یوم رسولؐ پر سنت رسولؐ سے انحراف


\"img-20161212-wa0086\"وزیر اعظم نواز شریف آج لاہور میں جس وقت عید میلاد النبیؐ کی مناسبت سے منعقد ہونے والی سیرت کانفرنس میں علما سے معاشرے میں انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کررہے تھے، اسی وقت چکوال میں حب رسولؐ کے نعرے لگاتے ہوئے ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ احمدیوں کی ایک عبادت گاہ پر حمہ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے میں مصروف تھے۔ پنجاب حکومت کا اس بارے میں مؤقف تھا کہ دو گروہوں میں غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے اور حکومت صورت حال پر پوری توجہ مبذول کئے ہوئے ہے۔ پنجاب حکومت کے بیان کردہ دو گروہوں کا عالم یہ تھا کہ ایک طرف ایک ہزار لوگ نعرے لگاتے احمدیوں کی سوسال پرانی عبادت گاہ پر حملہ آور تھے اور اس عمارت میں موجود چالیس پچاس لوگ دروازے بند کرکے پولیس کا انتظار کررہے تھے۔

پولیس حسب دستور اس وقت موقع پر پہنچی جب ہجوم محصور لوگوں کو مار بھگانے ، عمارت پر قابض ہونے اور وہاں موجود اسباب کو نذر آتش کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اب حکومت پنجاب اور اس کی مستعد پولیس اطمینان سے کہہ سکتی ہے کہ صورت حال کنٹرول میں ہے۔ اسی قسم کی بزدلانہ سرکاری پالیسیاں اس ملک میں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہیں جو اپنی اکثریت، قوت اور نعروں کی صلاحیت کی بنیاد پر دوسرے گروہوں اور اقلیتوں کا جینا حرام کئے ہوئے ہیں۔ اسی قسم کی حرکتوں سے معاشرے میں خوف اور انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے لیکن ہر قیمت پر انتہا پسندی، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی دعویدار حکومتیں ’اکثریت‘ کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے معاملہ رفع دفع کروانے میں مصروف رہتی ہیں۔ ایسے ماحول میں جہاں سارے اختیارات کی مالک حکومت اپنا اختیار اور اتھارٹی استعمال کرنے کا حوصلہ نہ کرتی ہو، وہاں علما کیا کریں گے۔ معاشرہ میں ایسی فضا پیدا کردی گئی ہے کہ نفرت انگیز نعرے لگانے والوں کی بات بھی سنی جاتی ہے اور ان سے باز پرس کرنے کا حوصلہ نہ حکومت کو ہوتا ہے اور عدالتیں اس قسم کے تنازعہ میں مستعدی کا مظاہرہ کرناضروری سمجھتی ہیں۔ چکوال میں ایک اقلیت کے خلاف جو اقدام کیا گیا، وہ اسی رسول مقبول ﷺ کی سنت اور نصیحت کے برعکس تھا جس کی محبت کے نعرے لگاتے ہوئے ہزار نو سو لوگوں نے آج بعض لوگوں سے زندہ رہنے اور عبادت کرنے کا حق چھیننے کی کوشش کی۔

یہ واقعہ عید میلادالنبیؐ کے مبارک موقع پر رونما ہؤا ہے۔ ایک مقامی مذہبی رہنما باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے پیروکاروں کو احمدیوں کے مرکز پر حملہ کے لئے لے کر گیا تھا۔ وہ اس سے پہلے احمدی رہنماؤں سے یہ عمارت اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا رہا تھا۔ جب وہ دھمکیوں کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہؤا تو اس نے عید میلادالنبیؐ کے جلوس کو بلوائیوں میں تبدیل کرکے یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ احمدی تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ کے دوران ایک شخص حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگیا لیکن پنجاب حکومت مطمئن ہے کہ اس موقع پر کوئی بڑا ’فساد‘ رونما نہیں ہؤا۔ مذہبی شدت پسندی کے خلاف حکمرانوں اور معاشرے کا یہی ’مفاہمانہ‘ رویہ ملک کو مسلسل تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل رہا ہے لیکن ہمارے لوگوں اور لیڈروں کو نعروں کے شور میں منزل کھوٹی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔\"img-20161212-wa0085\"

افسوسناک حد تک مضحکہ خیز سچ یہ بھی ہے کہ آج ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھارتی وزیر داخلہ کی طرف سے پاکستان کے دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی کے جواب میں کہا تھا کہ بھارت میں نفرت کی دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں اور ہندو انتہا پسند اقلیتوں کا جینا حرام کررہے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہو سکتی ہے لیکن دوسروں کی اصلاح کرنے سے پہلے حکمرانوں کو اپنے آنگن میں فروغ پانے والی شدت پسندی، مذہبی منافرت، اقلیتوں کے خلاف جارحیت اور مسائل حل کرنے کے لئے طاقت کے استعمال جیسے رویوں پر قابو پانا پڑے گا۔ وزیر داخلہ ملک میں قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ کیا وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے پوچھیں گے کہ ان کی حکومت کا طرز عمل قومی ایکشن پلان کے خلاف کیوں تھا۔ اور چکوال میں ہونے والے ہنگامے اور زور زبردستی میں جو لوگ ملوث تھے ، انہیں فوری طور سے گرفتار کرکے کیفر کردار کو پہنچایا جائے۔

وزیر اعظم نے سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ رسول پاک ﷺ نے دشنام طرازی اور نفرت پھیلانے سے منع کیا ہے۔ اللہ کے پیارے رسولؐ نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس کے مطابق انسانیت کا احترام بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ نواز شریف نے اس حدیث مبارکہ کا حوالہ بھی دیا کہ ایک انسان کی زندگی کا احترام خانہ کعبہ کے احترام کے برابر ہے۔ چکوال میں بلوائیوں کے حملے کے خوف اور دہشت سے مرنے والے کے لواحقین یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ان کے عزیز کو یہ احترام کیوں نہیں دیا گیا اور جو لوگ حدیث نبوی کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں ، پنجاب کی حکومت ان کے بارے میں نرم دلی کا مظاہرہ کس اسلامی حکم یا قانون کی رو سے کررہی ہے۔

وزیر اعظم نے رسول پاک ﷺ کے آخری خطبہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’مہذب معاشرے مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں‘۔ جس روز پاکستان میں آباد لوگ اور ان کے حکمران اس پیغام کی اہمیت، حکمت اور معنویت کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنا خود پر فرض کرلیں گے، اسی روز اس ملک کے مصائب کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments