئے مطالب اور تشریح کے لئے خود ساختہ اختیارات سے بے اعتنائی کے بعد ہی ممکن ہے کہ ہم اجتہاد کے راستے پر چل کر درست اقدام اٹھائیں۔ فی الوقت جو بھی نظام حکومت ہمیں میسر ہے اس میں عوام کا پہلا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ ”اپنے“ جیسے اپنے ”نمائندوں“ کو منتخب کر کے اکابر کی تقلیدی سحر کے منفی جمود کو توڑ کر ازخود حتمی اختیار منقسم کریں۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ قوم سے سوالات پوچھنے کے بجائے ملت کے زوال کے صحیح اسباب سے سبق حاصل کر کے ان عوامل سے بچا جائے جن کے نتیجے میں پاکستانی قوم انتشار کا شکار ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ہر بار غلطیوں کا اعتراف کر کے راہ راست سے دوبارہ انحراف تو نہیں کیا جائے گا۔ مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کی چھوٹی سی لغزش بھی اس بڑے انحراف کا راستہ ہموار کردیتی ہے جو تاریخ میں تبدیلی کے اثرات کچھ اس طرح چھوڑ جاتی ہے کہ اہل فکر بھی اس کاتدراک کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔

بادی نظر میں اب بھی ایسا لگتا ہے کہ ماضی سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ خواہش اقتدار کے سبب بعض ملکی سرخیلوں کے جوہر انسانیت قریب قریب مردہ ہوچکے ہیں۔ نہ ان کے سینہ میں قوم کی حیات کے لئے زندہ آرزوؤں کی کوئی مقدس قندیل روشن ہے اور نہ ہی ان کی نگاہوں میں قومی وقار کے بلند مقصد کی درخشندگی کی کوئی رمق باقی ہے۔ ہوس اقتدارکو ہزار لعنتوں کی ایک لعنت اور جذام کا مرض قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جسد انسانیت میں اقتدار کی ہوس کے تباہ کن اثرات قوم کی جسم میں داخل کر دیے گئے ہیں کہ قوم سے جھوٹے وعدے وعید کرنے والے سرخیلوں نے ثابت کر دیا کہ میدان اقتدار ایسے سعی و عمل کا نام ہے۔ قوم نے خود کو دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے کہ جنہوں نے انہیں بار بار فریب دیا شاید اس بار نہیں دیں گے۔ نہ جانے کیوں ہماری ایسی حالت ہو گئی ہے کہ کسی کی خاص تراش خراش کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ دکھاوا قابل ضمانت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).