کیا اس ملک میں صرف علی وزیر ہی قانون شکن ہے؟


بلاول بھٹو زرداری کی مذمت کے باوجود کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو دو دیگر افراد کے ہمراہ دس روز کے لئے پولیس ریمانڈ میں دے دیا ہے۔ ان پر ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز اور ناپسندیدہ زبان استعمال کرنے کا الزام ہے۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ پی ٹی ایم نے 9دسمبر کو اجازت کے بغیر جلسہ منعقد کیا تھا۔ سوچنا چاہئے کہ کیا اس ملک میں صرف علی وزیر ہی قانون شکن ہے؟

 اہم اپوزیشن لیڈروں اور خاص طور سے بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اس گرفتاری کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے مذمت کے باوجود علی وزیر کی گرفتاری اور ان کا پولیس ریمانڈ، ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں تشویشناک پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ پولیس بر اہ راست صوبائی حکومت کے ماتحت کام کرتی ہے۔ پاکستان میں ابھی انتظامی ڈھانچہ اتنا شفاف اور خود مختار نہیں ہؤا کہ پولیس جیسا ادارہ صوبائی حکومت کی مرضی و منشا کے بغیر کسی سیاسی لیڈر کے خلاف اقدام کرسکے۔ پیپلز پارٹی صرف اپنے موجودہ سیاسی مؤقف ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ عام طور سے سیاسی رائے کے اظہار کو قابل قبول طریقہ سمجھتی ہے۔ اسی اصول کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے گزشتہ دور حکومت میں کسی شخص کو سیاسی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا تھا۔ آصف علی زرداری بجا طور سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ اب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے باوجود پی ٹی ایم کے لیڈر اور قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو پولیس ریمانڈ میں دیا گیا ہے۔ بجا طور سے اس کی اجازت عدالت نے دی ہے لیکن یہ درخواست پولیس افسر کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔

 یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ سندھ میں سید مراد علی شاہ کی حکومت اپنی پارٹی کے اصولوں اور چئیرمین کے دو ٹوک مؤقف سے گریز کررہی ہے۔ تاہم سندھ پولیس کی درخواست پر پشاور سے علی وزیر کی گرفتاری اور آج کراچی کی عدالت سے ان کے ریمانڈ سے یہ سمجھنا غلط نہیں ہوگا کہ صوبائی حکومت اس معاملہ میں بےبس ہے۔ سندھ پولیس کے بعض عناصر کو ایسے طاقتور حلقوں کی تائد و حمایت حاصل ہے کہ انہیں صوبائی حکومت کی ناراضی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایک سیاسی رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن کی گرفتاری یا ریمانڈ کے علاوہ پولیس کے طریقہ کار اور رویہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

برائے نام ہی سہی ملک میں اس وقت ایک منتخب حکومت کام کررہی ہے۔ اس کے سربراہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا دباؤ کم کرنے کے لئے تسلسل سے دیے گئے انٹرویوز اور بیانات میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ’فوج میرے نیچے ہے‘۔ گزشتہ روز ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں اگرچہ وزیر اعظم فوج کے ’ترجمان اور نمائندے‘ کے طور پر یہ بتارہے تھے کہ نواز شریف کی طرف سے آرمی و آئی ایس آئی چیفس کے نام لینے پر فوج میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ یہ تو ’جنرل باجوہ ایک سلجھے ہوئے آدمی ہیں۔ ان کے اندر ٹھہراؤ ہے۔ اس لیے وہ برداشت کر رہے ہیں۔ کوئی اور فوج میں ہوتا تو بڑا ردعمل آنا تھا‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’فوج میرے نیچے ہے‘۔

 اس سے یہی مراد لی جاسکتی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اپنے ماتحت ایک محکمہ کے افسروں کے ناموں کو سیاسی جلسوں میں استعمال کرنے پر غصہ کا اظہار کررہا ہے۔ شاید اسی لئے فوج پر مکمل کنٹرول کی بات کرنے کے باوجود وزیر اعظم فوجی ردعمل کا تذکرہ کررہے تھے۔ عمران خان کی اس بات کو اگر ویسے ہی مان لیا جائے جیسے کہ وہ بیان کررہے ہیں تو علی وزیر کی گرفتاری، توہین آمیز طریقے سے ہتھکڑیاں لگا کر ان کی کراچی منتقلی اور اب پولیس ریمانڈ کے بعد یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وزیر اعظم کی جمہوری سیاست اور فوج کے سربراہ کا ٹھہراؤ، بس اتنے ہی حوصلہ کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟ کیا تحریک انصاف ملک میں آزادی رائے اور صوبائی خود مختاری کے حوالے سے ایسی ہی مثالیں قائم کرکے اپنا اعتبار بحال کروانا چاہتی ہے؟

علی وزیر کی گرفتاری کئی حوالوں سے قابل غور اور تشویشناک ہے۔ اسے پشتون نوجوانوں کے حقوق کی پر امن تحریک کے خلاف ریاست کی جارحیت قرار دیا جائے گا۔ ملک میں اس وقت پائے جانے والے شدید سیاسی غم و غصہ اور چھوٹے صوبوں میں سامنے آنے والی ناراضی کے تناظر میں علی وزیر کی گرفتاری کو مرکزی حکومت اور ریاست کی اشتعال انگیزی سمجھا جائے گا۔ تصویر کا یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ علی وزیر کو سندھ پولیس کے ہاتھوں گرفتار کروایا گیا ہے جبکہ وہاں کی حکمران پارٹی کے چئیرمین اس گرفتاری کو اصولی طور سے ناجائز قرار دے چکے ہیں۔ اس کے باوجود صوبائی حکومت کے ماتحت ایک محکمہ کو اس گرفتاری اور علی وزیر کے ساتھ بدسلوکی پر کس نے آمادہ کیا۔

عمران خان کی حکومت اگر فوری طور سے اس معاملہ پر اپنی پوزیشن واضح نہیں کرتی تو اسے صوبائی معاملات میں وفاق کی مداخلت اور وسیع تر سیاسی مفادات کے لئے ایک علاقائی تحریک کے قائدین کو ہراساں کرنے کی کوشش سمجھا جائے گا۔ اس قسم کے اشارے ملکی سالمیت کے لئے ان اندیشوں سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہوسکتے ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستانی علاقوں میں بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کے خطرے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ دشمن کے حملہ کو روکا بھی جاسکتا ہے اور اس کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ مقابلہ کرنے کے لئے جس یک جہتی اور قومی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے، علی وزیر جیسے لیڈروں کی گرفتار ی سے اسے نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

علی وزیر کی گرفتاری کے حوالے سے یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ پاکستان جمہوری تحریک کو پشاور، ملتان اور لاہور میں جلسے کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ یعنی پی ڈی ایم نے ان تینوں مواقع پر وہی ’جرم‘ کیا تھا جس کا الزام لگا کر علی وزیر کو کراچی میں قید کیاگیا ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف ببانگ دہل یہ جلسے منعقد ہوئے بلکہ خیبر پختون خوا اور پنجاب کی حکومتوں نے انہیں روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ وزیر اعظم لاہور کے جلسہ کے حوالے سے خود یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ ’اجازت نہیں دی جائے گی لیکن روکا بھی نہیں جائے گا۔ البتہ اس کا انتظام کرنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا‘۔ لاہور اور ملتان میں یہ قانون یوں حرکت میں آیا کہ عام کارکنوں اور کرسیاں یا ساؤنڈ سسٹم فراہم کرنے والوں کو ہراساں کیا گیا پھر ایسے ہی عناصر کو گرفتار کیا گیا۔ لاہور جلسہ کے بعد مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے خلاف پارک کے سیکورٹی انچارج کی شکایت پر مقدمہ ضرور قائم کیا گیا ہے لیکن پولیس کو کسی قابل ذکر رہنما کو گرفتار کرنے کا حوصلہ نہیں ہؤا۔ کیا اس بے حوصلگی کا سارا بوجھ مقامی تھانہ انچارج پر ڈال کر سیاسی حکمران بری الذمہ ہوجائیں گے؟

اجازت کے بغیر جلسہ منعقد کرنے اور اداروں کی غیر آئینی سیاست گری کے خلاف گفتگو کرنا اگر قابل دست اندازی پولیس جرم ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس کی زد میں صرف علی وزیر اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما آرہے ہیں؟ ملک میں قانون کی بالادستی کے دعوے کرنے والے حکمران براہ راست اپنے اقتدار کو للکارنے اور اسٹبلشمنٹ کے سیاسی اقدامات کو مسترد کرنے والے لیڈروں کو گرفتار کرنے، ہتھکڑی لگانے اور عدالتوں سے ریمانڈ لے کر انہیں جیل بھیجنے کا حوصلہ کیوں نہیں کرتے۔ یہ رویہ عمران خان کی قیادت میں کام کرنے والی تحریک انصاف اور اس کی حکومتوں کا دوغلاپن ظاہر کرتا ہے۔ اس سے قانون کے لئے ان کے احترام یا قومی مفاد کے لئے ان کے کسی احساس کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

اداروں کی توہین کرنے کے جو الزامات علی وزیر اور دیگر قومی لیڈروں پر عائد کئے گئے ہیں، ان کا اطلاق تو خود عمر ان خان اور ان کی حکومت پر بھی ہونا چاہئے۔ اس وقت ان کی سیاست کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ’فوج میرے نیچے‘ ہے۔ یعنی فوج کے ساتھ سیاسی اشتراک کی وجہ سے وہ آئینی بالادستی یا بنیادی حقوق کے لئے بلند ہونے والی کسی بھی آواز کو دبا سکتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے عمران خان کا پسندیدہ طرز استدلال یہ ہے کہ ایجنسیوں کو ان کی ’ایمانداری ‘ کا پتہ ہے جبکہ اپوزیشن لیڈروں کی ’چوری ‘ بھی ان کے علم میں ہے۔ اس دلیل کا واحد یہ مفہوم ہے کہ ملک میں ایجنسیوں کو سیاسی لیڈر پسند کرنے یا نہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ حالانکہ ملک کا آئین یہ اختیار اس ملک کے بالغ عوام کو دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے لوگوں کو منتخب کریں جو اسمبلیوں میں جاکر اس سیاسی منشور کے مطابق فیصلے کریں جس کی بنیاد پر ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ ایجنسیوں سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ لینے کی بات آئین میں موجود نہیں ہے۔ بدعنوانی یا قانون شکنی کا جائزہ لینا اور سزا دینا بھی ایجنسیوں کا کام نہیں ہے بلکہ یہ اختیار متعلقہ اداروں اور عدالتوں کو تفویض کیا گیا ہے۔

عمران خان ایجنسیوں کی ’ریٹنگ‘ کو آئین سے بالادست قرار دے کر دراصل براہ راست آئینی اصولوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اب یہ بات بھی طے ہونی چاہئے کہ اس ملک میں عسکری اداروں یا اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ہی بند نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان سیاسی جماعتوں کو بھی آئین شکن سمجھا جانا چاہئے جو فوج کے ساتھ سیاسی سانجھے داری سے ملک پر حکومت کرنا جائز سمجھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali