لیویز دوراہے پر: پولیس میں ضم کرنے کے بجائے الگ کیڈر بنایا جائے


فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بعد سب سے اہم معاملہ یہاں کے انتظامی سیٹ اپ کو مین۔ سٹریم کرنا تھا۔ اس حوالے سے کئی سے معاملات کو نسبتاً آسانی سے حل کرایا گیا جبکہ بہت سے معاملات تاحال حل طلب ہیں۔ انہی معاملات میں ایک قبائلی پولیس یعنی لیویز کی حیثیت کو متعین کرنا ہے۔ اس حوالے سے اب تک کئی فارمولے پیش کیے گئے ہیں۔ اولین فیصلہ یہ تھا کہ لیویز کو لوکل گورنمنٹ کے تحت کر کے ان سے میونسپل پولیس کا کام لیا جائے گا۔

بعد میں اس فورس کو وفاق سے صوبے کو منتقل کر کے اس کو صوبائی لیویز کی حیثیت دیدی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ یہ فورس پولیس کے متوازی حیثیت سے کام کرے گی یعنی لیویز کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی ان علاقوں میں تعینات کیا جائے گا۔ پولیس کی تعیناتی کے خبر سے لیویز کی طرف سے ردعمل سامنے آنا شروع ہوا۔ ان کا موقف تھا کہ لیویز کے ہوتے ہوئے پولیس کی تعیناتی نہیں ہونی چاہیے۔ اس ردعمل کے بعد وقتاً فوقتاً کئی نوٹی فیکیشن جاری ہوئے جس کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا تھا کہ لیویز کو پولیس میں ضم کر دیا گیا ہے۔

تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے کہ بغیر ہوم ورک کے ایک حکم نامے سے حل کیا جاسکے۔ اس معاملے سے بہت سے ٹیکنیکل مسائل جڑے ہوئے ہیں جن کو حل کرنا بہت ضروری ہے۔ نیز پولیس میں ضم کرنے کے نوٹیفیکیشن کے باوجود کنفیوژن برقرار ہے۔ مثلاً کئی لیویز اہلکاروں کو پولیس سروس کارڈ جاری نہیں کیے گئے ہیں جس سے ان کی حیثیت اور پولیس میں انضمام کا حکم نامہ مشکوک ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیویز اہلکار وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

ٹیکنیکل ایشوز کی بات کی جائے تو سب سے بڑا مسئلہ ان کی سینیارٹی لسٹ مرتب کرنے کا ہے۔ لیویز اور پولیس کی سینیارٹی باہم متصادم ہے۔ ان کی ایک لسٹ بنانا ناممکن ہے کیونکہ اس صورت میں ان کو ایک دوسرے سے آگے پیچھے کرنا پڑے گا جو لیویز کے حق میں ہوگا نہ پولیس کے۔ مثال کے طور پر ایک لیویز اہلکار کو پولیس میں انسپکٹر بنا کر اس کو اس کے سروس کی بنیاد پر انسپکٹرز کی سینیارٹی میں آگے رکھا جاتا ہے تو پولیس کے وہ سب انسپکٹرز، جن کی ترقی کا نمبر تھا، وہ اس عمل سے اپنی ترقی سے محروم رہ جائیں گے۔ اس کے برعکس لیویز کے کسی اہلکار کو پولیس سینیارٹی میں پولیس سے پیچھے رکھا جاتا ہے تب یہ اس لیویز اہلکار سے زیادتی ہوگی۔

دوسرا ایشو، جس پر لیویز اہلکار سراپا احتجاج رہتے ہیں، پولیس کی قبائلی علاقوں میں تعیناتی کا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ لیویز اہلکاروں کو موقف ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے باہر سے پولیس منگوانا ضروری نہیں اور یہ کہ صرف انہی کو ان علاقوں میں تعینات رہنے دیا جائے۔ اصول تو یہ ہے کہ صوبائی سطح کے اہلکار صوبے میں کسی بھی جگہ پر تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ لیویزکی قربانیوں، قبائلی علاقوں کی محرومیوں کی تاریخ اور خود اپنی آسانی کے لئے حکومت کو یہ مسائل حل کرنے چاہیے۔ لیویز اہلکارتھوڑی رعایت کے مستحق ہیں۔

ان ایشوز کو جوں کا توں رکھنے کے بجائے دوسرے قابل عمل آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔ سب سے بہتر قابل عمل آپشن اس وقت یہی باقی بچتا ہے کہ اس فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے بجائے اس کو لیویز ہی رہنے دیا جائے مگر متوازی نظام قائم ہونے سے بچنے کے لئے اس کو پولیس کا ایک الگ کیڈر بنایا جائے۔ جس طرح دوسرے محکموں میں ایک سے زائد کیڈر ہوتے ہیں جن کی ڈیوٹی اور سینیارٹی وغیرہ اسی ایک محکمے کے دوسرے کیڈرز سے الگ ہوتی ہیں اسی طرح لیویز بھی پولیس کا حصہ ہونے کے باوجود ایک الگ شناخت کے ساتھ موجود ہوگی جن کی اپنی سینیارٹی اور ڈیوٹی کا اپنا الگ حلقہ ہوگا۔ نیز ان کو مالاکنڈ کی طرز پر پولیس اختیارات دیے جائے لیکن پولیس کا ایک کیڈر ہونے کی حیثیت سے یہ ڈپٹی کمشنر کے بجائے پولیس افسر کے ماتحت ہوگے۔ آخری حل طلب ایشو ان کی تنخواہوں اور مراعات کا ہے۔ پولیس کا کیڈر ہونے کی حیثیت سے ان کو بھی پولیس کے برابر مراعات حاصل ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).